الیاس گھمن، رعایت اللہ فاروقی اور عدالت۔ ۔ ۔ رانا تنویر خاں

ہم مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے لیے اسلام سے زیادہ مسلک کی اہمیت ہے. بڑے سے بڑا جرم بھی مسلکی ہم آہنگی کی وجہ سے قابل معافی ہے جبکہ اچھے سے اچھا کام بھی مسلکی اختلاف کو لے کر ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہوتا۔ مولانا الیاس گھمن کے متعلق جو باتیں فیس بک پر گردش کر رہی ہیں، ضروری نہیں کہ سو فیصد درست ہوں مگر ان کو سو فیصد غلط بھی نہیں کہا جاسکتا لیکن رعایت اللہ فاروقی صاحب کی سادگی پہ مرجانے کو جی چاہتا ہے کہ وہ تب تک ان الزامات کو سیریس نہیں لیں گے جب تک عدالت گھمن کو مجرم قرار نہ دے دے کیونکہ گھمن صاحب ان کے نہ صرف قریبی دوست ہیں بلکہ ان کے والد محترم کے شاگرد خاص بھی ہیں۔

فاروقی صاحب کے خیال میں گھمن کی ذہانت ہی ان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ “اندر کی خبروں سے اتنی بےخبری بھی اچھی نہیں فاروقی صاحب” میرا خیال ہے کہ فاروقی صاحب کو اعلی سیاسی و صحافتی و سفارتی و فوجی تعلقات کے ساتھ ساتھ اعلی “مدارسی” تعلقات بھی قائم کرنے چاہئیں تا کہ مدارس کے اندر کی خبروں سے بھی واقف رہیں کیونکہ یہ محکمہ ان چاروں سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور یہاں کی خاص خبریں خاص لوگ بھی لکھنےکی جرات نہیں کر پاتے۔

جناب عالی یہ معاملہ قریبا ایک سال پرانا ہے. سمیعہ زین العابدین جو خود ایک بڑے عالم دین کی بیٹی ہیں، کا مقصد اگر مولانا الیاس گھمن کو اگر بدنام کرنا ہوتا تو میڈیا و سوشل میڈیا پر یہ کام کب کا ہوچکا ہوتا.. ان محترم خاتون نے مولویانہ نظام کے مطابق مختلف مدارس سے فتوے طلب کیے، بڑے بڑے علماء کو خط لکھےمگر نتیجہ مسلک کے مقابل “زیرو بٹا نل” نکلا… کہ اس سے مسلک بدنام ہوجائے گا۔ اب بھی ان خاتون نے دارلافتاء کو فتوی لینے کی غرض سے ہی کہ “میں الیاس گھمن کے نکاح میں ہوں یا نکاح ختم ہو گیا ہے” خط لکھا تھا جو “لیک” ہو گیا اور پانامہ لیکس کی شکل اختیار کر گیا۔۔۔ بات سوشل میڈیا تک پہنچی اور فیس بک والے تو ہوتے ہی اس انتظار میں ہیں کب کوئی خبر ہاتھ آئے اور وہ پانی سے مکھن نکالیں۔۔ جہاں تک عدالت سے رجوع کرنے کی بات ہے تو مولویانہ نظام میں دارالافتاء ہی سب سے بڑی عدالت ہے اور چونکہ وہ خاتون اسی ماحول سے تعلق رکھتی ہیں تو انھوں نے اپنے سسٹم کی عدالت سے رجوع کیا۔

میں نے اپنی کتاب “اسلام کو مولوی سے بچاو” میں مدارس کے حوالے سے ایسی کوئی بات نہیں کی اور صرف نظریاتی و تاریخی اختلاف کیا ہے مگر سچ یہ ہے کہ ہمارے اکثر مدارس کا ماحول “فرنگیانہ” ہے. جس تعداد میں کیسز ظاہر ہورہے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ کیسز ہزار پردوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔۔۔ جب بھی کوئی دبے الفاظ میں مولوی کی دین فروشی یا حرص و ہوس کا ذکر کرتا ہے تو فورا اسلام کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں اور اسلام کو بچانے کے چکر میں یہ معاملات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ الیاس گھمن اگر مجرم ثابت ہو بھی گیا تب بھی  وہ مسلک کے پیروکاروں کے کے لیے ولیءکامل ہی رہے گا جسے سازش کے تحت پھنسایا گیا۔

یہ سچ ہے کہ الیاس گھمن کو مجرم کبھی بھی ثابت نہیں کیا جا سکے گا مگر اس کی حقیقت جان کر انسانیت بھی شرمانے لگی ہے۔ کیا طالبات بیٹیاں نہیں ہوتیں؟ کیا سوتیلی بیٹی، حقیقی بیٹی سے مختلف ہوتی ہے؟ لوگو! گواہ رہنا: یہ دین فروش ملا میرے نبی کے دین کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی اصلاح کے لیے نبی مبعوث ہوئے۔ یہ لوگ میرے نبی کو اذیت پہنچا رہے ہیں۔ لوگو! آنکھیں کھولو! پہچانو ان شیطانوں کو جو ہر مسلک میں موجود ہیں۔ ان دین فروشوں، ہوس کے پجاریوں کے سامنے ڈٹ جاؤ۔۔۔ ورنہ کل قیامت کے روز سوائے رسوائی و شرمندگی کے ہمارے پاس کچھ نہ ہوگا۔ علماء سے گزارش ہے کہ خدارا اپنے اندر کے ڈر کو باہر نکالیے۔۔۔ اور کھل کر مذمت کیجیے ان دین فروشوں کی۔۔۔ آخرت کی عزت ، اس ظاہری شان و شوکت سے بہرصورت بہتر ہے۔۔ مسلکی رسوائی، اسلام کی رسوائی سے بہتر ہے۔۔۔ مسلک تو بس ایک ہی ہے۔۔۔”حق پر ڈٹ جانا”

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ کا مضمون نگار سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ فاروقی صاحب اگر جواب دیں تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”الیاس گھمن، رعایت اللہ فاروقی اور عدالت۔ ۔ ۔ رانا تنویر خاں

  1. یہ مفتی ریحان کسی جج کا نام ھے یا کوئی ایسا قاضی آلقضاۃ ھے جس کے سامنے سمیعہ زین العابدین نے یوں گِڑگِڑا کر اپنا دُکھڑا سنایا؟
    ایسی شرمناک باتیں تو عورتیں اپنی ماں یا بہن کو نہیں سُنا سکتے تو مفتی ریحان کے ساتھ اُس خاتون کی ایسی کونسی نسبت تھی جو اسطرح کے خطرناک اور شرمناک بھید کھول دی؟
    کیا ساڑھے تین سال کے اس طویل دورانیے میں صاحبہ موصوف کو کوئی ایک موقعہ بھی نہیں ملا کہ وہ اپنی یہی دکھ بھری داستان کو اپنے کسی قریبی رشتہ دار یعنی ماں بہن بھائی بھابی کو سُنا سکتی یا اس سے بڑھ کر کسی عدالت سے رجوع کرتی؟
    مفتی موصوف کیسے تصدیق کرتے ھیں کہ پردے کی اوٹ سے کہانی سنانے والی خاتون سچ مچ سمیعہ زین العابدین ہی تھیں؟

    نوٹ ؛ میں کسی پر انگلی نہیں اُٹھا رہا ہُوں پر مفتی صاحب نے اگر سچ تحریر کیا ہے تو چھُپ کر کہاں بیٹھے ہے 😀

Leave a Reply