نابر کہانی، حصہ دوم۔۔۔۔۔ تحقیق و تحریر: لالہ صحرائی

محرم الحرام کی پانچ تاریخ اور 16 ستمبر 1857 کی رات جب بنگلہ پہنچ کر رائے صاحب کے مجاہدین نے حملہ کیا تو انگریز بھی تیار بیٹھا ہوا تھا، گوگیرہ جیل بریک کے بعد وہ ہمیشہ الرٹ رہتا تھا، اس نے سامنے سے توپ چلوا دی، سو گولیوں کا بارود اس میں سے ایک ساتھ نکلتا تھا، توپ چلانے والا بھی مسلمان تھا اس نے رخ اونچا رکھا اور بارود سروں کے اوپر سے درختوں پر جاپڑا، کہتے ہیں درختوں میں آگ لگ گئی

“مڑ انگریجاں سیٹی کیتی بھئی نیویں کر، جیس ایلے اوس نیویں کیتی تے مڑ اوس بھوئیں دے نال رلا دتی”، چار بندے اوتھے مرا کے وٹو تے کھرل چل پئے، کسے آکھیا او دھی یاویوں تسیں تاں کُوڑے ہو، تسیں آہدے ہائے اسیں سارنگ، وریام بھروانے مارے_لعل کمیر فتیانے مارے_ہک تُپکڑی چھٹی ہے تے اوس توں چل پئے ہو”

توپچی کا احسان تھا کہ اس نے دو مس فائر کرکے سنبھلنے کا بہترین موقع دے دیا لیکن جب فائر راست ہوا تو چار بندے شہید ہوگئے، اس صورتحال میں جب وٹو اور کھرل پیچھے ہٹنے لگے تو کسی نے انہیں للکارا، اس میں دو الفاظ ایسے ہیں جو غیرت دلانے کیلئے چابک کا کام کرتے ہیں اس لئے سنسر نہیں کئے۔

“اوہناں آکھیا، راء جی تھانیاں تے ضلعیاں تے لڑائیاں نئیں ھوندیاں، توں اسانوں بار اچ کڈ دے، رب دا حکم ہے تے وٹو باہلک اکھیا، تلوارِیں اساں بڑیاں مرسائیں”

وٹو، کھرل، جوئیے، فتیانے، ترہانے، وہیوان، جج، جنجوعے، سیال اور کئی قومیں ان کے ساتھ کھڑی تھیں مگر ان کا کہنا تھا، یہاں لڑائی مشکل ہے رائے صاحب، ان کو کسی میدان میں نکالو، ایک بار کسی طرح ان کو کھلی جگہ پر لے آئیں پھر ہماری تلوار زنی بھی دیکھ لینا۔ وٹو اور کھرل پیچھے ہٹ کر “نورے کی ڈل” نامی جگہ چلے گئے، باقی سپاہ بھی وہیں پہنچ گئی، پرانے دور میں دیسی بیج کی بدولت فصلوں کے قد انسانی قد سے اونچے ہوتے تھے، باجرہ جوار گنا چھ سے سات فٹ اور گندم چار فٹ تک اونچی ہوتی تھی جبکہ اس علاقے کی جنگلی جھاڑیاں جنہیں “ون°” کہتے تھے وہ بھی انسان کے چھپنے کیلئے کافی ہوتی تھیں

لارڈ برکلے کی فوجیں ان کا پیچھا کرتے ہوئے کھگھراں والے پل تک جا پہنچیں لیکن انہیں کوئی بندہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا، کوئی مسافر وہاں سے گزرا تو اسے کھرل کہہ کر پکڑلیا گیا، دوران تفتیش اس نے بتایا کہ ہماری تو خود کھرلوں کے ساتھ دشمنی ہے، آپ چاہیں تو میں انہیں تلاش کرکے دے سکتا ہوں لیکن اس کیلئے مجھے گھر سے پھرتیلی گھوڑی لینی ہوگی ورنہ نظر میں آگیا تو ان کے ہاتھوں مارا جاؤں گا، یہ گھوڑی بھاگنے میں سست ہے۔ مُستا نام کا یہ بندہ سیدھا نورے کی ڈل پہنچا او رائے صاحب کو انگریزی فوج کی ساری پوزیشن سمجھا کر واپس نکل گیا، رائے صاحب کے حکم پر مجاہدین نے فصلوں اور جھاڑیوں سے چھپتے چھپاتے انگریز کا گھیراؤ کر لیا، اس موقع پر رائے صاحب نے کہا، بے جگری سے لڑنا شیرو، انگریز کی گولی کسی کو نہیں لگے گی، اگر کسی کو لگے گی تو صرف مجھے، رائے احمد خان کھرل کو …… “جیہڑیاں گولیاں انگریجاں دیاں ہین او واء ورولیاں ہین”

سترہ یا اٹھارہ ستمبر کے اس معرکے میں برکلے کے چار کرانی، پانچ رسالدر اور اسی سپاہی مارے گئے تو انگریز پیچھے ہٹ گیا، اس کے بعد اگلا معرکہ تین دن مسلسل چلا، برکلے نے بھاگتی ہوئی اپنی فوج کو دوبارہ لڑنے پر آمادہ کیا مگر اس بار پھر منہ کی کھائی، مجاہدین توپوں کے سامنے آئے بغیر پیادہ فوج اور گھوڑ سواروں کو گھات لگا کر مار رہے تھے، اس صورتحال میں انگریزی فوج نے دستی بموں کا استعمال شروع کیا مگر مجاہدین اچانک وار کرکے سرعت کے ساتھ جگہ بدل لیتے تھے، یہ جنگ نورے کی ڈل تک موقوف نہیں رہی بلکہ گشکوری کے جنگل سمیت ہڑپہ تک میدان جنگ بنا ہوا تھا، جہاں جہاں تک لڑائی کی خبر پہنچی وہاں وہاں سے لوگ میدان میں اترتے چلے گئے اور فوجی چوکیوں پر حملے کرتے گئے، انگریزی فوج علاقائی نزاکتوں کے حساب سے مختلف جگہوں پر ڈیپلوئیڈ تھی جن کے ساتھ میچ۔لاک شروع ہوتا چلا گیا۔

اس میدان جنگ کی صورتحال کو سمجھنا ہو تو اسے تین دائروں میں دیکھنا ہوگا، پہلا یہ کہ لاہور، سے پاکپتن، قبولہ، ملتان، کمالیہ جھامرہ سے واپس لاہور تک ایک بڑا دائرہ کھینچا جائے تو یہ لڑائی کا بڑا میدان تھا جس میں سوالاکھ مجاہدین اور انگریزی فوج کی دس کمپنیاں مختلف جگہوں پر موجود تھیں، جیسے کہ لیفٹیننٹ نیوائل دریائے ستلج کے پاس کھڑا تھا اور لیفٹیننٹ چیشٹر گشکوری کے جنگل کی طرف تھا۔

اس بڑے دائرے کے اندر ایک چھوٹا دائرہ اور بنا لیں جو گوگیرہ، چیچہ وطنی، کمالیہ اور گوگیرہ کے گرد بنتا ہے اس پچاس میل اسکوائر میں تیس ہزار مجاہدین اور سرکاری نفری موجود تھی، اس کے اندر ایک تیسرا چھوٹا دائرہ بھی لگائیں جو گوگیرہ، گشکوری اور نورے کی ڈل کے گرد بنتا ہے، اس مرکزی دائرے میں تین ہزار سے زائد مجاہدین اور سرکاری نفری موجود تھی اور اصل جنگ شدت کے ساتھ اس مرکزی دائرے میں ہی برپا تھی پھر باہر کے دائرے میں زرا کم اور اس سے باہر کے بڑے دائرے میں مزید کم، تاہم لڑائی تینوں دائروں میں شروع ہو چکی تھی جو 16 ستمبر سے رائے صاحب کی شہادت کے بعد بھی جاری رہی تاہم مرکزی دائرے کی جنگ 21 ستمبر کو ختم ہو گئی تھی

فنانشل کمشنر تھابرن کے بقول “احمدخاں کھرل اور اس کے ساتھی ایک مہینہ تک کوٹ کمالیہ پر قابض رہے اور تین ماہ تک ساہیوال سے ملتان تک کا راستہ روکے رکھا”۔ پنجاب میوٹنی گزٹ میں ہے کہ “یہ لوگ ڈھول پیٹتے ہوئے حملہ آور ہوتے ہیں اور بڑی بہادری کے ساتھ انگریزی کمک پہنچنے سے پہلے انگریز فوجوں سے ہتھیار چھین کر غائب ہوجاتے ہیں”۔ تھابرن لکھتا ہے کہ “یہ لوگ نڈر اور چالاک گوریلوں کی طرح کاروائیاں کرکے سرعت کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں”

میجر رابرٹ منٹگمری لکھتا ہے “جب ہم دریا کے کنارے پر پہنچے تو باغی نے دوسری جانب کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ وہ انگریزوں کا وفادار نہیں صرف دلی کے مغل بادشاہ کے تابع ہے، جب انگریزی فوج دریا سے گزر کر دوسری طرف پہنچی تو احمد کھرل چھاپہ مارکمانڈر کی طرح غائب ہوچکا تھا”۔ منٹگمری گزیٹئیر لکھتا ہے کہ “احمد خان ایک قدآور، بہادر، ذہین اور حیرت انگیز شخص تھا جس کی قیادت میں گوگیرہ جو ڈسٹرکٹ منٹگمری کا ہیڈ کوارٹر تھا جس میں پاکپتن، ساہیوال اور اوکاڑہ کے علاقے شامل تھے اس کی عوام انگریز کے خلاف جمع ھوگئی”

ہسٹورئین کیوو براؤن Cave Browne کے مطابق معرکہ گشکوری میں تین سے پانچ ہزار لوگ شامل تھے، جو قدآدم جھاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے، چیف کمشنر پنجاب کے سیکریٹری برانڈرتھ نے لکھا ہے کہ چالیس سے پچاس میل کے ایریا میں بیس سے تیس ہزار باغی پھیلے ہوئے تھے، ایک دوسرے سیکریٹری رچرڈ ٹمپل نے لکھا ہے کہ لاہور سے ملتان تک سوالاکھ باغی سرگرم عمل تھے، اوپر کے تین دائرے اسی بنیاد پر بیان کئے گئے ہیں۔

تراب الحسن سرگانہ نے اس پانچ روزہ معرکے کو یوں بیان کیا ہے کہ “انگریزی فوجیں اس علاقے میں پھیلی ہوئی تھیں جو مجاہدین کی تلاش میں ہر گاؤں کو جلاتی جا رہی تھیں، مجاہدین اچانک نمودار ہوتے، ان پر حملے کرتے اور چھپ جاتے”

مجاہدین کے پاس، نیزے بھالے، تلواریں اور چند سو بندوقیں بھی موجود تھیں، انگریزوں کا زیادہ نقصان اس وقت شروع ہوا جب مرنے والی فوج کی بندوقیں اور اسلحہ بھی مجاہدین کے ہاتھ لگنا شروع ہوا، دست بدست لڑائی میں مجاہدین بھی شہید ہوئے لیکن رائے صاحب کے علاوہ کوئی مجاہد انگریز کی گولی سے شہید نہیں ہوا، انگریزوں کے بارے میں حنیف رامے صاحب نے لکھا ہے کہ اس وسیع و عریض علاقے یعنی ان تینوں دائروں سے انگریزی فوج کی تین ہزار لاشیں اٹھائی گئی تھیں

دس محرم الحرام بروز جمعہ 21 ستمبر 1857 کو گشکوری کی جنگ رائے صاحب کی شہادت کے ساتھ ختم ہوگئی، رائے صاحب اپنی گھوڑی “ساوی” پر چڑھ کر لڑتے تھے، یہ گھوڑی اٹھارہ بیس فٹ لمبی چھلانگیں لگاتی ہوئی دشمن کے سروں پر سے گزر جاتی اور رائے صاحب وار کرتے جاتے تھے، رائے صاحب نے دوپہر کے وقت آخری بار انگریزوں کو للکارا لیکن میدان میں کوئی حرکت نہ ہوئی، انگریزی فوج بڑی تعداد میں ماری جا چکی تھی اور باقی سہم کر ڈیڑھ کوس پیچھے ہٹ چکی تھی، مجاہدین اپنے اپنے گرد سے سرکاری فوج کا صفایا کرکے واپس پلٹتے گئے، رائے صاحب نے کہا ہم نماز کے بعد نکلیں گے اور شام تک جھامرے کی طرف اپنے خفیہ ٹھکانے پر پہنچ جائیں گے، رائے صاحب نے وضو کیا اور ظہر کی نماز شروع کر دی، ان کے ساتھ سردار سارنگ اور پانچ چھ مجاہدین بھی موجود تھے۔

لارڈ برکلے آٹھ دس سپاہیوں کے ساتھ علاقے کا جائزہ لینے ایک بار پھر آگے بڑھا تو ایک سپاہی نے رائے صاحب کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا، برکلے نے گولی چلانے کا آرڈر دے دیا، دھاڑے سنگھ، گلاب سنگھ بیدی اور کھیم سنگھ بیدی نے گولیاں چلائیں، نماز کی دوسری رکعت چل رہی تھی جب رائے صاحب کو دو گولیاں لگیں اور وہ زمین پر آرہے، پھر سردار سارنگ صاحب کو بھی گولی آلگی، باقی ساتھی بھی سنبھل نہ سکے اور برکلے سر پہ آپہنچا، اس نے رائے صاحب کا سر اتروا کے نیزے پر رکھا اور اپنے ساتھ لے گیا

“مڑ نماز پڑھدا ہویا ہی مصلے دے اتے شہید ہوگیا، کافر جیویں پیر امام حسینؑ دا سر اتار کے لے گئے ھان نا ایویں احمد خان دا سر نیزے اتے ٹنگ کے انگریج لے گئے ہان” (سعید بھٹا صاحب)

1776 میں رائے نتھو کے گھر پیدا ہونے والا یہ لعل 81 سال کی عمر میں انگریزوں کو ناکوں چنے چبوا کر ایمان افروز شان کیساتھ نماز ادا کرتے ہوئے اس دنیا سے چلا گیا، کہتے ہیں وہ دنیا سے نہیں گیا بلکہ امام حسینؑ کی دنیا میں چلا گیا۔

رائے صاحب کی شہادت کا سن کر ان کی زوجہ محترمہ نے فوراً دونوں بچوں کو مہر مراد خان فتیانہ کے گاؤں روانہ کیا اور کہلا بھیجا کہ تمہارا بھائی شہید ہوگیا ہے، یہ خبر سن کر مراد فتیانہ پر غضب طاری ہوگیا، اس نے دونوں بچوں کو اپنی بیوی کے حوالے کرکے کہا، اگر میں واپس آگیا تو ان کو خود پال لوں گا، اگر مارا گیا تو جہاں چار بچوں کا چوگا اکٹھا کرو گی وہاں ان دونوں کا بھی کرلینا۔

انگریزی فوج نے جھامرہ سے پنڈی شیخ موسٰی تک مجاہدین کی تلاش و عداوت میں راوی کے ارد گرد کھرلوں اور وٹووں کے کئی دیہاتوں کو آگ تو ویسے بھی لگا رکھی تھی، کچھ آگ وہ فتح کے جشن میں بھی لگاتے گئے، ایک راستے پر فقیر مستانہ کی جھونپڑی کے پاس پہنچے تو برکلے نے کہا اسے بھی جلا دو، کسی نے کہا یہ باغی نہیں فقیر ھے، برکلے نے پوچھا فقیر کیا ھوتا ھے؟ اسے بتایا کہ اللہ والا عبادت گزار بندہ ھے جو دنیا سے الگ تھلگ رھتا ھے، برکلے نے کہا، جو کچھ بھی ہے تم جھونپڑی جلا دو، اس پر درویش نے کہا “بڑی چھیتی داتری نے تیرا سر لے جانا”

اگلے دن لوگوں کی عبرت کیلئے پکڑے جانے والے باغیوں کو پھانسی دے کر ان کی لاشیں درختوں کے ساتھ لٹکا دیں، اس بدسلوکی پر اھل علاقہ مشتعل ہو رہے تھے مگر اسوقت کچھ کر سکتے تھے نہ ہی کچھ سجھائی دے رہا تھا، مہر مراد فتیانہ جب پہنچے تو کھرلوں کیساتھ ایک جگہ منصوبہ بندی کی اور دریا پر گھات لگا لی، برکلے کے خیال میں احمد خان کے بعد کوئی خطرہ باقی نہ تھا، جلتے ہوئے دیہاتوں میں سوائے درد سے کراہنے والوں کے علاقے میں کوئی آواز نہیں تھی، مخالفت کی کوئی بو نہیں تھی لیکن جب اسے خفیہ گٹھ جوڑ کی خبر ملی تو وہ آپے سے باہر ہوگیا اور کچھ سپاہیوں کے ساتھ راوی کی گشت کیلئے نکل گیا، شائد یہ خبر اسے جان بوجھ کر پہنچائی گئی تھی۔

22 ستمبر کو راوی کے اطراف میں ہُو کا عالم دیکھ کر اسے اطمینان ہو گیا اور اسی سُکھ میں شام کے وقت واپسی پر وہ اپنے ساتھیوں کی پرواہ کئے بغیر کچھ آگے نکل گیا، پہلے اس کا گھوڑا دُلکی، ٹراؤٹ، چال پر تھا لیکن جب اسے خطرے کا احساس ہوا تو اس نے گیلوپ لگانے کی کوشش کی، شائد اسے پتا نہیں تھا یا اندازہ نہ رہا کہ دریا کے کیچڑ میں گیلوپ نہیں ہو سکتا، گھوڑے کے پاؤں گیلی زمین میں بار بار دھنس رہے تھے۔

اس سے قبل کہ وہ سنبھلتا مراد خان فتیانہ اور سوجھا بھدرو گھات سے نکل کر اس کے پیچھے پہنچ گئے، مراد اپنے گھوڑے پر نیزہ تولتا ہوا آرہا تھا اور برکلے کے سینے سے پار کرتا ہوا آگے نکل گیا، برکلے نیچے گرا تو سوجھے بھدرو نے گھوڑے سے اتر کر اسے قابو کر لیا، ایک جگہ لکھا ہے پھر اسے لاٹھیاں مار مار کے جان سے مار گئے، دوسری جگہ لکھا ہے اس کا سر بھی کاٹ کر لے گئے۔

انگریزوں نے رائے صاحب کا سر چھ دن تک نیزے پر لٹکائے رکھا، ارد گرد ننگی تلواروں کا سخت پہرہ ہوتا، رات کو جہاں رکھا جاتا وہاں بھی پہرہ ہوتا، ایک سپاہی اسی علاقے کا تھا، وہ رائے صاحب کے پاس آتا جاتا بھی تھا، رائے صاحب اس کی خواب میں آئے اور کہا “میں اس مٹی کا بیٹا ہوں لیکن انگریز میرا سر دنیا کو دکھانے کیلئے برطانیہ بھیجنا چاہتے ہیں، تم میرا سر مجھے واپس کر جاؤ، سپاہی سخت اضطراب میں تھا، دوسرے اور تیسرے دن بھی یہی پیغام آیا تو اس نے یہ خدمت بجا لانے کا فیصلہ کرلیا۔  اس نے ایک پکا مٹکا لے کر اس کا منہ کھلا کیا اور سرمبارک مٹکے میں رکھ کے اوپر کپڑا باندھ کے قبر شریف کے پاس گھڑا کھود کے دفن کر آیا، یہ بات اس نے رائے صاحب کے اہل خانہ تک کو بھی نہ پہنچائی تاکہ بات سے بات آگے نہ چلی جائے اور کسی مشکل کا پیش خیمہ نہ ثابت ہو۔

سعید بھٹا صاحب نے یہی بات فقیر کے حوالے سے لکھی ہے کہ اسے خواب میں پیغام ملا تو وہ کسی چوپائے کی شکل میں آکے سرمبارک چھین کے لے گیا اور دفنا دیا، ممکن ہے فقیر والی بات ہی سچ ہو لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ سپاہی نے جب اپنے ساتھیوں کو یہ پیغام سنایا ہوگا تو جو بھی دو تین رات کی ڈیوٹی پر تھے وہ اس خدمت پر راضی ہو گئے ہوں گے، نوکری اپنی جگہ عقیدت اپنی جگہ اس لئے کوئی حیرت کی بات نہیں پھر تفتیش کی سختی سے بچنے کیلئے فقیر کی کہانی گھڑ کے سنا دی کہ برکلے نے اس کی جھونپڑی جلائی تھی اور وہ بدلہ لینے کیلئے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سر اٹھا کے لے گیا اور ہم کچھ نہیں کر سکے کیونکہ وہ روحانی طاقت والا بندہ تھا۔

رائے صاحب کے پوتے کو ان کے روحانی پیشوا نواب کہہ کے بلاتے تھے، ان کا کہنا تھا اصلی نواب تو یہی ہیں، راوی کے باقی نواب غدار ہیں اور نواب کہلانے کے حقدار نہیں، اس لئے نواب ان کے نام کا حصہ بن گیا، 1968 میں نواب علی محمد خان نے اپنے دادا کا روضہ تعمیر کرنا چاہا، قبر شریف کے ارد گرد پکا چوکھٹا کھڑا کرنے کیلئے جب کھدائی شروع ہوئی تو کدال ایک مٹکے پر جا لگی، اس مٹکے کو احتیاط سے باہر نکالا گیا تو اس میں حضرت شہید کا سر مبارک تھا جو 110 سال گزرنے کے بعد بھی آنکھیں، داڑھی، چہرہ سمیت صحیح سلامت اور تروتازہ تھا، لوگوں نے بھرپور زیارت کی، نواب علی محمد خان نے دوبارہ اپنے دادا کا جنازہ خود پڑھایا اور سر کو جسم کے ساتھ دفن کر دیا، کھرل صاحب کا پرشکوہ روضہ تعمیر کرنے اور سالانہ عرس شروع کرنے کا سہرا بھی نواب علی محمد خان کے سر ہے، ان کا انتقال 1979 میں ھوا۔

روضہ احمد خاں کھرل

گوگیرہ سے فیصل آباد روڈ پر ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر تاندلیانوالہ کے قریب رائے صاحب کا گاؤں جھامرہ واقع ہے، اسی روڈ پر راوی کراس کرکے دائیں ھاتھ پر کچی پکی دیہاتی سڑک پر کچھ دور جائیں تو “پناہ دا کُھوہ” سے زرا آگے کھرل صاحب کا مقبرہ ہے جو جھامرہ سے پانچ کلومیٹر پہلے ہے۔

انڈیا آفس لائبریری کے مطابق برکلے اگلے دن دریا کے ساتھ ساتھ محمدپور کی جانب رواں دواں تھا کہ کوڑی شاہ کے قریب جنگل سے اچانک اس پر حملہ ہوا، برکلے کیساتھ پچاس سپاہی بھی ہلاک ہوئے لیکن وہ بہادر تھا اس لئے مرنے سے پہلے چھ حملہ آوروں کو بھی مار کر مرا، ایک جگہ یوں لکھا ہے کہ اس کا گھوڑا دریا میں دھنس گیا تھا اس لئے ہلاک ہوا، ایلنز میل allen’s mail میں یہی بات لیفٹیننٹ نیوائل کے بارے میں بھی کہی گئی ہے جو اپنی کمپنی لیکر ستلج کی طرف لڑ رہا تھا کہ جب اس کی کشتی پر حملہ ہوا تو اس نے مرنے سے پہلے تین باغیوں کو ہلاک کیا تھا۔

لارڈ برکلے گوگیرہ سے شیخوشریف روڈ پر واقع عیسائی قبرستان میں دفن ہے، اس قبرستان کے متولی کو دو ہیکٹر اراضی دی گئی تھی تاکہ قبرستان کی دیکھ بھال کرتا رہے مگر اس کی حالت نہایت خراب ہے، قبرستان کے اندر دو قدیم قبریں موجود ہیں جن میں سے ایک لارڈ برکلے کی ہے مگر کونسی ہے یہ پتا نہیں کیونکہ ان دونوں پر کوئی تختی موجود نہیں

انگریز کا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر بعد میں جب منٹگمری منتقل ہوا تو چرچ باغ میں چرچ کے ساتھ ایک یادگار بنائی گئی جس پر برکلے کیلئے خراج تحسین لکھا ہوا ہے، وہ عبارت میری پڑھی ہوئی ہے اگر میں بھول نہیں رہا تو وہ برکلے کی ہی یادگار ہے، ساہیوال کا کوئی دوست کنفرم کردے تو نوازش ہوگی۔

یہ معرکہ نورے کی ڈل اور گشکوری کے جنگلات میں ہوا تھا اس لئے اسے گشکوری کی جنگ بھی کہتے ہیں، معرکہ گشکوری اور دہلی کا سقوط، بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری یہ سب کچھ ستمبر کے آخری ہفتے میں ایک ساتھ ہی روپزیر ہوا تھا تاہم لڑنے والے 1958 تک بھی لڑتے رہے جن میں سے کسی کو پھانسی دے دی گئی کسی کو توپ سے اڑا دیا گیا اور کسی کو کالا پانی بھیج دیا جاتا رہا۔ 

مجاہدین جس زمین کیلئے لڑے وہی زمین غداروں میں تحفے کے طور پر بانٹ دی گئی، مجاہدین جس دھرتی کی آبرو کیلئے لڑتے رہے وہی ان پر تنگ کر دی گئی، برکلے کے قاتل مراد فتیانہ اور سوجھے بھدرو کو گرفتار کرکے بدنام زمانہ جزائر انڈیمان بھیج دیا گیا تھا، یہ ایک الگ کہانی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، رائے احمد خان شہید کے بعد ملتان تک انگریزوں کے سامنے کوئی اس طرح جم کے کھڑا نہ ہو سکا تاہم کھرل، وٹو اور فتیانے کئی سال تک اپنی بقا کی جنگ لڑتے رہے اور گھر سے بے گھر رہے، ان میں رائے صاحب کا چھوٹا بیٹا محمد خان بھی تھا جسے لارڈ نے صلح کا پیغام بھیجا تھا اور وہ لارڈ کے سامنے کھڑا تھا۔

لارڈ برکلے کے بھائی نے محمد خان پر بھرپور نظر ڈال کر پوچھا کون ہو اور کیسے آئے ہو؟ بتایا کہ رائے احمد خان کا بیٹا ہوں، تم نے بلوایا تھا، لارڈ نے کہا اپنے باپ کا خون معاف کردو اور راوی میں امن ہونے دو، کہا میں بیٹا ہوں اور وہ باپ تھا میں اس کا خون کیسے معاف کر سکتا ہوں؟

لارڈ نے کہا، بہت تباہی ہو چکی، اب بسانے کی بات کرو،محمد خان نے کہا، ہم تو گھر سے بے گھر تمہاری وجہ سے ہیں، ہم بسنا چاہتے ہیں لیکن تم لوگ ہی آڑے آتے ہو۔ لارڈ نے کہا، ٹھیک ہے، اب جنگ بند، میں اپنے بھائی کا خون معاف کرتا ہوں اور کھرلوں کو امان دیتا ہوں۔ خان نے کہا، اور وٹووں کو؟  لارڈ نے کہا انہیں بھی امان ہے، آؤ راوی کو ایک بار پھر سے بسائیں۔۔۔۔۔۔۔

لکھنے کو اور بھی بہت کچھ ہے جو اس سے بھی طویل ہے، یہ سب کچھ ملتان گزٹ، منٹگمری گزٹ، پنجاب اینڈ دہلی بائی کیوو۔براون، پنجاب میوٹنی رپورٹس، میوٹنی کارسپونڈنس، پنجاب سینسس رپورٹ اور دیگر حوالوں کے ساتھ موجود ہے اس کے علاوہ “جنگ آزادی وچ وٹوواں دا حصہ تحقیقی مقالہ بائی ظہیر حسن وٹو ایم اے پنجابی” وٹو برادی کے حوالے سے موجود ہے لیکن اب اختتام کی طرف چلتے ہیں

دادا پھوگی رائے صاحب کا ھم عمر، قریبی ہرکارہ اور ان کی رعیت کا ایک میراثی تھا جو اس جنگ میں بھی ان کے ہمراہ یا ارد گرد موجود تھا، رائے صاحب کی برٹش راج سے بغاوت اور بعد کی ساری کہانی دادا پھوگی کے رزمیہ دوہڑوں کی رہین منت ہے جو اس نے منظوم کئے، انہیں “واہریں” بھی کہا جاتا ہے، یہ دوہڑے پنجاب کی مجلسوں، چوپالوں اور لوک داستانوں میں عقیدت و قلبی جزبات کے ساتھ پڑھے جاتے تھے لیکن آزادی اظہار کے داعی انگریز کی طرف سے واہریں سننے اور سنانے پر سخت پابندی تھی۔

رائے احمد آکھے جمنا تے مر ونجنا

ایہہ نال ٹھوکر دے بھج جاونا، کنگن اے کچی ونگ دا

آکھے لڑساں نال انگریز دے

جیویں بلدی شمع تے جوش پتنگ دا

دادا پھوگی کے مطابق رائے صاحب کہتے تھے، پیدا ہونے سے مرنے تک یہ جیون ایسا ہی ناپائدار ہے جیسے ٹھوکر لگنے سے کچی چُوڑی کا ٹوٹ جانا اس لئے زندگی کسی مقصد پر قربان کرنی چاھئے، میں انگریز کیساتھ ایسے بھڑ جاؤں گا جیسے شمع پر پروانہ جوش مارتا ہے، رائے صاحب اپنا کہا نبھا گئے لیکن اس داستاں کا کم ہی لوگوں کو پتا ہے۔

بھگت سنگھ کی شہادت کا دن سب کو یاد رہ جاتا ہے لیکن 21 ستمبر کو رائے احمد خاں شہید کی برسی خاموشی سے گزر جاتی ہے، اس کی وجہ تلاش کرنا چاہیں گے تو آپ کو حکومت میں جابجا ان دس نوابوں کی اولادیں کھڑی ملیں گی جنہوں نے معرکہ گشکوری میں انگریزوں کا ساتھ دیا تھا، اسی لئے قومی سطح کا کوئی پروگرام تو کیا ہوگا، آج شائد آپ رائے احمد خان کھرل کے نام سے بھی اسی وجہ سے واقف نہیں ہیں

کئی دوستوں نے اپنے آرٹیکلز دادا پھوگی کے اس شعر پر ختم کئے ہیں جو سعید صاحب کی کتاب کے ماتھے پر درج ہے۔

خلقت نوں تلیوں لگی، چوٹیوں نکلی ہے، مار بھڑکارے

اوہنوں انکھی نہیں سمجھدا جیہڑا احمد خان دا دکھ وسارے

اس کہانی کے درد کی آگ سننے والے کو پاؤں کے تلووں سے لگتی ہے اور سر کی چوٹی سے اوپر مچتی ہوئی جاتی ہے، اسی لئے میں اس کو غیرتمند نہیں سمجھتا جو احمد خان کا درد اور حریت کا یہ پیغام محسوس نہ کرسکے

لیکن اپنے اس بیان کو میں ان الفاظ میں ختم کرنا چاہتا ہوں جو سعید بھٹا صاحب کے ایک بیان سے اخذ کئے ہیں، فرماتے ہیں یہ مغرب کی روشن دنیا سے جو روشن خیالی کا پیغام منجن بن کے بکتا ہے کہ انسانیت سے بڑا مذہب کوئی نہیں ان کی رپورٹوں میں درج ہے کہ برکلے سمیت ان سب نے درپردہ اپنی جیت کو مذہب کی جیت سمجھ کے لڑا ہے، تقسیم کرو اور حکومت کرو کے پیچھے مذہبی جیت کے سوا کوئی دوسرا جزبہ پہلے تھا نہ اب ہے

رائے صاحب کے بعد پنجاب میں ملی حمیت و غیرت کی ڈوبتی ہوئی نبضیں دیکھ کر دادا پھوگی نے ایک اور دوہڑا بھی کہا تھا۔

تینوں ڈھوکاں یاد کریندیاں ہن

ہک واری مڑ آویں ہاں رائے نتھو دیا احمد خاناں

وے راوی دیا لاہڑیا

یہ دوہڑا آج بھی حسب حال دکھائی دیتا ہے

۔۔۔۔۔

بنیادی حوالہ:

نابر کہانی، پنجابی زبان میں، از ڈاکٹر سعید بھٹا صاحب، ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ پنجابی، جامعہ پنجاب، لاھور

ثانوی حوالہ جات:

پنجاب کا مقدمہ از حنیف رامے سابق وزیراعلٰی پنجاب، دی ڈے احمد خان فال بائی شفقت تنویر مرزا، گوگیرہ موومنٹ بائی تراب الحسن سرگانہ، ریسرچ پیپرز سیلیکٹڈ بائی اکیڈمی آف پنجاب نارتھ امریکہ

دیگر حوالے:

رائے محمد حسین، عمر مختار خان، محمد حسن معراج، نزیر کہوٹ، پروفیسر عزیزالدین احمد، ایڈووکیٹ رفیع رضا کھرل، بلاگر طارق امیر صاحب نے دربار شریف تک کا سفر کرکے تصاویر اور گوگل میپ کے گرڈ ریفرینس بھی اپنے بلاگ پر فراہم کئے ہیں۔ ختم شد

Advertisements
julia rana solicitors

نابر کہانی کا پہلا حصہ پڑھنے کے لیے یہ لنک استعمال کیجیے
makalma.com/lala-sehrai-8/

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply