• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جوکر۔۔رمشا تبسم کی ڈائری “خاک نشین” سے اقتباس “رنگین اداسی”

جوکر۔۔رمشا تبسم کی ڈائری “خاک نشین” سے اقتباس “رنگین اداسی”

ہر جیتا انسان ” زندہ” نہیں ہوتا۔ ہر ہنستا انسان “خوش” بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔زندگی عجیب رنگ رکھتی ہے۔۔۔کبھی “بے رنگ”  ہو کر تکلیف دیتی ہے اور کسی کو بہت  زیادہ “رنگین” ہو کر تکلیف دیتی ہے۔۔؟
مختلف رنگ خود پر سجائے, لوگوں کو حقیقی ہنسی بانٹنے والے, لوگوں کو خود پر ہنستے دیکھ کر خوش ہونے والے, یہ “رنگین اداسی” کا اثاثہ لئے “جوکر” بہت بڑے فنکار ہوتے ہیں۔۔۔
اداکاری کے جوہر دکھاتے۔اپنے “آنسوؤں” کو چھپا کر اپنی “تکلیف” کو پسِ پشت ڈال کر ,دنیا کے لوگوں کو اپنے رنگوں سے سجائے ہوئے وجود سے خوش کرتے ہوئے۔۔اداس لوگوں کو کھلے بازوؤں سے ہنسی کی دنیا میں خوش آمدید کہتے یہ لوگ در حقیقت ان رنگوں کے پیچھے بہت “بے رنگ” اور “افسردہ” ہوتے ہیں۔۔۔ ظاہری آنکھ ان کے “دُکھی وجود” اور ان رنگوں کے پیچھے موجود “اداسی “کو نہ دیکھ سکتی ہے  نہ  محسوس کر سکتی ہے۔۔۔
تالیاں بجانے والے اپنی ہنسی پا لیتے ہیں۔مگر “جوکر” کی ہنسی اور رنگوں کے پیچھے چھپی اداسی کوئی دیکھنے کی کوشش نہیں کرتا۔نہ  ہی ان کے درد اور تکلیف کو کوئی محسوس کرنا چاہتا ہے۔
بہت” رنگین” اور “اداس” مگر “بہادر” ہوتے ہیں یہ لوگ۔بھلا آسان تھوڑی ہے۔ اپنا تماشا بنا کر پیش کرنا اور پھر تالیاں مارتے لوگوں کے ساتھ قہقہے بھی لگانا۔
کتنی اذیت  ناک  گھڑیاں ہوتی ہیں کہ  آپ کا وجود تماشا ہے اور تماش بین حقارت سے دیکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں ان کا وجود کچھ بھی نہیں صرف ایک “قہقہہ” ہے۔وہ قہقہہ جو لوگ لگائیں گے اور ہوا میں بکھیر دیں گے۔ اسکے باوجود تماشا مکمل ہونے تک بار بار گرنا۔۔۔ بار بار خود پر ہنسنا ۔۔مسلسل اپنے آپ پر لوگوں کو ہنسانے کی جدوجہد کرنا اور اختتام پر “ہاتھ جوڑ” کر” مسکراہٹ” چہرے پر سجائے “تماش بینوں” کا شکریہ بھی ادا کرنا۔۔۔کیسا کمال ہے؟کیسا ظرف ہے جوکر کا۔۔۔ اور “ہنسنے والے” “ہنسی بانٹنے” والوں کا نہ  شکریہ ادا کرتے ہیں نہ  ہی محبت بھری نگاہ ڈالتے ہیں۔تماشہ ختم, ہنسی ختم اور رہ گیا تنہا “جوکر” اپنے بے شمار رنگوں کے ساتھ تنہا ,اپنے  بے شمار غموں کے ساتھ اکیلا ۔نہ  کوئی ہمدردی کا جملہ, نہ  ہی کوئی محبت کی آس ,نہ  ہی کوئی احساس کی موجودگی ان “جوکروں” کا نصیب ہوا کرتی ہے۔
یہ تالیاں بجانے والے, یہ بے بسی کے تماشے پر “قہقہے” لگانے والے ,حقیقت میں یہ بے رنگ لوگ ہیں,احساس , ہمدردی, محبت اور انسانیت کے رنگ سے خالی یہ لوگ جو ان “رنگین اداسی” والوں کے آنسو نہیں دیکھ سکتے۔۔۔ یہ دراصل خود” جوکر” ہوتے ہیں ۔جن کو صرف ہنسنا آتا ہے۔۔اداسیوں پر قہقہے لگانے آتے ہیں۔
یہ” رنگین” نظر آنے والے “اداس” لوگ زندگی میں” زندہ” ہوتے ہوئے بھی اکثر قبر کا عذاب جھیل رہے ہوتے ہیں۔ان کے اس “عذاب” پر تالیاں بجاتے لوگ انسانیت پر عذاب ہیں۔
“جوکر ” کے لئے زندگی ایک جوا ہے۔جس کو موت کے جیتنے تک کھیلتا ہے۔ زندگی کی ہار طے ہے۔ موت کی جیت بھی طے ہے۔پھر بھی یہ” بے رنگ” سے “رنگین لوگ” موت کو شکست دینے یا زندگی کی جیت کو یقینی بنانے کے لئے ہر پل اذیت سہتے ہیں۔۔۔اور موت وہ ایک دن جیت ہی جاتی ہے۔
ان کی ہر روز کسی نا کسی صورت موت طے ہے پھر وہ موت خواہشوں کی ہو, حسرتوں کی, یا خاکی وجود کی ۔ان کی صرف موت ہی بے رنگ نہیں ہوتی بلکہ ان کی زندگی بھی بے شمار رنگوں کی موجودگی کے باوجود بے رنگ ہی ہوتی ہے۔یہ لوگ ہمارے معاشرے میں رنگوں کی دنیا سمیٹے, بے رنگ  زندگی جیتے ہوئے ایک دن مر جاتے ہیں۔یہ ہنسی بانٹنے والے “جوکر” ہمیشہ بے نام ہی جیتے ہیں۔ بے نام ہی مر جاتے ہیں۔۔۔اور ہم صرف “تالیاں” بجانے والے, احساس سے خالی جوکر , ساری عمر تماش بین بن کر کسی نا کسی کی محبوری , بے بسی اور تکلیف پر تالیاں بجاتے رہتے ہیں۔۔۔ہم تالیاں مارنے والے “جوکر ” ہیں۔۔۔اور وہ ہنسی بانٹے والی مخلوق ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”جوکر۔۔رمشا تبسم کی ڈائری “خاک نشین” سے اقتباس “رنگین اداسی”

  1. آج کل کے دور میں ہر بندہ کسی نہ کسی شکل میں ایک جوکر بنا ہوا ہے. ہر کوءی صبح سویرے سوانگ رچ کر گھر سے نکلتا ہے اور بھانت بھانت کے لوگوں کا سامنا کرکے شام کو تھکاہارا گھر واپس لوٹتا ہے. کوئ ٹای لگا کر جوکری کر رہا ہے اور کوی میلے کچیلے کپڑوں میں اپنا سودا سلف بیچ کر فنکاری کر رہا ہے. .. سب کا مقصد ایک ہی ہے. زندگی کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ کرنا. ہر ایک کے سینے میں ہزاروں ارمان اور خواہشات مچل رہی ہیں. ہر کسی کے لبوں پر ان چاہی ہنسی ہے.. لب مسکرا رہے ہیں مگر دل رو رہا ہے. رمشا آپ نے ایک حساس موضوع کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ قلم بند کیا ہے. ویل ڈن

    1. بہت شکریہ آپ کا۔ اور آپ کے الفاط موتی ہیں۔جو آپ نے میری تحریر پر بکھیریں ہیں

  2. بسم اللہ الرحمن الرحیم
    اسلام علیکم!
    ?بقلم خود
    ہونٹوں پہ ہےہنسی، چہرے پہ اک نقاب
    غموں کو چھپا کے اپنے ، ہنساتاہوں جناب
    ہر رنگ سجا کے چہرے پہ جوکر بنا ہوں میں
    اذیت میں ڈوب کر بھی ہنستا ہوں بے حساب
    ۔۔۔۔ آپکی یہ تحریر پردرد اور پر تاثیر ہے۔ ۔۔ لفظوں کے ذریعے آپ حقیقت کاوہ اثر چھوڑ جاتی ہیں ۔۔۔ جو ہم جانتے بوجھتے دیکھ کر ان دیکھا کر دیتےہیں۔۔ دکھوں کو چھپا کر چہرے پہ نہ صرف ہنسی سجا نا بلکہ اپنے چہرے کو مضحکہ خیز بنا کر اپنی حرکات سےدوسروں کو اپنی ذات پہ ہنسنےکا موقع دینا ۔۔۔ اک بڑے ظرف کی بات ہے ۔۔۔ اور ہماری کم ظرفی یہ ہے ہم اسکے ظاہر میں الجھ کر بے تحاشا قہقہے لگاتےہیں۔ ۔۔ تفریحا خوش ہوتے ہیں۔ ۔۔ لطف اٹھاتے ہیں ۔۔۔۔ اور پھر کچھ عرصےکےبعد بھول جاتے ہیں ۔۔۔۔ ویسے دیکھا جائے تو ہم سے ہر ایک دوسرے کے لیے جوکر کی حثیت رکھتا ہے ۔۔۔۔ہم اک دوسرے کے احوال و اعمال پر دل کھول کرقہقہے لگاتے ہیں ۔۔۔ دل آزاری کرتے خود کو برتر ثابت کرنے کے چکر میں اپنا آپ بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی کسی دوسرے کے لیے جو کر ہی ہیں ۔۔۔۔فرق صرف اتنا کہ ہم جوکر بنائے جاتے ہیں کبھی کسی رشتے کے ہاتھوں ، کبھی عوام بن کر ۔۔۔ جبکہ وہ خد اپنے اور اپنے اہل وعیال کا پیٹ بھرنے کی خاطرجوکر بنتا ہے ۔۔۔ سلام عظمت اس کی ہمت پہ۔ ۔۔
    رمشا جی! آپ کی تمام تحاریر با مقصد اوربااثر ہیں ۔۔۔ آپ کی قلم کی نوک کی زد میں آیا اک اک لفظ حقیقت سے قریب تر اور دل پر اثر پذیر ہوتا ہے۔ ۔۔ اللہ رب العزت آپ کی ہر کوشش کو کامیابی سے ہمکنار کرے آمین یارب العالمین

Leave a Reply to رمشا تبسم Cancel reply