• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سروے تاریخ بتاتے ہیں، مستقبل نہیں۔۔۔۔۔اسد مفتی

سروے تاریخ بتاتے ہیں، مستقبل نہیں۔۔۔۔۔اسد مفتی

صیہونی نظریہ آج کے دور میں صرف یہودی قومیت اور یہودی سرمایہ داری کی اجارہ داری ہی کا نظریہ نہیں ہے بلکہ نسل پرستی اور عرب دشمنی پر بھی مبنی ہے۔اسرائیل کے قیام سے قبل صیہونی مفکروں اور دانشوروں نے اپنے ایک مضمون میں ایک عجیب و غریب منطق پیش کی ہے کہ وہ یہودیوں کے سوا فلسطین میں رہنے والے باقی عربوں کو وہاں کا شہری تسلیم نہیں کرتے۔اس نرالی منطق کے مطابق تقریباً ساتھ لاکھ یہودی تو فلسطینی قرار دئیے گئے اور تقریباً ڈیڑھ کروڑ عربوں کو مہاجر بنا دیا گیا،اسرائیل کے قیام کے چند دنوں بعد ہی صیہونی لیڈروں نے ایک نیا نعرہ بلند کیا کہ دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین لا کر بسایا جائے گا،
اور اس کے کچھ عرصے بعد یہ قانون بنا دیا گیا کہ دنیا بھر کے یہودی اسرائیلی شہریت حاصل کرسکتے  ہیں  اس قانون کو یکم اپریل 1952 کو نافذ کیا گیا،یہ کوئی پہلی اپریل کا روائتی مذاق نہیں تھا بلکہ اسرائیل کا ایک سنجیدہ اقدام تھا،کہ اس دن سے اسرائیل حکومت نے عرب و فلسطینی دشمنی کا کھل کر مظاہرہ کرنا شروع کردیا ۔وہ دن جائے اور آج کا آئے کہ اسرائیل نے اپنے اس گھناؤنے مقاصد کی تکمیل کےلیے ہر حربہ استعمال کرنا شروع کیا ہوا ہے۔اسرائیلی مفکروں اور دانشوروں نے ان ضامین میں یہ بھی بتایا ہے کہ اسرائیلی کسی غیر یہودی کو انسان تصور کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ،بعض نے غیر یہودیوں سے کسی قسم کے لین دین میں تعلقات کو سختی سے بند کررکھا ہے۔ماسوائے ان لوگوں کے جو شاید کسی وقت مفید ثابت ہوسکیں ،
مضمون میں کہا گیا ہے کہ جب ایک غیر یہودی زندگی کے آخری سانس لے رہا ہوتا ہے تو یہودیوں کے لیے خوشی کا اظہار کرنا ضروری ہے۔ایک غیر یہودی کو “دھکا دینا”یا کسی مصیبت میں مبتلا کرنا اسرائیلی حکومت کے نزدیک کوئی برائی نہیں ہے،اور وہ گوشت کا ٹکڑا غیر یہودی کو دینے کی بجائے کتے کے آگے ڈال دینے کو ترجیح دیتے ہیں ،اسرائلیوں کا کہنا ہے کہ یہودی آپس میں بھائی بھائی ہیں ،اس لیے اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ ایک اسرائیلی یہودی،وزیراعظم اسحاق روبین پر قاتلانہ حملہ بھی کرسکتا ہے۔اور انہیں ایک دوسرے کی ہر حال میں مدد کرنی چاہیے،اور یہ کہ غیر یہودیوں کے مقابلے میں متحد رہنا چاہیے،کہ وہ کتوں سے بھی بدتر ہیں ۔
یہ حقیقت ہے کہ اسرائیلی حکومت نے معرض، وجود میں آتے ہی عربوں اور فلسطینیوں کے خلاف جارحانہ کاروائیوں کا آغاز کردیا تھا۔ اقوام متحدہ ہی کی رپورٹوں کے مطابق دیکھا جائے تو آج تک اسرائیلی حکومت ہزاروں عربوں کو اور ہزاروں فلسطینیوں کو تباہ و برباد کرچکی ہے،
پچھلے دنوں ہالینڈ کے ایک بین القوامی قانون کے ماہر پی ون ڈیل نے عربوں کی بے دخلی پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حقیقتاً ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اسرائیل کو صرف یہودیوں کے لیے ہی مخصوص کرنا چاہتے ہیں ۔بالکل اسی طرح جیسے کہ جرمن نازی یہودیوں کو بے دخل کرکے جرمنی کو صرف نازیوں کی ریاست بنانا چاہتے تھے وہ عرب یا فلسطینی جو اب بھی اسرائیل میں موجود ہیں ان کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی سی ہے، کہ ان سے تمام شہری حقوق چھین لیے گئے ہیں ،تاہم کبھی کبھار اسرائیل کے اندرسے بھی ظلم و ستم کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں ،حال ہی میں اسرائیل کی انسانی اور سول حقوق کی لیگ کے چئیرمین نے مشرق سے متعلق اقوام متحدہ کے ایک خصوصی کمیشن کے نام اپنی یاداشت محفوظ کی ہے،اور یہودی قوم ایک مشترکہ جذبے،مسلسل جدوجہد ،واحد مذہب اور ایک مخصوص تاریخ کی مالک ہے،صیہونی مفکر یہودیت کے اس عقیدے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے،کہ یہودی خدا کی پسندیدہ نسل ہے،اور اس طرح نسل پرستی کے جذبے کو مزید تقویت پہنچاتے ہیں ۔(نازیوں کی بھی جرمن آرین کے بارے میں یہی سوچ ،فکر تھی)اسرائیل مین نسل پرستی کا یہ رویہ عربوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ حکمران طبقہ یورپی یہودیوں اور افریقی ایشیائی اور عرب یہودیوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ یورپی یہودی اعلی عہدوں پر فائز نظر آتے ہیں ،اور ملک کے اہم فیصلوں کو اپنے ذہن کی  کسوٹی پر جانچتے ہیں ،اور ریاستوں کے اہم فیصلوں میں صرف انہی کا عمل دخل یے،جبکہ دیگر یہودی معاشرے کی نچلی سیڑھی پر کھڑے ہیں ،آج اسرائیل فسطائیت کی بدترین مثال ہے اس کی تمام پالیسیاں عرب دشمنی اور نسل پرستی پر مبنی ہیں مگر اسرائیلی لیڈروں کو یہ بات واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ یورپ کی فسطائی طاقتوں کی طرح ایک دن اس کو بھی شکست کو منہ دیکھنا پڑے گا اور عظیم اسرائیل کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا ۔
تم کو خلوت کی ضروت ہے نصیحت کی نہیں
اپنی صحبت میں رہو گے تو سدھر جاؤ گے!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply