خاتون آہن کی آنکھ میں آنسو۔۔۔۔عارف انیس ملک

میں جلد ہی اس ذمہ داری سے دستبردار ہوجاؤں گی جو میری زندگی کا حاصل ہے. میں برطانیہ کی دوسری خاتون وزیراعظم ہوں، مگر یقیناً آخری نہیں. میرے لیے اس سے زیادہ فخر کی کوئی بات نہیں کہ مجھے اپنے محبوب ملک کی خدمت کرنے کا موقع ملا’. یہاں پہنچ کر نارنجی لباس پہنے برطانیہ کی آئرن لیڈی کا لہجہ بھرا گیا اور آنکھیں ڈبڈبا گئیں. وزیراعظم تھیریسا مے نے 7 جون کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا عندیہ دے دیا تھا. یہ الگ بات کہ کنزرویٹو پارٹی کو اپنا لیڈر چننے میں چھ سے آٹھ ہفتے لگ جائیں گے. وزیراعظم برطانیہ کی سرکاری رہائش گاہ ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کے باہر کی گئی مختصر پریس کانفرنس کو دیکھنے والوں میں تھیریسا مے کے شوہر فلپ بھی شامل تھے. کل صبح ہی ٹوری پارٹی کے کچھ نامی گرامی رہنماؤں نے ہاتھ جوڑ کر فلپ سے التجا کی تھی، ‘تھیریسا مے تو نہیں مانتی، خدا کے لیے تم ہی اس کو منالو کہ اب جانے کا وقت آگیا ہے’. لگتا ہے ان کی بات مان لی گئی. پارٹی از اوور.

2015 سے لے کر 2019 تک تھیریسا مے سے درجن کے قریب ملاقاتیں ہوئیں. 2015 کے اواخر میں جب وہ بحیثیت ہوم سیکرٹری، میری طرف سے منعقدہ پاکستانی لیڈرز کی تقریب میں شامل ہوئی تو پہلی دفعہ یہ خبر بریک ہوئی کہ تھیریسا مے کی فلپ مے کی شادی میں مرحوم پاکستانی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا اور ان دونوں کی پہلی ملاقات آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک ڈسکو میں انہوں نے ہی کرائی تھی. تب تھیریسا مے نے بہت محبت سے بے نظیر مرحومہ کا زکر کیا اور بتایا کہ مسلم امہ کی پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر انہوں نے، انہیں بہت متاثر کیا.

اسی تقریب میں، میں نے تھیریسا مے کے وزیراعظم بننے کی وہ پیشین گوئی کی جو بعد میں ریکارڈ کا حصہ بن گئی. وہ ایک سال سے کم عرصے میں، برطانیہ کی دوسری وزیراعظم بن گئیں اور ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اوریکل عارف کہ کر میرا تعارف کرایا. تاہم یہ ان دنوں کی بات ہے جب، بریگزٹ ووٹ کے بعد، ڈیوڈ کیمرون ہاتھ جوڑ کر منظر عام سے غائب ہو چکے تھے اور پورے برطانیہ میں تھیریسا مے کا طوطی بولتا تھا. برطانیہ کی سب سے طویل عرصے تک ہوم سیکرٹری رہنے والی تھیریسا مے نے فولادی خاتون کے طور پر اپنالوہا منوا لیا تھا. اب لوگ ان سے اسی طرز پر ملک کی قیادت کی توقع کر رہے تھے. یہ الگ بات کہ بطور وزیراعظم بہت سے لوگوں کی توقعات پر پوری نہ اتر سکیں.

بطور وزیراعظم تھیریسا مے کی بڑی غلطیوں میں سب سے پہلی جون 2017 میں جنرل الیکشن کا انعقاد ہے جس نے ٹوری پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی اور وہ بھاری اکثریت سے کم ہوکر بمشکل اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی. نقصان یہ ہوا کہ مخلوط حکومت بنانے کے بعد اب تھیریسا مے کی حکومت کے طوطے کی جان پارلیمنٹ کے چند اراکین کے ہاتھوں میں آگئی. یہ مینڈک تولنے والا کام تھا، جس میں کچھ تلتے تو باقی پھدک کر نیچے اتر جاتے.

تھیریسا مے کا آہنی خول، جو ہوم سیکرٹری کے طور پر اس کا اثاثہ تھا، وزیراعظم بننے کے بعد اس کے گلے کا طوق بن گیا. مجھے جولائی 2017 میں الیکشن سے فورا بعد ہونے والی ملاقات یاد ہے. تب ٹوری پارٹی کے تمام شرکاء کے چہروں پر یتیمی اور مردنی چھائی ہوئی تھی. ایک سینئر وزیر نے میرے کانوں میں سرگوشی کی. ‘یہ عورت ہمیں لے ڈوبے گی. اس کا عام آدمی کی نبض پر کوئی ہاتھ نہیں ہے. اس میں کوئی گرم جوشی نہیں. ایسا لگتا ہے کہ یہ فرج میں لگی ہوئی ہے.’

بدقسمتی سے یہ رائے، اکثریت کی رائے بن گئی. تھیریسا اور فلپ کی کوئی اولاد نہیں تھی اور اس وجہ سے وہ ٹھنڈے ٹھار نظر آتے تھے. اور تو اور برطانیہ کی تاریخ کے خوفناک ترین سانحے، گرین فیل ٹاور، جس کی آگ میں سینکڑوں افراد بھسم ہوگئے، نے تھیریسا مے کی عام افراد کے ساتھ مل کر کھڑے ہونے کی ریپوٹیشن پر مزید ڈینٹ ڈال دیے. لوگوں نے ایک ایسی وزیراعظم کو دیکھا جو ماتھے پر تیوریاں چڑھائے، بغیر جذبات کے، متاثرین سے اظہار ہمدردی کیے جارہی تھی. یہ ایک طرح سے انجام کا آغاز تھا.

تھیریسا مے کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے ہنٹر کے زور پر حکومت کرنے کی کوشش کی. اس نے اپنے عوام کو کھل کر نہیں بتایا کہ اس کا جینا مرنا ان کے ساتھ ہے. اسکے چہرے پر چڑھی فولادی تہیں موم نہ ہوسکیں. اور تو اور اس کی آنکھوں سے دو آنسو بھی صرف اس وقت نکلے جب وہ استعفے کا اعلان کررہی تھی. لوگوں کو حسرت ہی رہی کہ یہ آنسو عام لوگوں کے جل مرنے پر نکلتے. وہ کھل کر آئی ایم ساری بھی نہ کہ سکی. اسے بہت کم لوگوں نے کھل کر ہنستے ہوئے دیکھا. مجھے یاد ہے ایک نامی گرامی گورے صحافی نے اس کے سرد پن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ‘تھیریسا مے کی تو کتے سے بھی دوستی نہیں ہوسکتی’. برطانیہ کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کیونکہ یہاں جس کی کتے سے دوستی نہیں، وہ دنیا کا سب سے اکیلا شخص سمجھا جاتا ہے.

تھیریسا مے کی کابینہ میں شامل ایک وزیر کا کہنا تھا کہ ہر ہفتے کابینہ کی میٹنگ میں جانا، دانتوں کے ڈاکٹر والی کرسی پر بیٹھنے کے برابر تھا. نفسیاتی تجزیے نے ایک اور دلچسپ امر کا انکشاف کیا. تھیریسا مے، سکول جانے کے وقت سے ہی وزیراعظم بننے کے خبط میں مبتلا تھی. خیر یہ خبط جسے ماہرین نفسیات، گاڈ یا دیوتا کاملپکس کہتے ہیں، بہت سے سیاست دانوں میں موجود ہوتا ہے. مگر بعض کو اس کی زیادتی لے ڈوبتی ہے. خیر تھیریسا ویسے بھی اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اور بچپن میں دوستوں کی خاص ضرورت محسوس نہیں کرتی تھی.

‘تھیریسا مے کے پاس سیاست کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے. بچے ویسے نہیں ہیں. اگر وہ سیاست سے الگ ہوگئی تو مجھے حیرت ہوگی کہ کیسے جی سکے گی’ ایک دفعہ ٹین ڈاؤننگ میں اس کے ساتھ کام کرنے والی اسسٹنٹ نے سرگوشی کی. شاید اسی نفسیاتی معاملے نے بریگزٹ کے حوالے سے تھیریسا مے کے تمام فارمولوں کو ناکام بنا دیا. بحیثیت وزیراعظم، تھیریسا مے نے بریگزٹ کے کرائسس کو حل کرنا اپنی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا تھا، تاہم اپنی کابینہ اور پارٹی ممبران سے دوری اور بے لچک رویے نے ہر جگہ اس کو ناکام بنا دیا. اپنی آخری تقریر میں اس نے پہلی دفعہ لفظ کمپرومائز استعمال کیا، گو اس نے خود ایسی مل جل کر چلنے کی ہر کوشش ناکام بنادی.

اب ایک ملین پاؤنڈ کا سوال یہ ہے کہ برطانیہ کا اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟ اس ضمن میں بے شمار لطیفے مارکیٹ میں آچکے ہیں کہ وزیراعظم کے عہدے کے امیدواروں کی تعداد درجن سے زائد ہوچکی ہے. ٹوری امیدواروں کی نامزدگی اور ووٹنگ کے مراحل تقریباً دو ماہ کے اندر پورے ہوں گے. اس ضمن میں فیورٹ کے طور پر بورس جانسن کا نام لیا جارہا ہے. اگرچہ تاریخی اعتبار سے یہاں فیورٹ کم ہی وزیر اعظم بنتے ہیں. پاکستانی نژاد ہوم سیکرٹری ساجد جاوید، جو اپنے آپ کو فخریہ دہریہ کہتے ہیں، کچھ عرصہ قبل اس دوڑ میں سب سے آگے تھے. دو دن قبل ساجد جاوید کے ساتھ ڈنر کرتے ہوئے جب میں نے اسے کہا کہ ہم سب تمہیں ٹین ڈاؤننگ میں وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے پوکر چہرے کے تاثرات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی. ‘یو آر ٹو کائند:. ساجد نے میرا کاندھا دباتے ہوئے کہا. اس شام بات چیت کے دوران ساجد نے بہت زوردار طریقے سے اپنا مقدمہ لڑا. اس نے بتایا کہ برطانیہ کی ترقی کی شرح اس وقت جی سیون ملکوں میں دوسرے نمبر پر ہے. برطانوی ایکسپورٹس اس وقت تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں اور برطانیہ کے اندر بیرونی انوسٹمنٹ پورے یورپ کی مجموعی انوسٹمنٹ سے زیادہ ہیں. تاہم سنجیدہ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ساجد جاوید کا سب سے بڑا معمہ یہ ہے کہ ووٹرز نہیں جانتے کہ وہ کس مقصد کے ساتھ کھڑا ہے. ایک سینئر ٹوری نے کل ملاقات میں بتایا کہ ساجد وزیراعظم کے عہدے کے لیے سب سے شاندار گھوڑا تھا، لیکن اس نے پچھلے چھ مہینے کونے میں بیٹھ کر گزار دیے اور یوں بورس جانسن کا بھوت دوبارہ زندہ ہوگیا ہے. اب ساجد کے ہاتھ سے ٹرین چھوٹ چکی ہے اور اب فیصلہ بورس جانسن، ڈومینک راب اور جیریمی ہنٹ کے درمیان ہوگا. اگر لندن کا سابقہ میئر بورس جانسن اس دوڑ میں جیت گیا تو یہ ایک اور بحران کا نقطہ آغاز بھی ثابت ہو سکتا ہے.

تھیریسا مے کے اقتدار پر پردہ گر پڑا ہے. اس آہنی اعصاب کی خاتون پر بہت سے حوالوں سے آوازیں بھی کسی جارہی ہیں. تاہم شاید ایک دعویٰ وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر، کر سکتی ہے کہ
¬ہر داغ ہے اس دل میں، بجز داغ ندامت
تھیریسا مے، اقتدار کی کشتی کے پتوار کچھ گیارہ سال تک سنبھالے رہی، مگر کسی بھی قسم کے سکینڈل کے بغیر رخصت ہو رہی ہے. نہ کوئی پلاٹ بانٹنے کے قصے، نہ صوابدیدی فنڈ کے اجراء کی کہانیاں، نہ سوئٹزرلینڈ میں خفیہ بینک اکاؤنٹ، نہ مسٹر ٹین پرسینٹ شوہر . یہ گورے بھی ہمیں بہانے بہانے سے زچ کیے رکھتے ہیں اور ہماری الہڑ مٹیار جمہوریت کے پسینے چھڑائے دیتے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors london

برطانوی اقتدار کے ایوانوں میں میوزیکل چئیر کے اس کھیل کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان کا دورہ برطانیہ خطرے میں ہے. دو ہفتے قبل اس دورے کے حوالے سے تیاریاں مکمل کی جارہی تھیں اور بھارتی وزیراعظم مودی کےمقابلے میں عمران خان کو بھی ویمبلے سٹیڈیم میں بیس ہزار سے زائد پاکستانیوں کے روبرو لایا جا رہا تھا. تاہم تھیریسا مے کے استعفے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث ورلڈ کپ کے دوران عمران خان کا دورہ کٹھائ میں پڑگیا ہے اور اب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اٹھارہ جون کے آس پاس برطانیہ کا دورہ کریں گے. اگلے وزیر اعظم کا بروقت انتخاب اس فیصلے کو تبدیل بھی کرسکتا ہے.
https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply