• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حضرت علی و حضرت عمر: اختلافِ رائے کے باوجود باہمی احترام کے بہترین نمونے۔مفتی امجد عباس

حضرت علی و حضرت عمر: اختلافِ رائے کے باوجود باہمی احترام کے بہترین نمونے۔مفتی امجد عباس

حضرت ابوبکر نے آخری وقت میں اپنا جانشین (حاکم) حضرت عمر کو قرار دیا، اگرچہ بنو ہاشم اور اُن کے ہم نوا صحابہ کرام حکومت کو اہلِ بیت کا حق سمجھتے تھے، اُن کی نظروں میں اِس کے موزوں ترین امید وار حضرت علی تھے، لیکن حضرت عمر کے حاکم بن جانے کے بعد اُنھوں نے حکومت کے خلاف کسی قسم کی تحریک برپا نہ کی۔ حضرت علی حکمرانوں کے مقابل خود کو امارت کا زیادہ اہل سمجھتے تھے (آپ نے تین ادوار میں کوئی حکومتی عہدہ قبول نہ کیا) لیکن تینوں حکمرانوں سے اُن کا تعلق باہمی احترام کا رہا۔ جہاں تک حضرت عمر کا تعلق ہے تو وہ خانوادہِ رسالت کا ذاتی طور پر بہت احترام کیا کرتے تھے۔ (فدک اور بیعت جیسے امور میں حضرت ابوبکر و حضرت عمر نے عبوری قسم کے فیصلے کیے جن سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا، میں یہاں اہلِ بیت کے موقف کو درست سمجھتا ہوں)

مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ سبھی اہم اُمور میں حضرت عمر، صحابہ کرام ، خاص کر حضرت علی سے مشورہ لیتے، بسا اوقات اپنی رائے سے دستبردار بھی ہوجاتے۔ اہلِ سنت کے ساتھ اہلِ تشیع مؤرخین نے بھی نقل کیا ہے کہ حضرت عمر کہا کرتے تھے اگر علی نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوجاتا۔ ایسی آزمائش سے پناہ مانگتے جس میں حضرت علی اُن کے ساتھ نہ ہوں۔ حضرت علی نے بھی مختلف مشکلات میں حکومت کے ساتھ تعاون کیا۔ اہلِ فارس سے جنگ کے موقع پر حضرت عمر خود لشکر کے ساتھ جانا چاہ رہے تھے لیکن حضرت علی نے اُنھیں دار الحکومت چھوڑنے سے منع کیا اور تجویز دی کہ آپ میدانِ جنگ میں نہ جائیں۔ شیعہ و سُنی کتب میں بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ حضرت عمر کو حضرت علی نے مشورے دیئے اور اُنھوں نے وہ قبول بھی کیے۔

جہاں تک اندازِ حکمرانی کی بات ہے تو حضرت عمر انتہائی سادہ طبیعت کے، درویش صفت آدمی تھے، اُنھوں نے عمدہ طریقے سے عدل و انصاف کا نظام برقرار رکھا۔ اپنے خاندان کو حکومت میں شامل نہ کیا۔ اپنے گورنروں کا سخت احتساب کیا۔ حضرت ابوہریرہ جیسے صحابی کو گورنری سے ہٹا لیا۔ حضرت علی کے خاص ساتھی حضرت سلمان فارسی کو گورنر بنایا۔ آپ کے دور میں چند امور سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے جیسے عربی و عجمی میں امتیاز کرنا، وظائف میں بدری و غیر بدری صحابی میں فرق کرنا، جناب معاویہ کے شاہانہ انداز کو دیکھ کر ہنسی میں ٹال دینا کہ یہ قیصر و کسریٰ کی روش پر ہے۔

حضرت عمر جانتے تھے کہ اگر حضرت علی کو حاکم بنایا گیا تو وہ نظامِ حکومت بہترین چلائیں گے لیکن وہ حضرت علی کے مخالفین کے نظریے سے بھی آگاہ تھے، مجھے مفتی محمد فاروق علوی صاحب نے ایک روایت سنائی کہ حضرت عمر نے آخری وقت میں کہا کہ حکومت کے سب سے زیادہ اہل علی ہیں لیکن میں جانتا ہوں بعض لوگ اُنھیں ناپسند کرتے ہیں، اگر علی کو حکومت دی گئی تو وہ اُن سے ضرور لڑیں گے۔۔۔

یہاں ایک اور خوبی کا تذکرہ لازمی ہے کہ حضرت عمر نے، لوگوں کے مشورہ دینے کے باوجود اپنے بیٹوں کو اقتدار منتقل نہ کیا۔ آخری وقت میں بھی ایک مختصر سی شورائی کمیٹی بنائی جس میں حضرت علی، حضرت عثمان اور دیگر چند صحابہ شریک تھے۔ حضرت عمر کو اگرچہ حضرت ابوبکر نے خلیفہ نامزد کیا لیکن حضرت عمر نے اپنی بار یہ روش نہ اپنائی، بلکہ کسی حد تک مسلمانوں کا معاملہ اُن پر چھوڑ دیا۔ ہاں یہ الگ بات کہ کمیٹی میں سب سے زیادہ کردار حضرت عبد الرحمان بن عوف کو دیا گیا، جنہوں نے حضرت علی اور حضرت عثمان سے پوچھا کہ تُمہیں اقتدار ملے تو قرآن و سنت اور پہلے دو حکمرانوں کی سیرت پر چلو گے؟ حضرت عثمان نے حامی بھری لیکن حضرت علی نے قرآن و سنت کے متعلق فرمایا کہ میں اُن کا بہترین جاننے والا ہوں لیکن پہلے دو حکمرانوں کی سیرت پر عمل نہ کروں گا۔ میں از خود فیصلے کروں گا۔ یوں حضرت عثمان کے حق میں فیصلہ ہوگیا۔

اسلام کے ابتدائی دور میں صحابہ کرام میں اختلافات موجود تھے لیکن باہمی احترام کا رشتہ موجود رہا، حجرت عثمان کے عہد میں پہلی بار صحابہ کرام باہم دست و گریباں ہوئے پھر یہ سلسلہ امتِ مسلمہ میں جاری و ساری ہوگیا۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں عہدِ اولین کے صحابہ کرام کی طرح اختلافات کے باوجود باہمی احترام کے ساتھ پُر امن رہنے کی توفیق دے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مفتی امجد عباس فقہ جعفریہ کے عالم اور اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”حضرت علی و حضرت عمر: اختلافِ رائے کے باوجود باہمی احترام کے بہترین نمونے۔مفتی امجد عباس

  1. مفتی امجد عباس صاحب کی یہ ایک بہترین کاوش ہے۔ اہل تسنن میں تو شیعہ آیٔمہ کے بارے میں کسی حد تک لٹریچر مل جاۓگا لیکن شیعہ طرف سے صحابہ کرام پر لٹریچر بہت کم مقدار میں میسر ہے۔ کوییٔ شیعہ بھی تکفیر صحابہ کرام رض کا قایل نہی ہے اور تمام صحابہ کرام کو بالاتفاق مسلمان مانتے ہیں اور کلھم مخالف بھی نہیں ہیں کچھ اختلافات کے قایل ہیں۔ اوصاف صحابہ کو بھی مانتے ہیں، ان کے اولین مسلمین کی فضیلت کے بھی قایل ہیں، احترام صحابہ کرام کو بھی مانتے ہیں لیکن اس موضوع پر ادب کم ہی ملتا ہے۔ جس طرح شیعہ آیٔمہ میں سے امام تقی، امام نقی، امام حسن عسکری، امام موسی کاظم پر اہل سنت کے ہاں لٹریچر کی کمی ہے۔ اگر مفتی امجد عباس کی طرح دیگر علما تشیع بھی اس موضوع پر لکھیں تو اہل تسنن کی طرف سے یہ اعتراض ختم ہو سکتا ہے۔

  2. مفتی امجد صاحب ایک دقیق محقق اور صاحب علم فضل آدمی ہیں۔۔ صحیح معنوں میں جہاں علم ہوتا ہے وہاں حلم ہوتا ہے کی تفسیر بھی ہیں۔۔اسلام آباد مٰں ان سے کئی ایک محفلیں ہوئیں اور سیکھنے کا موقع ملا۔۔آپ اتحاد بین المسلمین کے زبردست داعی ہیں۔امید ہے مکالمہ کے لیے پر مغز اور تحقیقی نگارشات ارسال کرتے رہیں گے

Leave a Reply to علی اصغر عمران Cancel reply