گندے فوٹوز، گندی ویڈیوز اور ہم۔۔۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

بہت سے لوگوں کی ایسی ویسی یعنی سر سے پاؤں تک چومنے چاٹنے کی ویڈیوز لیک ہوئی ہیں۔ کیوں نہ اس موضوع کا تجزیہ کر لیا جائے۔ افراد ایک دوسرے کو اپنی ننگی تصاویر اور ویڈیوز کیوں بھیجتے ہیں؟ ۔۔۔یا موبائل پہ شہوت انگیز و جنسی گفتگو کیوں کرتے ہیں؟ اگر دو افراد (مختلف جنس یا ہم جنس) ایک دوسرے کے ساتھ کسی اعلانیہ/غیراعلانیہ بندھن میں بندھے ہیں تو اپنی ‘گندی فوٹو، ویڈیو اور میسج’ بھیجتے رہتے ہیں۔ یہ ہمارے اردگرد میں عمومی ٹیبو بن چکا ہے۔ جبکہ وہ افراد جو بندھن کی بجائے ایک دو بار ملاقات/ڈیٹ کرنا چاہتے ہیں وہ بھی مسلسل ایسی چیزوں کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں۔ میرے مشاہدے میں جن کے والدین نے اُن کو بچپن میں خاصا پیمپر (بہت زیادہ توجہ دینا) کیا ہوتا ہے وہ ایسی چیزیں شیئر کرنے میں جلدی کرتے ہیں کیونکہ اُنہیں ابتدا میں ریلیشن شپ پہ اعتماد ہوتا ہے لیکن یہ ایک غیرسائنسی تجزیہ ہے۔

میرا ایک دوسرا تجزیہ بھی ہے کہ ایسے معاملات کرنے والوں کی تعداد میں جنسی تفریق نہیں ہے۔ تمام انسانی جنسوں کے لوگ یہ کام کرتے ہیں۔ جس کا رفیق جتنا شہوت پرست ہوگا اُن کے درمیان ایسے مواد کا تبادلہ بھی اتنی ہی مقدار میں ہو گا۔ جس فرد کا اپنے رفیق پہ جتنا اعتماد ہو گا، یا وہ جتنی شدت سے ایک دوسرے سے منسلک/متعارف ہوں گے ایسے مواد کے تبادلے کے امکانات بھی زیادہ ہوں گے۔ جبکہ ایک دو بار کی ملاقات پہ یقین کرنے والے چہرہ اور تصویر کا بیک گراؤنڈ چھپا کر اپنے جسم اور جسمانی اعضاء کی نمائش کرتے ہیں کیونکہ اُن کو معلوم ہوتا ہے کہ اگلا فرد بھی کوئی نکاح کے موڈ میں نہیں ہے بلکہ ایسے مواد سمیت چند دیگر امور کی وجہ سے ہی متوجہ ہو سکتا ہے۔ کچھ احباب کا یہ کہنا ہے وہ لوگ جو اپنے رفیق کی دلجوئی، جنسی اطمینان، شہوانی تسکین کو تعلق کی دیگر نوعیتوں کی طرح اہمیت دیتے ہیں وہ بھی ایسے مواد کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں۔

لیکن جب تعلق ختم ہوا تو غصے یا انتقام کی آگ میں جل جل کر کچھ افراد نے ایسا مواد سرعام کر دیا۔ کچھ لوگوں کا ایسا مواد غلطی سے سرعام ہو گیا۔ کچھ کا مواد چوری ہو کر عام ہو گیا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اُن لوگوں نے اپنی بےپناہ بےعزتی سمجھا اور کئی افراد نے تو خودکشی بھی کر لی۔ لیکن آخر معاملہ کیا ہے؟

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اِس معاملے پہ قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ایسے مواد کے تبادلے پہ یکسر پابندی ہونی چاہیے۔ جو کوئی اپنا ایسا مواد کسی کو بھیجے تو اُس کو مجرم کہا جائے۔ لیکن معترضین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا ناممکن ہے۔ یہ ایک خیالی اور ناقابل عمل رائے ہے ۔ بنیادی طور پہ مسئلے کا یہ حل سست بینی اور کاہلی کا نتیجہ ہے۔ ایسے معاشرے جہاں مرد اور عورت کا آپس میں بات/رابطہ کرنا بھی جرم سمجھا جاتا ہے، حتی کہ وہاں اِن بنیادوں پر قتل ہو جاتے ہیں وہاں بھی مرد اور عورت ایک دوسرے سے متعلق/متعارف ہوتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی محبت پہ پابندی نہیں لگائی جا سکتی ہے۔ مرد اور مرد سے جنسی تعلق داری ہمارے سماج میں جرم ہے، لیکن کون سا ایسا طبقہ یا شعبہ ہائے زندگی ہے جہاں ہم جنس مرد نہ پائے جاتے ہوں۔ سوشل میڈیا پہ بھی ایسی خواتین موجود ہیں جو خود کو ہم جنس پرست کہتی ہیں۔ لہذا ہمارے ہاں ہم جنس پرستی جرم ہونے کے باوجود جاری و ساری ہے۔ کسی معاملے کو جرم قرار دیکر اُس کی روک تھام کو ممکن سمجھنا بھی ‘جرم’ ہونا چاہیے۔ جیسے عشق بازی و ہم جنس پرستی کو جرم قرار دیکر اُس کی روک تھام کی خواہش ایک مذاق ہے ویسے ہی ‘عشق باز’ لوگوں پہ ایسے مواد کے تبادلے کی پابندی عائد کرنا بھی مذاق ہو گا۔

اس کا ایک حل یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ اِس معاملے کی taboo والی حیثیت کو ختم کر دیا جائے۔ جب عشق بازوں کی غالب اکثریت زندگی میں کم و بیش ایسے مواد کا تبادلہ کرتی ہے تو اِس معاملے کو عمومی اور غیرشدتی نگاہ سے دیکھا جائے۔ جیسے ایک مرد یا عورت کے اپنے جنسی اعضاء ہوتے ہیں ویسے ہی باقی مردوں یا عورتوں کے جنسی اعضاء ہوتے ہیں، کچھ بظاہر فرق ہوتے ہیں اور انسانوں کی اکثر تعداد جنسی اعضاء کے فرق کو سمجھتی ہے، مشاہدہ بھی کرتی ہے اور جانکاری بھی ہے تب اگر کسی کی ایسا مواد سامنے آ گیا ہے تو اِس کو کوئی بڑا مسئلہ نہ سمجھا جائے۔ مثلاً اِس کو ایسے سمجھا جائے جیسے آندھی چلی، ایک بندہ دھوتی باندھ کر کہیں جا رہا تھا، تیز ہوا سے اُس کی دھوتی بیچ چوراہے میں اڑ کر کہیں جا گری، وہاں گزرتے مرد عورتوں نے اُس کو بغیر دھوتی کے دیکھ لیا۔ یہاں بھی ایسے ہی لیا جائے۔ اگر کسی فرد کی ننگی تصویر منظرعام پہ آ جائے تو کیا ہو جاتا ہے۔ جیسے تمام افراد کے ننگے جسم ہوتے ہیں ویسے ہی اُس فرد کا ننگا جسم ہو گا اُس فوٹو میں، لہذا اِس معاملے کو taboo کے رتبے سے اتار کر عمومی بات کہا جائے۔ کہتے ہیں کہ نیوڈذ کے عام ہو جانے کو بڑا یا برا امر نہ کہا جائے اور اُس فرد کی اہانت/بےعزتی نہ کی جائے تو لاکھوں لوگ بلیک میلنگ کی اذیت سے بچ کر نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ لوگ جنہوں نے خودکشی تو نہ کی مگر زندہ درگور ہو گئے، اُن کی بھی بچت ہو سکتی ہے۔ ایک انتشار کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

بہت سے افراد جو بستر پر، کمرے میں، باغ میں غرض یہ کہیں بھی جنسی و شہوانی اموار کر رہے تھے تو اُس کی ویڈیو بن گئی۔ اُس ویڈیو کو بنانے والے وہ خود بھی ہو سکتے ہیں، اُن میں سے کوئی ایک بھی ہو سکتا ہے یا اُن کی چوری ویڈیو بنائی جا سکتی ہے۔ نیوڈ شئیر کرنے کی نسبت جنسی عمل کی ویڈیو بنانا یا لیک کرنا  ذرا مختلف اور حساس موضوع ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو exhibitionist کہا جاتا ہے۔ وہ خود مباشرت کی ویڈیو بنا کر دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے عمل میں لطف اندوز ہوئے اور خوش ہوئے تو ہم نے دنیا کو بتایا ہے جیسے ہم اپنی برتھ ڈے پارٹی یا اپنی شادی کی تصاویر یا کہیں کھانے کی دعوت کی تصاویر عام کرتے ہیں۔ میری ایک ایسے ہی بندے سے بات چیت ہوئی تو اُس نے مجھ سے پوچھا کیا آپ سیکس نہیں کرتے۔ کیا آپ کم و بیش وہی کام نہیں کرتے جو ہم اپنی تصویر میں کر رہے ہیں تو ہم آپ کو ایسی کونسی جارح تصویر دکھا دیتے ہیں کہ آپ ہمارے اوپر معترض ہیں، آپ سیکس چھپا کر کریں ہمیں اعتراض نہیں ہے، ہم سیکس چھپانا ضروری نہیں  سمجھتے تو آپ بھی اعتراض نہ کریں۔ ایسے لوگوں کا کہنا ہے کہ ننگا انسان ہی حقیقی انسان ہوتا ہے۔ جبکہ اُن کی رائے میں سیکس کوئی ایسا غیرا نسانی عمل نہیں ہے کہ اُس پہ شرمندگی محسوس کرتے ہوئے چھپایا جائے۔ جبکہ غالب اکثریت ایسے افراد ہیں جو اِس عمل کو نہ صرف برا بلکہ قابل گرفت سمجھتے ہیں۔ اُن کی نظر میں اُن کے ننگے لمحات کو کوئی نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی اپنے ننگے لمحات کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ سیکس ایک انتہائی متشدد اور شہوت انگیز موضوع ہے لہذا اُس کی نمائش سماج میں انتشار اور بےچینی کا سبب بنتی ہے۔

ایک دوسرے دوست جو چین کے رہائشی ہیں سے اِس موضوع پر بات ہوئی تو اُس کاکہنا تھا کہ دنیا کو کسی کے سیکس کرنے یا اُس کی دانستہ و غیردانستہ نمائش پہ غصہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اُس کا کہنا تھا کہ ہمارے اردگرد بہت سے لوگ دوسروں کی جنسی زندگی بارے جاننے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن اگر کسی کی جنسی زندگی کی کسی بھی طرح نمائش ہو جائے تو غصہ بھی یہی لوگ کرتے ہیں۔ اسی طرح شورکوٹ کے ایک ہم جنس پرست مرد نے مجھے کہا کہ ساری دنیا خود سیکس کرتی ہے لیکن اگر کسی کی نمائش ہو جائے تو اُس کو جینے نہیں دیتے۔ جبکہ ہماری مسجد کے امام صاحب کا کہنا ہے کہ کسی نامحرم کا دوسرے نامحرم سے ننگا مواد شیئر کرنا اللہ کی نظر میں نہ صرف جرم ہے بلکہ قابل گرفت ہے۔

یورپ میں مقیم ایک فرد نے بتایا کہ یہاں سرعام  بوس و کنار کرنا  یا مزید کچھ شہوت انگیز امور سرانجام دینا نارمل کام ہے لیکن مکمل ننگا ہونا یا سرعام شدید شہوانی امور سرانجام دینا جرم ہے۔ اُس کے مطابق غالب یورپ میں شوبز، فنون لطیفہ اور فوٹو گرافی میں عریانی قانونی کام ہے۔ اُس کے مطابق یہ یورپی اشرافیہ کی منافقت ہے کہ ایک پیسے والا امیر مالک اپنے ادارے میں ننگی تصاویر اور فلموں کا کاروبار قانونی طور پر کر سکتا ہے مگر دو افراد وہی کام آزادانہ طور پر نہیں کر سکتے۔ اُس کا موقف ہے کہ حکومت کو سرعام سیکس کرنے پہ اعتراض ہے تو پورن کی تیاری پہ پابندی کیوں نہیں ہے۔
یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کی ایک خاتون استاد کا کہنا ہے کہ آج لوگ تصاویر بنانے، اُن کو اپنے پاس رکھنے، اُن کا تبادلہ کرنے کی طرف مائل پائے جاتے ہیں۔ ہمارا ذاتی عمومی، نیم عریاں و عریاں مواد کہیں بھی کسی بھی طرح عام ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اُن کے موبائل کا ڈیٹا مکمل طور پہ محفوظ ہے تو اِسے خام خیالی کہا جائے۔ ہم جس پہ مضبوط اعتماد کرتے ہیں کل کلاں وہ ہی ہمارا مخالف ہو سکتا ہے۔ ان حالات میں سوائے پریشان ہونے اور دعا کرنے کے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک دوسرے دوست کا کہنا ہے کہ ہم اس مسئلے کا کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ہمیں بس مکمل احتیاط کرنی چاہیے۔ فوٹو بھیج کر پیش آنی والی تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنے سے بچا جا سکتا ہے۔ اُس نے بتایا کہ میں نے اپنی خاتون باس کو کبھی کوئی گندی فوٹو یا ویڈیو نہیں بھیجی مگر وہ میرا دو سال سے جنسی استحصال کر رہی ہے، میں اپنے بچوں کے اخراجات کی کمیابی کے خوف سے اُس کی منشاء پوری کر رہا ہوں ورنہ وہ مجھے نوکری سے نکال دے گی۔ اُس کا کہنا تھا کہ میں شادی شدہ اور اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ایک طاقتور عورت کے ہاتھوں مجبور ہوں، تم یہاں کی عورت کی حالت کا اندازہ لگا لو۔ اُس دوست کے مطابق بلیک میل ہونے والی عورتوں کی اکثریت نے اپنے استعمال کنندہ کو کبھی کوئی ایسا مواد سرے سے شیئر ہی نہیں کیا ہوتا مگر پھر بھی وہ دیگر مجبوریوں کے تحت بلیک میل ہوتی رہتی ہیں۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply