عورت کی بیچارگی پر بہت کچھ لکھا گیا، بہت بل پاس ہوئے بہت سی این جی اوز کام کر رہی ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ عورت آج بھی وہیں ہیں جہاں اس کو صرف مسکرانے سے بھی پہلے سوچنا پڑتا ہے کہ لوگ اسےغلط نہ سمجھیں۔ ایسے میں اکیلی عورت کا نہ صرف ہمارے معاشرے میں بلکہ تمام دنیا میں زندگی کو نارمل انداز میں گزارنا ایک مشکل ترین امر ہے۔ قطع نظر اس بحث کے کہ قصوروار مرد ہے یا عورت، خود عورت آج تک اپنی حیثیت کو پہچاننے سے قاصر نظر آتی ہے اور مرد کی حکمرانی کو اپنے لیے ایک تمغہ حسن کارکردگی سمجھتی ہے۔
عورت مشرق کی ہو یا مغرب کی، تنہائی پسند ہو یا سوشل، اس کے سینے پر مرد کا تمغہ نہ سجا ہو تو اسے ادھورا سمجھا جاتا ہے۔ ایک دور تھا جب میں بھی عورت کے اکیلے پن کو مذاق کا نشانہ بنانے والوں میں شامل تھی۔ وجہ یہ تھی کہ اسلامیات کی ٹیچر مجھے نصاب پڑھانے پر بضد تھیں اور میں خدا کی تلاش میں تھی۔۔۔ تو ان سے ناپسندیدگی کا ایک رشتہ قائم ہو گیا۔ ایسے میں خبر ملی کہ انھوں نے شادی نہیں کی تو ان کے مزاج کی سختی کو ان کے غیر شادی شدہ ہونے سے تشبیہ دے کر اپنی جھوٹی انا کی تسکین کرتے ہوئے ہم یکسر بھلا دیتے تھے کہ ہمیں بھی عورت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ شاید مجھے زندگی کے نصف حصے میں یہ خیال آیا ہی نہیں کہ میں بھی ایک عورت ہوں ۔
کہتے ہیں کہ وقت سب بڑا استاد ہوتا ہے اور حادثے آپ کو زندگی کے عملی حقائق سکھاتے ہیں۔ پریکٹیکل لائف میں آنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ عورت برقعے میں ہو یا سلیولیس میں، فرق تب پڑتا ہے جب وہ اکیلی ہو۔ گھر سے باہر نکلنے کے بعد درندوں کے ایک ہجوم سے اس کا واسطہ پڑتا ہے جس کو پار کر کے اسے اپنی منزل تک پہنچنا ہوتا ہے۔ ایسے میں اکیلی عورت کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں، یا تو وہ مرد کا روپ دھار لے یا مکمل عورت۔ عورت اگر مرد بن کے زندگی گزارے تو درندوں کی تعداد کافی حد تک کم تو ہو جاتی ہے تاہم کچھ بھیڑئے پھر بھی تاک میں رہتے ہیں کہ حملہ کب کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ ایسے بھیڑیوں سے مقابلہ کرتے کرتے عورت کی اپنی شخصیت تو مسخ ہوجاتی ہےلیکن اسے اپنا دفاع کرنا ضرور آجاتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل ایک دوست کو طلاق ہو گئی تو مجھے یہ پتہ چلا کہ عورت خواہ کسی بھی عمر کی ہو، وہ مرد کے بغیر تیار ہو کر باہر نکلے گی تو انگلیاں اٹھیں گی اور انگلیاں اٹھانے والوں کی پہلی قطار میں اس کے اپنے ہی رشتہ دار ہوں گے اور بدقسمتی سے ان میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہی ہوگی۔ بہرحال اکیلی عورت کا ہمارے معاشرے میں رہنا سماج کے لیے قطعی قابل برداشت نہیں۔ اس کی وجوہات کچھ بھی بیان کر لی جائیں لیکن یہ معاشرہ آپ نے اور میں نے مل کر بنایا ہے، اس لیے ان وجوہات کے ذمہ دار بھی کوئی اور نہیں، میں اور آپ ہی ہیں۔
ہر انسان اس دنیا میں اکیلا آیا اور واپسی کا سفر بھی اسے اکیلے ہی طے کرنا ہے ۔ یہ رشتے زندگی میں خوبصورتی اور محبتوں کے فروغ کے لئے ہیں۔ یہ کسی کا ذاتی عمل ہے یا حادثاتی، اکیلی عورت کی زندگی کو مشکل بنانے والوں کے لیے ایک ہی پیغام ہے اور وہ یہ کہ عورت ماں ہو، بیٹی ہو، بیوی ہو یا بہن، زندگی کے کسی نہ کسی دور میں وہ اکیلی ہو ہی جاتی ہے۔ اگر میں اور آپ عورت کو انسانیت کے درجے پر رکھ کے دیکھیں گے تو وہ مظلوم نظر آئے گی۔ قسم قسم کے لیبل لگنے کے باوجود بھی عورت زندگی کے وہ راز جانتی ہے جن تک مرد کی رسائی ممکن نہیں۔
آج ہم لبرل کہلوانا تو پسند کرتے ہیں لیکن اکیلی عورت کے لیے سماجی قوانین غریب عوام سے بھی زیادہ ہیں اور سزائیں قتل کے مجرم سے بھی بڑھ کر ۔ یہ معاشرہ صرف مرد کا بنایا ہوا نہیں، عورتیں بھی اس میں حصہ دار ہیں، اس لئے یہ الزام پوری انسانیت پر ہے کہ اس نے اکیلی عورت کو سکون سے جینے کا حق نہیں دیا۔ اس داغ کو اپنے ماتھے سے دھونا میری اور آپ کی، ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
Facebook Comments
Just a very brilliant write . Dear Ayesha keep writing
Very true.. keep it up 🙂