ایک نوجوان کا صلہ رحمی کی بابت سوال۔۔۔۔شاہد محمود

صلہ رحمی ایک عظیم صفت انسانی ہے اور قران و سنت میں اس کی پرزور تاکید ملتی ہے اسی طرح قطع رحمی پر وعید بھی ملتی ہے۔ میں اکثر اس موضوع کو لیکر پریشان رہتا ہوں کہ کہی مجھ سے یہ گناہ تو سرزد نہیں ہو رہا۔ میں اپنے خاندان کے کئی گھرانوں سے ان کے تاریخی منفی رویوں (خود غرضی، لالچ، تکبر وغیرہ) کی بنا پر طویل مدت سے تعلق منقطع کر چکا ہوں۔ میں ان کی غمی خوشی میں شریک نہیں ہوتا جبکہ میرے گھر کے دیگر افراد ان گھرانوں کے غمی کے مواقعوں پہ بالخصوص اور خوشی کے مواقعوں پر بالعموم شریک ہوتے ہیں لیکن میں شائد بہت سنگدل ہوں نافرمان ہوں اللہ کا کہ قریبی رشتوں کے جنازوں تک میں شرکت سے انکاری رہا ہوں ۔۔۔۔۔ کیا میں قطع رحمی کی وعید کی زد میں ہوں؟

جواب: ایسا ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود آپ کے دل میں صلہ رحمی کا احساس جاگنا، اس کے متعلق سوچنا، لکھنا یہ سب اللہ کریم کی عطاء ہے۔ صلہ رحمی تو اصل میں ہے ہی وہاں جہاں کوئی آپ سے تعلق توڑے اور آپ اس تعلق کو جوڑ لو ورنہ اچھا سلوک کرنے والے سے تو سب اچھے رہتے ہیں۔

پیارے اللہ کریم کے پیارے حبیب اور ہمارے پیارے آقا کریم رحمت اللعالمین خاتم النبیین شفیع المذنبین سردار الانبیاء ابوالقاسم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک وصیت اس طرح بیان ہوئی ہے؛
“حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : “میرے خلیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے وصیت فرمائی کہ میں صلہ رحمی کروں اگر چہ رشتہ دار میرے ساتھ بے رخی کا سلوک ہی کیوں نہ کریں” ۔( معجم طبرانی کبیر )۔

رشتہ دار انسان ہی ہوتے ہیں اور بندہ بشر خطاء کا پتلا ہے۔ اب ہمارے سب رشتہ دار اتنے معصوم بھی نہیں ہوتے کہ ان سے کوئی غلطی سرزڈ نہ ھو اور یہ بھی بعید ہے کہ ان کا رویہ ہمیشہ ہی بہت اچھا ہو۔ ہمارے عزیز رشتہ داروں سے بھی غلطی و لغزش سرزد ہو سکتی ہے، ان کے منہ سے غلط بات بھی نکل سکتی ہے کہ شیطان تو اس گھات میں لگا رہتا ہے کہ وہ جھگڑا کرائے اور قطع رحمی شیطان کی خوشی کا ذریعہ ہے۔ نفس و شیطان کے بہکاوے میں آ کر ہمارے کسی عزیز رشتہ دار سے کبیرہ گناہ کا ارتکاب بھی ہو سکتا ہے۔ اب اگر ان سے کبھی کوئي ایسی چیز سرزد ھو جاۓ تو بھی آپ ان سے معافی تلافی و نرم دلی کا رویہ اختیار کیجئے کیونکہ یہ عفو و کرم کا شیوہ اہل احسان نیکوکاروں کے اوصاف میں سے ہے۔ ان کی برائي کا بدلہ احسان سے دیں ، وہ اگر اپنی کسی غلطی پر کوئی عذر معذرت پیش کریں تو اسے قبول کر لیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا تھا وہ معروف ہے لیکن جب انھوں نے معذرت کی تو انھوں نے ان کی معذرت کو قبول فرمایا اور انھیں معاف فرما دیا ، انھیں کوئی ڈانٹ نہیں پلائي بلکہ ان کے لۓ دعاء فرمائی اور اللہ سے ان کے لۓ مغفرت و بخشش طلب فرمائی جیسا کہ قرآن میں ہے:
” (یوسف علیہ السلام نے) جواب دیا : آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمھیں بخشے وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے” ۔ ( یوسف : 92)

اس لئے دل میں جاگنے والے احساس کو نعمت سمجھیں اور رشتہ داروں کی غلطیوں کو معاف کر دیں ، ان کی کوتاہیوں اور لغزشوں سے درگزر کرتے ہوئے محبت و بھائي چارہ کی راہ اپنائيں اور نرمی و صفائی قلب کو اختیار کریں تو آپ صحیح معنوں میں صلہ رحمی کے حامل اہل وفا لوگوں میں سے ھو جائيں گے۔ وہ لوگ چاہے آپ سے قطع تعلقی کریں مگر آپ صلہ رحمی کریں وہ اگرچہ غلطی پر غلطی کرتے جائيں آپ معافی و تلافی کی عادت نہ چھوڑیں۔ وہ اگرچہ برائی کریں مگر آپ نیکی کۓ چلے جائيں ان سے قطع تعلقی کر کے ان پر اپنے غصے کا اظہار نہ کریں بلکہ آپ صاحب جود و سخا اور کریم النفس رہیں۔ پیارے اللہ کریم کے پیارے حبیب اور ہمارے پیارے آقا کریم رحمت اللعالمین خاتم النبیین شفیع المذنبین سردار الانبیاء ابوالقاسم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاارشاد گرامی ہے:
“حرص و لالچ سے بچیں ، اس نے پہلے لوگوں کو ھلاک کرکے رکھ دیا تھا۔ اسی حرص و لالچ کے جذبے نے انھیں بخل کا حکم دیا تو وہ بخل کرنے لگے، اس نے انھیں ظلم و زیادتی کا حکم دیا تو یہ ظلم و ستم ڈھانے لگے ۔ اس نے انھیں قطع رحمی کا حکم دیا تو وہ قطع رحمی کرنے لگے ” ۔ (متفق علیہ)

ویسے بھی احسان کا بدلہ احسان سے دینا برابری کا معاملہ اور مکافات عمل ہے جبکہ صلہ رحمی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے رشتہ دار پر بدلے کی خواہش و انتظار کے بغیر احسان کرے۔
پیاے اللہ کریم کے پیارے حبیب اور ہمارے پیارے آقا کریم رحمت اللعالمین خاتم النبیین شفیع المذنبین سردار الانبیاء ابوالقاسم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
“صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں برابری کر لے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ رشتہ دار اس قطع تعلقی کریں اور وہ ان سے اپنا رشتہ جوڑ رکھے ” ۔ ( صحیح بخاری ) ۔

ایک آدمی ہمارے پیارے آقا کریم رحمت اللعالمین خاتم النبیین شفیع المذنبین سردار الانبیاء ابوالقاسم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ھوا اور اس نے عرض کیا:
“میرے رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں ان سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتا ھوں مگر وہ مجھ سے قطع تعلقی کا رویہ اپناتے ہیں ، میں ان پر نیکی و احسان کرنے کی راہ اپناتا ھوں ، مگر وہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں ۔ میں حلم و بردباری سے کام لیتا ھوں مگر وہ مجھ پر زیادتی کرتے ہیں۔ پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تو ایسے ہی ہے جیسے تو بتا رہا ہے تو انھیں انگاروں پر لوٹا رہا ہے اور جب تک تم اپنی اسی روش پر قائم رھو گے ۔ اللہ کی طرف سے تمھارے لۓ ایک مدد گار مقرر رہے گا “۔ ( صحیح مسلم ) ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو بسم اللہ کیجئے صلہ رحمی اختیار کیجئے۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply