جھیوہ ملیاری۔۔۔۔محمد خان چوہدری

اس کا اصل نام شاید رضیہ تھا۔
وہ منظر عام پر جب آئی  تو جھیو کے نام سے متعارف ہوئی۔
اپنی ماں کے ساتھ، سبزی منڈی سے ملحقہ ایک کمپاؤنڈ میں وہ سبزی
کی کھاری لگاتی تھی، اپنے گاؤں سے وہ ٹوکری یا کھاری میں اپنے کھُوہ کی سبزی سر پہ اٹھا کے لاتی اور دوسری عورتوں کی طرح زمین پہ  بیٹھ کے بیچتی، چند ہی دنوں میں اس کے حسن کے چرچے منڈی سے نکل کے ہر طرف پھیل گۓ،وہ تھی بھی شعلہ جوالا۔۔
گلستان ملیار بھی روز گڈے پہ سبزی لا کے منڈی میں بولی پہ  بیچتا تھا
ایک دن دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو دونوں ایک دوسرے پر مر مٹے،
بات منڈی کی ملاقاتوں سے ہوتی ہوئی ،جھیو کے گلستان کے ساتھ بھاگنے  پہ آ کے رکی، دونوں ایک ہی ذات اور پیشے کے تھے لیکن دونوں کے گھر والے ان کی باقاعدہ شادی پر تیار نہیں  تھے ،
پچاس پچپن سال پہلے، چکوال میں ریلوے لائن کے قطب میں کھیت ہی ہوتے تھے،جن میں کچھ کھُوہ تھے، عام طور ہر ایک کے ساتھ ایک کچا کوٹھا ہوتا،کچھ کے ساتھ چھوٹےڈیرے تھے ، دو بڑے ڈیرے تھے۔۔
ایک ہمارے نانا کا، جہاں حویلی کے باہر وار پکی بیٹھک تھی،جس میں اکثر لوگ جو کسی وجہ سے اپنے گاؤں واپس نہ جا پاتے رات بسر کرتے،اس کے نزدیک دوسرا ڈیرہ دادا کا تھا، جس کے ملحق کچی بیٹھک تھی۔جس میں عام طور پر ہل اور پنجالیاں وغیرہ پڑی ہوتیں
نوکر سوتے اور درجن بھر چارپائیاں رات کو رکھ دی جاتیں۔
جو دن کو کھُوہ کے قریب لگے درختوں کے جھنڈ کے نیچے بچھائی  جاتیں ۔اکثر دادا شہر کے شمالی گاؤں اور ارد گرد کے لوگوں کے جھگڑے نپٹانے کے لئے پنچائیت کرتے۔
ان ڈیروں سے تھوڑی دور غربی جانب پلانٹ کی ریلوے لائن کے پار تایا کا کھُوہ بھی تھا، جس پہ  وہی گلستان ملیار مزارع اور اس کی ماں رہتے تھے۔
اس کھُوہ پہ اچانک گلستان ، رضیہ عرف جھیو لے آیا۔۔
افواہ یہ پھیل گئی  کہ وہ اسے بھگا کے لایا ہے ، افواہ کی جڑ  گلستان کی ماں اور بہن ٹھہریں ، جن سے پاس پڑوس کی عورتوں سے ہوتی مردوں تک پہنچ گئی، اور مرد کب دوسرے مرد کے ساتھ عورت برداشت کرتا ہے سو گرد و نواح کے لوگوں کی شکایت پر معاملہ دادا کی پنچائیت میں پہنچ گیا۔
ہمارے نانا، دادا، اور دو دیگر معتبر بزرگوں پر مشتمل پنچایت تھی،
شکایت کرنے والوں کا مقدمہ یہ تھا، کہ نہ کوئی  بارات، نہ نکاح اور نہ دعوت ولیمہ ہوا اور گلستان اور جھیو میاں بیوی بن کے رہ رہے ہیں۔
دن میں کئی  اور مردوں کا بھی آنا جانا ہوتا ہے،جن کے نام بھی بتائے گئے۔
کافی سوال جواب ہوئے، آخر گلستان کی جواب طلبی ہوئی،
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، جھیو بول پڑی۔۔
اس نے کہا کہ یہ جو کہہ رہے ہیں، غلط ہے۔
میرے اغوا ہونے کا خطرہ تھا، گلستان کے مرحوم دادا کی میرے مرحوم باپ کے ساتھ پگ بدلی دوستی تھی، اس وجہ سے میں بھاگ کر اس کے ڈیرے پہ  آگئی  ہوں، یہ جو ہمارے زوجیت کرنے کا الزام لگا رہے ہیں،ان کے پاس ثبوت ہے، تو دکھائیں، بتائیں کس نے ہمیں ایسی حالت میں دیکھا۔۔۔؟
پنچایت میں سکتہ طاری ہو گیا۔
کسی بھی میاں بیوی یا عورت اور مرد کی ہم بستری کا ثبوت کوئی  کہاں سے اور کیسے دے سکتا ہے۔
لیکن پنچایت نے بھی تو فیصلہ کر کے کیس نپٹانا تھا،اور دادا تو زیرک ترین سرپنچ مشہور تھے۔
انہوں نے فرمایا، کہ گلستان اور جھیو دونوں غیر شادی شدہ ہیں تو، ابھی،یہ ایک دوسرے کو بہن بھائی  تسلیم کریں، گلستان جھیو کے سر پر ہاتھ پھیر کے سب کے سامنے کلمہ پڑھ کے کہے کہ یہ اس کی بہن ہے،کافی دیر سب خاموش رہے تو دادا نے حتمی حُکم جاری کر دیا،کہ شام کو سب لوگوں کی اسی ڈیرے پر دعوت ہو گی ، جھیو اور گلستان کا نکاح ہو گا۔۔۔شام کو مولوی سمیت سب جمع تھے، نکاح پڑھایا گیا، جھیو کو باقاعدہ دلہن بنا کے ، سب نے تحفے دیئے اور دادا کے ڈیرے سے رخصتی کی گئی۔
اسے ڈولی میں بٹھا کے تایا والے ڈیرے پر پہنچایا گیا۔۔
انصاف کرنے والے کی نیت ٹھیک ہو تو مشکل ترین پیچیدہ مقدمے کا حل مل جاتا ہے۔۔ کی سمجھے او۔۔؟
اب جھیؤ نے اپنا آپ دکھانا شروع کیا۔
گلستان ہماری زمین سے ملحقہ ہمارے انکل کے کھُوہ پے مزارع تھا، جھیو دلہن بن کے اسی کھُوہ کے دو کمروں کے بغیر چہاردیواری کے مکان پہ  اتری اورتھوڑے ہی دنوں میں گلستان کی ماں اور بہن کو اس نے چلتا کیا۔
اب گلستان صبح سبزی لے کے منڈی میں آڑھت پہ  بیچ کے دن بھر گڈے پہ ریت یا اینٹوں کی ڈھوائی  کرتا اور شام کو واپس آتا۔
جھیو نے کھُوہ کا سارا کام اور ڈنگر سنبھال لۓ،
ہم اپنی زمین پہ حل وغیرہ کا کام کرنے روز جاتے اور ہم نے دیکھا کہ گلستان کے جانے کے بعد نواز دودھ لینے آتا، تو وہ بھی بن سنور کے آتا۔۔
پھر بھٹے کے  منشی صاحب آتے وہ بھی بوسکی کا کرتا اور لٹھے کی شلوار
میں لشکتے ہوۓ آتے، کبھی کبھار ہمارے انکل بھی چکر لگاتے
جھیو کی سب سے بڑی خوبی اس کا ذوق گفتگو تھا۔
جس میں وہ ایسی گالیوں کا استعمال کرتی جو عام مردوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں  آ سکتی تھیں، وہ مرد اور عورت کے اعضاء رئیسہ کے نام اتنی فراوانی سے بولتی کہ عقل دنگ رہ جاتی۔۔
پھر ایک دن ہم اپنی زمین پہ  حل چلانے گۓ اور کھانے کا بھتہ ہم نے درخت پہ  لٹکایا تو سالن گر گیا،خیر ہم حل چلاتے رہے  اور جب بھوک لگی تو ہم نے انکل کے کھُوہ پہ  لگے چند ٹماٹر توڑے کہ ان کو ترکاری کے طور پہ کھا لیں گے۔۔
اور جھیو نے ہمیں دیکھ لیا،اس نے دور سے ہی ہمیں انتہائی ثقیل گالیوں سے نوازتے ہوئے مخاطب کیا، ہم بہت جز بز ہوۓ اور ٹماٹر پھینک کے واپس آ گۓ اور شام کو انکل سے جھیو کی شکایت کی
انہوں نے سن کے فرمایا،” تم کون سے اس زمین کے حصہ دار ہو”
جھیو نے جو کیا ٹھیک کیا،
اس وقت تو ہم سمجھ نہ پاۓ کہ کم سنی کا زمانہ تھا۔۔
لیکن اب جب ہم سوشل میڈیا پہ  ہیں تو ہماری الجھن دور ہو گئی ہے کہ اس وقت کی سوشل لائف میں ہمارے انکل نے ایک فحش گفتگو کرنے والی عورت کو ہم پہ  فوقیت کیوں دی۔۔
بالکل اسی طرح جیسے ہمارے دوست کسی بھی مرد کی جنسی کہانی کو اہمیت نہیں  دیتے ، معترض ہوتے ہیں۔۔
اور کسی بھی خاتون کی تحریر جس میں صرف لفظ سیکس لکھا ہو، اس پہ  داد کی بارش کر دیتے ہیں۔ عورت بھلے مظلوم بنی رہے لیکن ڈنگ ناگن سا مارتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply