• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ماؤں کا عالمی دن اور جھوٹ کی یلغار۔۔۔گل نوخیز اختر

ماؤں کا عالمی دن اور جھوٹ کی یلغار۔۔۔گل نوخیز اختر

ماؤں کے عالمی دن پر فیس بک تصویروں سے بھری ہوئی تھی۔ظاہری بات ہے ماں سے کس کو محبت نہیں ہوتی۔ کئی سٹیٹس پڑھ کر مجھے شدید احساس کمتری محسوس ہوا کہ کاش میری مرحومہ ماں بھی ایسی فلاسفر ہوتی۔ایک صاحب نے اپنی والدہ کے حوالے سے لکھا کہ ’میری ماں ہمیشہ مجھ سے کہا کرتی تھی کہ بیٹا زندگی میں سرجھکا کر چلو گے تو کبھی آسمان کی بلندیوں پر نہیں پہنچ سکو گے۔‘ میں اِن صاحب کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ جب اِن کی والدہ زندہ تھیں تو یہ واقعی بہت پریشان رہا کرتے تھے کیونکہ والدہ بیمار تھیں اور اُن کی موجودگی میں یہ بیگم کے ہمراہ سیروتفریح کے لیے نہیں جاسکتے تھے۔ دوسرے شہروں میں مقیم بھائیوں کو آئے دن چیختے ہوئے فون کرتے کہ ماں کو سنبھالنا میری ہی نہیں تمہاری بھی ذمہ داری ہے۔دوسرے بھائی یہ ذمہ داری اٹھانے کے لیے بخوبی تیار تھے لیکن ماں بڑھاپے کی ضد کا شکار ہوچکی تھی۔ وہ اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔ دوسرے بھائی ایک دو دفعہ ماں کو اپنے پاس لے بھی گئے لیکن ماں نے رو رو کر برا حال کر لیا کہ میں نے اپنے گھر واپس جانا ہے۔جن صاحب کی میں بات کر رہا ہوں یہ اپنی بیگم کے ساتھ مل کر ماں کو واشگاف انداز میں برا بھلا کہا کرتے تھے۔ رات کو ماں کے سرہانے گیلا تولیا رکھ دیا جاتا کہ پیاس لگے تو ہمیں نہ نیند سے اٹھانا، یہ تولیہ چوس لینا۔ ایک دن یہ اپنی بیگم کے ہمرا ہ ماں کو نیند کی گولی دے کر خود ایک دعوت میں چلے گئے۔ واپس آئے تو ماں زمین پر، گندگی کے درمیان تڑپ رہی تھی۔پتا چلا کہ ماں نے ٹوائلٹ جانا تھا لیکن چونکہ اٹھ نہیں سکتی تھی لہذا چارپائی پر گھسٹ گھسٹ کر نیچے اترنے کی کوشش کی لیکن گر گئی اور دو گھنٹے تک وہیں پڑی سسکتی رہی۔بجائے اس کے کہ یہ ماں کو نہلاتے، صاف کپڑے پہناتے، اِن کا اور اِن کی بیگم کا غصہ آسمان کو چھونے لگا۔ مُردوں کو غسل دینے والی عورت کو بلا کر زندہ ماں کو اُس سے غسل دلوایا اور زبردستی اٹھا کر شادی شدہ بہن کے گھر چھوڑ آئے کہ اب ماں کو سنبھالنا تمہاری ذمہ داری ہے۔اِس بیٹی نے مرتے دم تک بیمار ماں کو اپنی بیٹی کی طرح رکھا۔ماں کا انتقال ہوا تو اِن صاحب نے زور ڈالا کہ بہن کے گھر سے ہی ماں کا جنازہ اٹھے کیونکہ اگر جنازہ اِن کی طرف آتا تو سارے اخراجات بمعہ قل خوانی اِنہیں برداشت کرنا پڑتے۔تاہم بہنوں اور بھائیوں نے شرم دلائی تو فرمایا ’سب لوگ جنازے کے خرچے میں برابر کے پیسے ڈالیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں‘۔ یہ بات سن کر ایک بھائی نے تسلی دی کہ اخراجات سارے ہم خود کرلیں گے، آپ صرف صحن سے گاڑی نکال لیں تاکہ ماں کی میت یہاں رکھی جاسکے۔‘ ان کی بیگم کا منہ بن گیا۔’نئی گاڑی ہے بھائی! باہر بچے چھیڑیں گے‘۔بھائیوں کو غصہ تو بہت آیا لیکن موقع ایسا تھاکہ کوئی بھی ماحول میں تلخی نہیں گھولنا چاہتا تھا۔سو طے پایا کہ گاڑی کو مکمل طور پر باہر نکالنے کی بجائے تھوڑا سا مین گیٹ کی طرف کردیا جائے تاکہ میت رکھنے کے لیے کچھ جگہ بن سکے۔ ماں کے گھر میں ہی ماں کی میت کے لیے جگہ کم پڑگئی تھی۔گاڑی کو نیوٹرل کرکے تھوڑا سا پیچھے کیا گیا اور ماں کی میت والی چارپائی گاڑی کے بونٹ کے سامنے زمین رکھ دی گئی گویا گاڑی ماں کو کچلنے کے لیے تیار کھڑی تھی، چونکہ گرمی بہت زیادہ تھی لہذا میت کے بائیں جانب برف کی دو پٹیاں رکھ کر پنکھا چلا دیا گیا۔بیٹیاں زاروقطار ماں سے لپٹ کر رو رہی تھیں۔ ہر آنکھ اشکبار تھی۔ صحن میں آہستہ آہستہ تعزیت کرنے والی خواتین کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔اسی اثناء میں اِن صاحب کی سسرالی فیملی اندر داخل ہوئی۔ یہ فوراً اُنہیں ویلکم کرنے کے لیے لپکے۔ساس صاحبہ گرمی سے بے حال ہورہی تھیں لہذا پنکھے کا رخ ان کی طرف کر دیا گیا۔ گھر میں رش ہونے کی وجہ سے فریج کا ٹھنڈا پانی ختم ہوگیا تھا۔ ساس صاحبہ نے پانی مانگا تو اِن صاحب کی بیگم نے اپنی ماں کو ٹھنڈا پانی دینے کے لیے انوکھا طریقہ نکالا۔ اندر گئیں، پیچ کس لے کر آئیں اور میت کے سرہانے لگی برف سے تھوڑی سی برف توڑ کر اپنی ماں کے گلاس میں ڈال دی۔وہ غٹاغٹ پی گئیں۔بہنوں نے بھائی سے شکایت کی تو گھور کر فرمایا’برف کون سا ماں جی نے قبر میں ساتھ لے جانی ہے‘۔یہ صاحب گاڑیوں کی بیٹریوں کا کام کرتے ہیں۔ اچھی خاصی آمدنی ہے۔ شروع شروع میں ماں کو اس چکر میں اپنے پاس رکھا کہ سارا گھر اپنا ہوجائے گا۔ لیکن جوں جوں ماں بیمار پڑتی گئی، یہ ذلالت کے آخری درجے پر فائز ہوتے چلے گئے۔ مجھے یاد ہے جب اِن کی ماں چلنے پھرنے سے معذور ہوئی تو اُس نے بیٹے سے فرمائش کی کہ مجھے ایک وہیل چیئر لادو۔ اِن کے لیے وہیل چیئر لانا معمولی سا خرچہ تھا لیکن دل پہ ایسا قفل پڑا تھا کہ ایک روپیہ خرچ کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ انہوں نے پانچ ہزار کی وہیل چیئر لانے کی بجائے ایک لکڑی کے پھٹے پر چار بیرنگ لگوائے اور اُس پر پرانا سا فوم رکھ کے ماں کو بٹھا دیا۔اِن کے گھر کا برآمدہ آگے سے کھلا ہے لہذا گلی محلے والے روز دیکھتے تھے کہ بوڑھی ماں، بیرنگ والے پھٹے پر، ایک ہاتھ سے زور لگا کر خود کو گھسیٹتی ہوئی تازہ ہوا کے لیے برآمدے میں آجاتی ہے۔برآمدے کا فرش چونکہ کھردرا تھا اس لیے بیٹے نے ماں کے ہاتھوں کا خیال کرتے ہوئے اس میں ایک پرانی جوتی پہنا دی تھی تاکہ ماں آسانی سے اپنا وجود گھسیٹ سکے۔آپ نے اکثر اِس عالم میں سڑکوں پر گداگروں کو مانگتے دیکھا ہوگا۔یہ تھی اُن صاحب کی داستان جو مدرز ڈے پرماں کے نام پر جھوٹے اقوال شیئر کرتے ہیں۔اس کے باوجود پتا نہیں کیوں ایسا لگتا ہے اِن کی ماں کو اگر قبر میں پتا چل جائے کہ اُن کے بیٹے نے فیس بک پر اُن کی تصویر کس عقیدت سے شیئر کی ہے تو شائد وہ اپنی دوزخی اولاد کے لیے خدا سے لڑ کربھی جنت چھین لائے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ماؤں کا عالمی دن اور جھوٹ کی یلغار۔۔۔گل نوخیز اختر

Leave a Reply