• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کراچی سے ہمارے ساتھی ادریس بختیار جاتے رہے۔۔۔۔محمد ہاشم چوہدری

کراچی سے ہمارے ساتھی ادریس بختیار جاتے رہے۔۔۔۔محمد ہاشم چوہدری

عمر بھر کا ایک ہی اثاثہ تھا قلم ! جسے بچاتے بچاتے جاتے رہے چھوڑ کے وہ گلیاں جہاں اک پل بھی چین نہ پایا ،اپنے قلم کو الطاف بھائی کی فرعونیت اور اخباری مالکان کی رعونیت اور کرم فرماؤں کی سازشوں سے چھپا چھپا کے رکھتے رکھتے آخرکار تھک کے سو گئے۔ـ

جب جب کراچی شہر کو آگ لگائی گئی ادریس بختیار اپنے قلم میں پانی بھر بھر کے آگ بجھانے کی اپنی سی کوشش کرتے رہے اور وہ کرتے بھی کیا کہ انہیں محبت کے سوا کوئی کام بھی نہیں آتا تھاـ

بی بی سی پر انکی مدھر آواز سنائی دیتی تو انکے الفاظ میں موجود درد بھی محسوس ہوتا ان کے لہجے کا بانک پن نہ بھولنے والا تھا جب مشرف کا جبر جوبن پہ تھا اور نواز شریف جلاوطن ہوئے تو بڑے بڑے تبصرے تجزیے پڑھے سنے مگر ادریس بختیار نے ان کے جانے پہ جو تبصرہ کیا تھا وہ ایک رپورٹر کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ـ

حیراں ہوں کہ وہ تاحیات ایک رپورٹر ہی رہے، سینئر  ہوئے نہ ایڈیٹر ہوئے، اب یہ لاحقہ کسی صحافی کے ساتھ نہ لگائیں تو توہین صحافت ہو جاتی ہے۔ہیرالڈ جیسے میگزین پر ان کا نام رپورٹر کے طور چھپتا رہا شاید ایڈیٹر ان سے جونئیر ہوتا ہو۔ ـ

صحافت کیا ہوتی ہے ،کیسے کرتے ہیں، کیا لکھتے ،کیسے لکھتے ہیں۔۔۔ ایک اسی ہنر سے آشنا تھے،حیدر آباد والے علی حسن کا ان کے جانے کے بعد کیا حال ہو گا وہ استاد مانتے تھے انہیں، ـ سفید بال سانولی سلونی رنگت صاف قبا اجلا دماغ شیو بنائی ہوئی اور مسکراہٹ سجائی ہوئی ادریس بختیار کہیں سے نمودار ہوتے تو بےاختیار ان سے لپٹ جانے کو جی کرتا ـ۔

میں ان سے ملنے کراچی گیا ہارون ہاؤس میں ہیرالڈ کے دفتر ملاقات رہی، اظہر عباس شامل گفتگو رہے ،پھر جب بھی ملے مزہ آتا ایک مرتبہ فون پہ بات ہوئی کسی مسئلے پہ بات کرنی تھی۔۔ کہنے لگے
جب پیٹ نہ کام کرتا ہو تو دماغ کام نہیں کرتا۔۔۔۔
اس صورتحال سے باہر آنے دو پھر بات کریں گے جناب اسلم خان کے ولیمے میں بھی ان سے ملاقات رہی اسی دن حامد میر کو کراچی میں گولیاں لگی تھیں اور ان کا اضطراب دیدنی تھا۔

گیارہ برس کی ضیائی سیاہ رات ،پھر جمہوریت کا جنون، مشرف کا روشن خیال جبر، بےنظیر عہد کا اختتام اور اس کے بعد نامعلوم خوف ادریس بختیار کو گُھن کی طرح چاٹ گیا ۔۔۔کافی عرصے سے عامل صحافیوں کی جبری بےدخلیوں کا مرض لاحق تھا ان پر کافی حملے ہوئے مگر پرسوں پرلے روزہ ہونے والا حملہ جان لیوا ثابت ہوا اور ہمارے پیارے اللہ کو پیارے ہوگئے۔

صحافیوں کےدستوری راہ نما بھی تھے مگر ہماری صحافت کا دستور نرالا ہی رہا جس نے صحافت کی وہ یا تو بھوکا مر گیا یا پھر دستانوں والوں کے ہاتھوں داستان بن گیا یا پھر شہر میں بچھائے گئے ان دیکھے پھانسی گھاٹ پہ لٹکا دیا گیا ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کراچی شہر کا قحط اور بڑھا ۔۔۔کوئی ادریس بختیار جیسا اب کہاں۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply