باتھ روم رائٹرز۔۔۔۔۔سید مہدی بخاری

سفر کرنے کی وجہ سے انسان بہت کچھ سیکھتا اور پڑھتا ہے ، سیکھتا زیادہ ہے پڑھنے کو جو ملتا ہے اس کا نوے فیصد جی ٹی روڈ پر پٹرول پمپوں ، ہوٹلوں کے پبلک باتھ رومز ، پبلک ٹرانسپورٹ ، شہر اور قصبوں کی دیواروں پر لکھا ملتا ہے۔ کوئی بھی شہر ہو آپ کو پبلک باتھ رومز میں کوئی نہ کوئی تحریر لازمی نظر آئے گی۔
کبھی کبھار تو مجھے لگتا ہے جیسے آدھی آبادی “باتھ روم رائٹر” ہے ۔ یہ ایسے رائٹر ہوتے ہیں جو گمنام ہی رہتے ہیں۔ان کا کبھی مجموعہ کلام نہیں چھپتا۔ ظالم کئی تو ایسے ایسے جملے لکھ جاتے ہیں جن کو پڑھے بغیر باہر آنے کو جی نہیں چاہتا ، لاھور کے ریلوے اسٹیشن پر ایک باتھ روم میں کسی نے لکھا ہوا تھا ” ظالمو جلدی کرو قاضی آ رہا ہے” ( قاضی حسین احمد مرحوم تب حیات تھے اور جماعت اسلامی اپنے ہر احتجاج کے اشتہار میں قاضی صاحب مرحوم کی تصویر کے ساتھ لکھا کرتی تھی کہ ظالمو! قاضی آ رہا ہے )
میرا کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ میں بھی باتھ روم کی دیوار پر ایسی کوئی خدمت سر انجام دوں لیکن ہر بار مارکر رکھنا بھول جاتا ہوں۔ باتھ روم میں مشاعرے بھی ہوتے ہیں بس فرق یہ ہے کہ ہر کسی کو کنڈی لگا کر اپنا اپنا کلام لکھنا ہوتا ہے۔
بعض لوگ تو باتھ روم کی دیوار سے خط و کتابت و جگت بازی کا کام بھی لیتے ہیں ۔ گوجرانولہ میں ایک پٹرول پمپ پر واقع باتھ روم میں لکھا ہوا تھا ” اپنے کیئے کرائے پر پانی پھیر کے جانا” اس کے آگے کسی نے جواب لکھا ہوا تھا ” تم ماشکی کی اولاد لگتے ہو” اس کے بعد پہلے والے نے لکھا ہوا تھا ” چلو انسان کی اولاد تو ہوں تمہاری طرح باندر کی اولاد تو نہیں” جواب میں درج تھا ” صحیح کہا ابو ”
جب سے ڈائیوو ٹرمینل نے ائیر کنڈیشنڈ ٹرمینل بنائے ہیں میں تو باتھ رومی جملے پڑھنے کو ترس گیا ہوں ، اللہ بھلا کرے نیو خان کا جن کی بدولت میری دل پشوری ہو رہی تھی۔ باتھ روم رائٹرز میں آبادی کے اضافے کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو لوگوں نے جہازوں کے باتھ رومز کو بھی نہیں چھوڑا ، سیالکوٹ سے کراچی جانے والی ایک پی آئی  اے کی فلائٹ کے باتھ روم میں لکھا تھا” یہاں ہر انسان اکیلا آتا ہے اور اکیلا ہی جاتا ہے” ایک اور جگہ گانا تحریر تھا ” ہوا ہوا اے ہوا خوشبو لٹا دے ۔۔۔۔ کہاں کھلی ہاں کھلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” ( حکومت پاکستان کے مجریہ ایکٹ سینسرشپ 1962 کے تحت باقی کے الفاظ حذف کیے  جا رہے ہیں ) ۔ اسی طرح ایک عوامی مقام پر باتھ روم میں لکھا دیکھا تھا ” تُو کر جا ساڈی خیر اے ”
مجھے امید ہے کہ باتھ روم رائٹرز اپنا کام جاری رکھیں گے تا کہ ٹوٹے ہوئے ادبی سلسلے کو بحال رکھا جا سکے لیکن صرف اتنی گزارش کروں گا کہ جو بھی لکھیں ذرا خوشخط کر کے لکھا کریں کیوں کہ بعض اوقات پڑھنے میں اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ باہر  کھڑا بندہ دروازے کو “دولتیاں” مارنے لگ جاتا ہے۔
جنرل پبلک ٹرانسپورٹ بھی ادبی ذوق رکھنے والوں سے اپنی عزت نہیں بچا سکی۔سیٹوں کی پشت پر ایسے ایسے نقش و نگار اور گلکاری کی گئی ہے کہ داد دئیے بنا گزاره نہیں ۔ دل کی ڈایاگرام جتنی اچھی میں نے سیٹوں کے پیچھے بنی دیکھی بیالوجی کی کتابوں میں بھی نہیں دیکھی۔ ساتھ “زخمی دل ۔۔۔۔۔ دل جلے ۔۔۔۔۔ دل دے دیا ہم نے تم سے پیار کر کے۔۔۔۔۔۔ بے وفا دل” وغیره وغیره لکھا بھی پایا گیا۔ شازیہ  0300******* , سلطانہ  جل پری 0333*********, کیوٹ گرل 0321*********’ اور پتہ نہیں کتنے نام بمعه نمبرز لکھے دیکھ چکا ہوں۔
مرد حضرات نام و نمبر کے علاه ضلع و تحصیل بھی لازمی لکھتے ہیں تا کہ کوئی بذریعہ ڈاک رابطہ کرنا چاہے تو کر سکے ۔ عاصم باجوه ، چوھدری فانا ، بلا گجر ، مختار جٹ ، راشد ٹوانه ، عرفان لولی بوائے ، ہینڈسم مرزا ، ہاٹ سلیم ہاٹ ، یہ چند نام ہیں جو یاداشت میں بلکہ لاشعور میں بیٹھ چکے ہیں۔
شاعری کو جتنا بام و عروج پبلک ٹرانسپورٹ کی سیٹوں نے بخشا شاید ہی کسی ادبی فورم نے اتنی محنت کی ہو۔ یہ شعر وزن و بحر سے تو خارج ہوتے ہیں لیکن دلی جذبات کی بھرپور بلکہ شدید عکاسی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انڈین گانے بھی اکثر لکھے نظر آ جاتے ہیں کبھی کبھار کوئی فحش گالی اور نازیبہ جملہ بھی نظر پڑتا ہے جس میں لکھنے والا پڑھنے والے سے ہی مخاطب ہوتا ہے ۔میں ایسی تحریروں کو آدھا پڑھ کے چھوڑ دیتا ہوں!
بس سے باہر نظر دورائیں تو ملک کی ہر دیوار پر حکیموں ، عاملوں ، منجن بیچنے والوں ، سیاستدانوں کے اشتہارات ہمہ وقت نظر آتے رہتے ہیں ” شادی سے پہلے اور بعد میں ایک بار ضرور ملیں ۔۔۔۔۔۔ ناامیدی کفر ہے ۔۔۔۔۔ ظاہر مردانہ  امراض کے پوشیده ماہر ۔۔۔۔۔۔ شرمائیں نہیں ایک بار آزمائیں ۔۔۔۔۔۔۔ خفیہ  زنانہ  امراض کی مخصوص دوائی ۔۔۔۔۔۔۔ وزن گھٹائیں ۔۔۔۔۔ پر مسرت ازواجی زندگی کا راز حکیم سلمان کے پاس ۔۔۔۔۔۔۔ شیر آیا شیر آیا ۔۔۔۔۔۔ اہلیان میلسی کی آواز ۔۔۔۔۔۔۔ چاچا طفیل کونسلر آپ کا خادم ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نہیں تو کون ۔۔۔ ہزارے وال، بابے دے نال ۔۔۔۔۔ آزاد صوبہ  ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ ہندوستان نہ پاکستان ۔۔۔۔۔۔ کشمیر آزاد ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بوٹا پھوک سروس ”
سفر کرتے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ میں اس پڑھے لکھے معاشرے کا حصہ ہوں کہ جس کی باتھ رومز کی دیواروں سے لے کر شہر کی دیواروں تک اور بس کی سیٹوں سے لے کر بسوں کی بیک تک کچھ نہ کچھ لکھا ہے۔ یہ  قوم بس لکھتی ہے اور لکھتی چلی جاتی ہے۔ پھر بھی اہل دانش کو گلہ پے کہ  ہم جاہل ہیں ۔ دانشوروں کو آنکھیں کھول کر اپنے اردگرد غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے یا شاید میں فوٹوگرافر ہوں اس لیئے میری آنکھیں زیادہ دیکھنے کی عادی ہیں اور دماغ زیادہ سوچنے کا۔ بہرحال جو بھی ہے اقبال بجا فرما گئے تھے
“ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی ”
آ پاس آ رہ نہ جائے کوئی خواہش باقی
نوٹ:یہ تحریرمہدی صاحب کی وال سے کاپی کی گئی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply