ایک انکی چال، ایک میری چال۔۔معاذ بن محمود

کچھ دیر پہلے محترم عارف خٹک صاحب کا مضمون “ہمارے گوشت خور ایمان ” نظر سے گزرا . خٹک صاحب اِس میں اپنے ایک حاجی دوست کا قصہ سناتے ہیں جو خود کو “دختر خور ” گرفانتے ہیں مگر وقت آنے پر ایک پِیشہ وار کی 40 منٹ کی تپسیا بھی انکی جوانی کو جوش میں نہیں لا پاتی . حاجی قہرمان کا قصہ سن کے پہلے تو خان سب اور ان کے حواری ذہن میں آئے. مزید ستم یہ ہوا کے اگلے ہی لمحے مکالمہ پر خان صاحب کے عاشق ، ہمدرد اور حسینی جناب ہمدرد حسینی کا مکالمہ بنام ریحام خان پڑھنے کو مل گیا.

میں محترم حسینی صاحب کو جانتا تو نہیں اور نا ہی میری ان کی ذات سے کسی قسم کا کوئی تعلق رہا ہے، البتہ جس سوچ کی محترم ترجمانی فرما گئے ہیں، اس سوچ سے میرا تعلق پچھلی ایک دہائی سے چل رہا ہے. پائپ پائیپر نما خان صاحب کے کردار پہ ہماری آواز اس وقت سے اٹھ رہی ہے جس وقت انہیں بطور فیشن سپورٹ کیا جاتا تھا، جس وقت وہ طالبان کے بھرپور حامی تھے اور جس وقت وہ رکشہ ڈرائیور یا درزی وغیرہ کو اپنا الیکشن امیدوار بنانے کے اعلان کرتے پھرتے تھے. حسینی بھائی کی سوچ کسی حد تک دَر اصل سیاسی فاشزم کہلائی جانی چاہیے کے اِس میں گفتگو کی بجائی دشنام طرازی و الزام بازی اور اونچی آواز کی شدت کو حق سے منسوب کیا جاتا ہے. یہ وہی سوچ ہے جس کے تحت ہر طرف اِس قدر دھول اڑا دی جاتی ہے کہ سب چہرے گرد آلود معلوم ہونے لگتے ہیں. الیکشن کمیشن کی مثال لے لیجیے. جہاں خان صاحب کے حق میں فیصلہ آئے وہاں الیکشن کمیشن معتبر ہے اور جہاں ان کے خلاف آئے وہاں الیکشن کمیشن بک چکا ہے. پی پی پی سے پیار محبت دیکھ لیجیے، ساری زندگی جنہیں باریاں لگانے کا طعنہ دیا وہی ضرورت آنے پر اپنے ساتھ کھڑے کر لیے جاتے ہیں. شیخ رشید کو دیکھ لیجیے، جس کا کبھی چپڑاسی بننا بھی پسند نہ تھا آج وہ کمرا امتحان کے پرچے میں موجود لازمی سوال کی مانند آپ کے ساتھ ہوتا ہے. اچھا بھلا ہے کون ؟ اچھا صرف اور صرف وہ ہے جو خان صاحب کی انا پرستی کو چیلنج نہ کرے. برائی کا معیار بھی کچھ ایسا ہی ہے پِھر برا بننے والا آدمی بے شک جسٹس وجیہہ الدین صدیقی ہی کیوں نا ہو !

میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کے سیاسی فاشزم پہ مبنی اِس سوچ کے حامل حضرات کسی پہ بھی کوئی بھی الزام لگانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے. اسی طرح خان صاحب کو ولی اللہ ثابت کرنے اور اس کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملانے میں بھی انہیں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی. خان صاحب کا ہر جلسہ “اگلے پچھلے رکارڈ” توڑ دینے والا ہوتا ہے، یہ اور بات ہے کے اگلی صبح تحریک انصاف کی مدح سرائی کرنی والے پیجز کی فوٹو شاپ یا دوسرے ممالک کے ٹریفک جام پکڑے جاتے ہیں جس پہ انہیں ذرہ برابر خفت محسوس نہیں ہوتی بلکہ اُلٹا ایسی جعلسازی بےنقاب کرنے والوں کو لفافہ جرنلسٹ کے طعنے دیے جاتے ہیں ( یقین نہ آئے تو ید بیضہ سے پوچھیے). حضور والا، خان صاحب پہ بھلا کوئی کیوں تیر پھینکے گا کیونکہ پہلے تو ہمیں اپنی عزتیں عزیز ہیں جبکہ دوسرا خان صاحب کو دشمنوں کی ضرورت ہی نہیں. ہر جلسے کے اِختتام پہ ان کے ساتھ ہوتا وہی ہے جو ڈیفینس میں حاجی قہرمان کے ساتھ ہوا. ایک نئی تاریخ، ایک نیا ڈرامہ اور وہ بھی احتساب کے نام پہ….

چلیں نکال لیتے ہیں راستہ بھی احتساب کے لیے.. لیکن پہلے یہ سمجھ لیں کہ ایسا کوئی راستہ پارلیمنٹ سے ہو کے ہی گزرے گا. جب ہم کہتے ہیں کہ یہ سیاسی مداری اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کہ ناہموار کوشش میں لگے ہیں تو ہمیں اچھی طرح احساس ہوتا ہے کہ پچھلے 3 سال میں انہوں نے دھرنے اور جلسے زیادہ کیے ہیں اور نیب، ایف آئی اے اور پولیس کو خودمختار بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں کل صفر بل پیش کیے ہیں. لہزا احتساب کی وہ تصویر جو خان صاحب دکھاتے ہیں وہ صرف اور صرف اقتدار کی کرسی تک رسائی کے لیے ایک سراب ہے.

آپ اور ہم نے اگر سب کچھ سڑک پہ جا کر ہی کرنا ہے تو ووٹ کس لیے دیا؟ کیا یہ ووٹ لے کر مکر جانے والی بات نہ ہوئی؟ بھائی ہماری اپنی زندگیاں ہیں، مصروفیات ہیں جن کے تحت ہم ان عمرانی معاہدوں کے آخر حد تک نفاذ میں خود شامل نہیں ہو سکتے. اس کے لیے ہم اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں. اگر آپ نے میاں صاحب کو ووٹ دیا اور وہ احتساب کے لیے قانون سازی نہیں کر رہے تو آپ اگلی بار انہیں ووٹ نہ دیں. یہ کہاں کی دیانت داری ہے کہ جس قانون سازی کے لیے آپ پارلیمنٹ سے تنخواہ لے رہے ہیں آپ وہ بھی نہ کریں، لوگوں کو سڑک پہ خوار بھی کریں اور تنخواہ آپ اس وقت کی بھی لیں جب آپ دھرنے دے رہے تھے؟

سڑک پہ فیصلہ کرنا آئین کا وضع کردہ طریقہ کار نہیں. پہلے تو آپ آئین کی پاسداری کرتے ہوے پارلیمنٹ میں نیب اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید طاقتور اور آزاد کرنے کے لیے بل پیش کریں. پھر اس بل کو اگر مسترد کیا جائے تب پارلیمان سے استعفی دے کر سڑک پہ آئیں اور یہ انارکی پھیلائیں.

لیکن کیا آپ ایسا کرنے میں مخلص ہیں؟ کیا آپ نے اپنے صوبے میں بدعنوانی کے الزام میں شیرپاؤ وغیرہ کو فارغ نہیں کیا تھا؟ کہاں ہے ان پہ ہوئی انکوائری کی تفصیلات؟ کیا ہَم پوچھ سکتے ہیں کے وہ کل صاف تھے یا آج؟ کیا آپ کی حکومت پہ بینک آف خیبر کی جانب سے الزام نہیں لگائے گئے؟ کیا بنا ان الزامات کا؟ آپ کے قائم کردہ اصولوں کے تحت ملزمان کو حکومتی عہدوں سے سبکدوش نہیں کر دینا چاہئے تھا؟

آپ فرماتے ہیں کہ آپ کو حیرت ہوتی ہے جب کوئی تعلیم یافتہ شخص بَقَوْل آپ کے ایک مستند اور جھوٹے شخص کے حق میں لباس سازی کرتا ہے. مزید یہ کے اس مستند جھوٹے کا دفاع کرنے والے تمام لوگ بیضمیر ہیں. اِس قسم کے ارشادات کو میں سیاسی فاشزم نا کہوں تو کیا کہوں؟ کیا مکالمے کا اصول یہی ہے کے یہ لو میں نے تم پہ الزام لگا ڈالا، اب بحث کا بقیہ حصہ تم اپنی صفائی میں دیتے پھیرو؟ آپ کی سمجھ میں یہ بات آئی گی بھی نہیں کیونکہ آپ کا مربی آپ کی تربیت ہی ایسی کر رہا ہے جس کے تحت جو وہ کہتا ہے وہ سچ ہے باقی کوئی کچھ بھی کہے وہ جھوٹا مکار اور بددیانت ہے. آپ اپنے غلط کو غلط کہنے والے خبطی سے ذرا گزارش تو کریں کے وجیہہ الدین صدیقی کی رپورٹ کتنی ٹھیک ہے کتنی غلط؟ آپ اپنے خبطی (یہ آپ کا استعمال شدہ لفظ ہے پِھر بھی دہرانے پر معذرت) لیڈر سے پوچھیے تو صحیح کے بینک آف خیبر کیس کا کیا بنا؟ ارے ذرا پوچھیے تو صحیح کہ کل تک جس زرداری کو آپ کرپٹ ترین کہتے تھے آج اس کی پارٹی آپ کے ساتھ کھڑی کیسے ہو گئی؟ یہ کیسا خبط ہے میاں؟ یا صرف اسی غلط کو غلط کہنا ہے جس سے اپنی کرسی کی جد و جہد کامیاب ہوتی نظر آئے؟

حسینی بھائی اپناے مضمون میں خان صاحب کی “جوانی” پہ بھی رقم طراز ہیں جس پہ صرف اتنی سی عرض کہ حضور ریحام بی بی کی خرافات ایک طرف لیکن ” میں رشتہ لینے تو نہیں جا رہا” اگر کوئی آپ کے گھر کے لیی کہے تو آپ کو کیسا محسوس ہو گا؟ ذاتی زندگی پہ بات کرنا ہرگز مناسب نہیں لیکن اگر ایک شخص شادی کی صبح اپنے بستر پہ کسی نیوز چینل کو انٹرویو دیتا پایا جائے تو اپنا عشق محبت ایک جانب رکھ کے فرمائیے گا ، کہ اسے آپ کس قسم کی دانشمندی کہیں گے؟

پاناما پیپرز پہ ویسے تو آج کل ہر کوئی دانشور بنا بیٹھا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ آپ تحقیقات کے اصرار سے آگے بڑھ کر خود فیصلہ سنانے کے درپے ہیں. جب کسی تحقیقات کا صرف من پسند فیصلہ قبول کر کے کڑوا کڑوا تھو تھر ہی کرنا ہے تو پِھر تحقیقات کیسی اور کس کی؟ ویسے ایک نکتہ یہ بھی ہے کے پاناما لیکس کا قصہ الیکشن 2018ء تک گھسیٹنے کا فائدہ تحریک انصاف ہی کو ہو گا. آگے قارئین پہ فیصلہ چھوڑ دیتے ہیں کے اِس مسلے کا حَل پارلیمنٹ چھوڑ کر سڑک پہ کیوں ڈھونڈا جا رہا ہے؟ اگر آپ سنجیدہ ہوتے تو پارلیمنٹ سے استعفیْ دیتے، یعنی وہی کام جس کا مطالبہ زرداری دور میں آپ مسلم لیگ سے کرتے تھے، لیکن صاحب، ظاہراً تو مسئلہ ہی سیاسی تخریب کاری کا ہے جو پارلیمانی طریقے سے پُورا نہیں ہوتا. اس کے لیے آپ سڑک چھاپتے رہیے اور اپنے حواریوں کو دشنام اندازی پہ جاری رکھیے. آپ کے لیے یاد دہانی ہے کہ “إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا.. وَأَكِيدُ كَيْدًا”…

وما علینا الا البلاغ..

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ کا مضمون نگار سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply