راج نیتی کہاں سے سیکھیں ۔۔روف کلاسرا

حکمران حیران ہیں‘ اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ وہ بحرانوں میں گھر گئے ہیں۔ مہنگائی، ڈالر کی اڑان اور بھاری ٹیکسوں نے عوام کا سارا نشہ اتار دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سب دشمن جنہیں عمران خان نے شکست دی تھی دوبارہ اکٹھے ہو گئے ہیں۔ وہی اپوزیشن جو بکھری ہوئی تھی اس میں جان پڑ گئی ہے۔ اپوزیشن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ آدھی جیل پہنچ چکی ہے، کچھ لندن بھاگ گئے ہیں تو باقی جیل جانے والے ہیں۔ عمران خان نے میڈیا اینکرز سے اپنی پہلی ملاقات میں یہ پیش گوئی کی تھی: اپوزیشن کے بڑے بڑے جیل میں ہوں گے‘ وہ سب جمہوریت خطرے میں پڑنے کا نعرہ لگائیں گے اور میڈیا نے میرا ساتھ دینا ہے۔ یہ اور بات کہ ایک طرف میڈیا سے تعاون مانگ رہے تھے تاکہ اپوزیشن کو فکس کر سکیں اور ساتھ میں ان کے وزیر اطلاعات اور میڈیا ایڈوائزر اسی میڈیا پر توپیں اور گنیں لے کر چڑھائی کیے ہوئے تھے بلکہ میڈیا بحران کا کریڈٹ بھی سمیٹ رہے تھے۔
اس ماحول میں وہی ہوا جو ہونا تھا۔ مریم نواز‘ جو جیل سے ضمانت کے بعد خاموش تھیں‘ اچانک میدان میں کود پڑی ہیں اور حکومت کے لتے لینے شروع کر دیے ہیں۔ زرداری دوبارہ دھاڑنے لگے ہیں۔
عمران خان سے کہاں غلطیاں ہوئیں کہ حکومت ڈول رہی ہے؟ پہلے عمران خان نے ٹیم میں تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی اور ان لوگوں کو ہٹایا جنہوں نے خان کو میڈیا کے ساتھ لڑائی اور سوشل میڈیا ٹیموں کے ذریعے گالی گلوچ پر لگایا تھا۔ پتا چلا‘ یہ حکمت عملی ناکام ہو گئی تھی۔ میڈیا کو دبا کر وہ حکومت نہیں کر سکیں گے۔ عمران خان نے پہلے وزیروں کو آگے کیا کہ وہ میڈیا کو ہینڈل کریں لیکن پرفارمنس بری ہونے کی وجہ سے وزرا ٹی وی پر جانے سے کترانے لگے۔ اس پر عمران خان نے خود سامنے آنے کا فیصلہ کیا اور پریس کانفرنسز شروع کر دیں تاکہ اپوزیشن کا مقابلہ کیا جا سکے۔ وزیروں کی باتوں میں اثر نہ رہا تھا۔
تو کس کا قصور ہے؟ اس کی ذمہ دار خود تحریک انصاف کی اپنی حکمت عملی ہے۔ عمران خان کے ذہن میں یہ بات ہے کہ وہ کسی سے بھی لڑ سکتے ہیں اور انہیں کوئی بلیک میل نہیں کر سکتا۔ یہ بات وہ اپنے ملاقاتیوں کو بتاتے رہتے ہیں۔ یہی وہ مائنڈ سیٹ تھا جس نے انہیں مجبور کیا کہ وہ پہلے دن سے ہی میڈیا کو دبا اور ڈرا کر حکومت کا آغاز کریں۔ اچھے کام بھی ہو رہے تھے تو میڈیا ہائی لائٹ نہ کر سکا۔ میڈیا کو برا بنا کر پیش کیا گیا۔ یوں میڈیا اور حکومت کے درمیان جو گیپ پیدا ہوا وہ اب پورا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس کے بعد ایک اور حکمت علمی بنائی گئی کہ جو بھی اینکرز اور صحافی حکومت یا اس کے نااہل اور کرپٹ وزیروں کے خلاف لکھتے یا بولتے ہیں‘ انہیں پارٹی کے سوشل میڈیا سے گالیاں دلوائی جائیں۔ آپ لوگ شاید یقین نہ کریں اس کام پر بڑے اہم وزیروں کو لگایا گیا تھا‘ جو ویسے معصوم منہ بنا کر صحافیوں کو ملتے تھے لیکن اپنی ٹیموں کے ذریعے وہ سب گالیاں دلوا رہے تھے۔ میرے دوست ارشد شریف نے ثبوتوں کے ساتھ ایک سابق وفاقی وزیر کی سوشل میڈیا کے ذریعے صحافیوں کو گالی گلوچ کرنے والے سٹریٹیجک میڈیا ونگ کی ذاتی نگرانی کرانے کا انکشاف نہ کیا ہوتا تو میں یقین نہ کرتا۔
سوشل میڈیا کے ذریعے یہ بات پھیلا دی گئی کہ جو بھی تحریک انصاف حکومت کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا یا پھر اس کے وزیروں کی کرپشن یا نااہلی کو ایکسپوز کرتا ہے وہ اپوزیشن سے پیسے لے رہا ہے۔ نو ماہ تک عمران خان کے وزیروں اور میڈیا ایڈوائزر نے یہ دھول مسلسل اڑائی اور آج کل اسی میڈیا سے مدد مانگی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس میڈیا کو آپ برا بھلا کہتے رہے‘ جن صحافیوں کو آپ سوشل میڈیا ٹیموں کے ذریعے گالیاں دلواتے رہے یا انہیں لفافہ کا لقب دیتے رہے اور عوام میں ان کی کردار کشی کی گئی‘ وہ اتنے اہم کیوں ہو گئے ہیں کہ ان سے رابطے کرکے اپنی حکومت کی مشہوری کرانے کی منتیں ہو رہی ہیں؟ عمران خان کے ایک اہم میڈیا ایڈوائزر ٹی وی اینکرز چھوڑیں‘ ان کے پروگرام پروڈیوسرز کی بھی وزیر اعظم سیکرٹریٹ بلا کر منتیں ترلے کر رہے ہیں اور انہیں ملکی مفادات سمجھائے جا رہے ہیں۔ عمران خان خود بھی چپکے سے اسلام آباد کے دو تین پرائم ٹائم ٹی وی اینکرز کو رام کرنے کے لیے بلا لیتے ہیں۔
سوال یہ ہے‘ عمران خان کے ساتھ یہ معاملہ کیوں ہوا؟ اس کے مختلف جوابات ہو سکتے ہیں۔ ایک تو وہی پرانا جواب کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے دس برس پنجاب اور پانچ برس اسلام آباد میں میڈیا کو اتنا کھلایا کہ وہ ان سنہرے دنوں کو یاد کرتے ہیں۔ نئی حکومت نے ان کا روٹی پانی روک لیا ہے لہٰذا تنقید بڑھ گئی ہے۔ میڈیا ابھی تک پیپلز پارٹی اور نواز شریف کا وفادار ہے۔
دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے خود عوام کو آسمان پر چڑھا دیا تھا کہ ان کے آنے سے دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ وہ امیدیں اب پوری نہیں ہو رہی ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے حکومت پہلے دن سے ہی عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہی۔ روز کوئی نئی مصیبت عوام پر نازل ہو رہی ہے۔ شروع میں تو یہ بات چلتی رہی کہ پچھلی کرپٹ حکومتوں نے ملک کا بیڑہ غرق کیا‘ جو درست تھا‘ لیکن اب عوام کی بھی بس ہو گئی ہے۔
اگرچہ سمجھدار لوگ جان گئے تھے کہ عمران خان وزیر اعظم بننے کیلئے کسی بھی کمپرومائز کو تیار تھے‘ لہٰذا الیکشن سے پہلے ہی دنیا بھر کے کرپٹ اور پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کا سیاسی کچرا اٹھا کر پارٹی میں بھر دیا گیا۔ جنہیں وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے‘ ان کو بھی اپنے ساتھ اتحاد میں شامل کر لیا اور انہوں نے دیر لگائے بغیر اسمبلی ممبران کی تنخواہوں میں اضافہ کرکے تحریک انصاف کو مزید بدنام کر دیا۔ ان کے اپنے وزیر کرپشن میں ملوث پائے گئے۔ اب وہ سب وزیر کام نہیں کر پا رہے۔
حامی کہتے ہیں: اگر عمران خان یہ سیاسی روٹ نہ لیتے تو بھلا کیسے حکومت بناتے؟ سوال یہ ہے کہ ایسی کمزور حکومت بنا کر بھی عمران خان نے کیا حاصل کیا؟ پچھلے نو ماہ میں ایسا کون سا کام ہے جس کی وجہ سے عمران خان کے حامی مطمئن اور خوش ہوں؟ جہاں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کا بندہ گرفتار ہوتا ہے تو ساتھ میں تحریک انصاف کا بھی بندہ کرپشن پر گرفتار ہو رہا ہے۔ نواز لیگ کا لیڈر جیل سے رہا ہوتا ہے تو ساتھ میں تحریک انصاف کا بھی رہا ہوتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ عوام یہ سوچ کر انہیں لائے تھے کہ جو کام نواز شریف اور زرداری کرتے رہے وہ عمران خان کے دور میں نہیں ہوں گے۔ ابھی پچھلے ہفتے پھر اپنے تمام ترجمانوں کا اجلاس بلا کر خان صاحب نے تھپکی دی کہ وہ ٹی وی چینلز پر جا کر مخالفوں پر چڑھائی کریں۔ وہ اب بھی حکومت کی کارکردگی پر فوکس نہیں کر رہے۔ یہ ترجمان کب تک ٹی وی پر منجن بیچیں گے اگر انہیں اپنے وزیروں کی کارکردگی کی سپورٹ نہیں ملے گی؟
یہی دیکھ لیں‘ اسلام آباد میں فرشتہ نامی بچی کے ریپ اور قتل کی ایف آئی آر بھی درج نہیں ہو پاتی اور باپ تھانے کی صفائی پر لگا دیا جاتا ہے اور مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ اسلام آباد کے تھانے کی حالت ہے۔ باقی ملک کے تھانوں کا اندازہ خود لگا لیں۔ پنڈی میں تین پولیس والے پوری رات ایک طالبہ کو ریپ کرتے ہیں۔ پولیس کی وردیوں میں ہم نے غنڈے اور بدمعاش بھرتی کر لیے ہیں۔ وہی عمران خان جو اپوزیشن میں ایسے ایشوز پر گرجتے برستے تھے‘ اب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ پولیس ریفارمز کا گلا خود عمران خان نے گھونٹ دیا کیونکہ یا تو پولیس ریفارمز کی جا سکتی تھیں یا پھر سیاسی شکروں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی جا سکتی تھی‘ جبکہ دھرنے میں بڑھکیں لگتی تھیں‘ اوئے آئی جی، سن لو اقتدار میں آ کر تجھے لٹکائوں لگا۔ اب جب موقع آیا تو ٹی وی پر خبر چل رہی ہے کہ عمران خان نے فرشتہ ریپ اور قتل پر علاقے کے ڈی ایس پی کو معطل کر دیا ہے۔ خان صاحب نے معطل بھی کیا تو ایک ڈی ایس پی کو۔ بائیس سال کی محنت اور کمپرومائز کرکے وزیر اعظم بننے کے بعد بھی خان صاحب راج نیتی کا صدیوں پرانا رواج نہ جان سکے کہ یہ وقت بڑے بڑے پیادوں کی قربانی کا ہوتا ہے‘ انہیں بچانے کا نہیں۔
راج نیتی کا یہ اصول سمجھنا ہو تو کسی دن وہ قدیم یونانی حکمران کامیڈس بارے پڑھ لیں کہ اس نے اپنے ان لاڈلے مشیروں اور وزیروں کا کیا حشر کیا تھا جب اسے پتا چلا ان کی نالائقی، نااہلی اور سازشوں کی وجہ سے شہر کی رعایا اس کے خلاف ہو گئی ہے اور شہر میں دنگے‘ فسادات بھڑک اٹھے ہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply