• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عمران خان کو مودی کی جیت مبارک ہو۔۔۔سید عارف مصطفٰی

عمران خان کو مودی کی جیت مبارک ہو۔۔۔سید عارف مصطفٰی

ہم جیت کے بھی ہارگئے اور مودی ہار کے بھی جیت گیا ۔۔۔۔ بلاشبہ مودی کو الیکشن جتوانے میں اگر سب سے بڑی مدد کہیں سے ملی تو وہ عمران خان سے ملی ہے …!! کیونکہ اس سے بڑی بدنصیبی ، بلکہ نااہلی اور کیا ہوگی کہ کسی کھیل میں فتح کا میڈل ، ہارنے والے کے گلے میں پڑا ہو اور جیتنے والا وکٹری اسٹینڈ سے دور منہ بسورے کھڑا کردیا گیا ہو ۔۔۔ لیکن پاکستان کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے۔۔۔ کیونکہ کبھی کبھی کسی بہت نازک مرحلے پہ کیا گیا کوئی ایک اچھا یا برا فیصلہ سب کچھ بدل سکتا ہے ۔۔۔ اورکسی ایک فرد کا معاملہ ہو یا ایک قوم کا ، کسی ایک کمزور لمحے یا ایک مضبوط ارادے سے تقدیر انتہائی مفید و جانفزاء موڑ بھی مڑ سکتی ہے یا اسکے قطعی برعکس بھی ہوسکتا ہے اور کوئی ایک غلط فیصلہ بھی نہایت مضر و مہلک ثابت ہوسکتا ہے ۔۔۔ بڑے لیڈروں کی پہچان اسی مرحلے پہ تو ہوا کرتی ہے اور بحران ہی تو اسکی اصلی ذہانت و بصیرت کا پتا دیتے ہیں ۔۔۔ مگر بدقسمتی سے عمران خان اس حوالے سے نہایت ناکام رہنماء ثابت ہوئے ہیں اور اس نادر موقع سے بھی کوئی فائدہ نہ اٹھاپائےاور فوجی محاز پہ جو کامیابی ہماری بہادر فوج نے 27 فروری کو دو بھارتی طیارے گرا کے حاصل کی تھی وزیراعظم نے اسے اگلے ہی روز پارلیمنٹ کے سیاسی ایوان میں ناکامی میں قطعی برباد کرڈالا اوربھارت کے درانداز مگ 21 طیارے کے گرفتار پائیلیٹ ابھی نندن کو رہا کرنے کا اعلان کردیا اور توقعات کے عین مطابق بھارتی سیاسی تاریخ کے چانکیہ ثانی نریندر مودی نے پلٹ کے زبردست وار کرتے ہوئے پاکستان کی اس فتح کو شکست میں بدل ڈالا اور الٹآ اس اقدام کو بھارت کے مقابل پاکستانی حکومت کے بری طرح ڈرجانے کی علامت ٹہرادیا اور پھر بڑی عمدگی سے بھارتی میڈیا پہ پھینکے گئے طلائی جال نے اس سودے کو بھارتی عوام میں بڑی شاطرانہ مہارت سے بیچ ڈالا ۔۔۔ اور اس پہ پورے بھارت میں جشن کا سا سماں پیدا کردیا گیا ۔۔۔ یہی نہیں بلکہ دو قدم آگے بڑھ کے ، ناکامی کے زخم چاٹتی بھارتی فوج کے سب سے بڑے منصبدار کمانڈر یعنی مودی نے اسی ہزیمت کو فتح کا روپ دے کر کمال فریب کاری سے خود کو بھارت کا محافظ اور اسکے مفادات کا مستعد نگراں و فرض شناس چوکیدار کرانے میں بھی شاندار کامرانی پائی جبکہ اسکے ایک نہیں کئی جھوٹ پکڑے گئے لیکن عمران خان ان سے کوئی بھی فائدہ اٹھانے میں بری طرح ناکام رہے ۔۔۔ لیکن پاکستان میں ایسے غیرمحتاط و بے شعور مداح خوانوں کی بھی کمی نہیں ہے کہ جو اس عاجلانہ و غیرعاقلانہ فیصلے پہ ڈھول بجارہے تھے اور دھمال ڈال رہے تھے اور اسے عمران کے ایک عظیم مدبر رہنماء ہونے کی دلیل بتا کر انہیں امن کا نوبل پرائز دینے کے مطالبے زور و شور سے کررہے تھے ۔۔۔ راقم نے تو اس احمقانہ فیصلے کے سامنے آتے ہی اسے عمران خان کی بہت بڑی غلطی قرار دیدیا تھا اور صاف طور پہ اسکے مضمرات سے آگاہ کردیا تھا اور یہی رائے لندن میں موجود ہمارے دردمند و مخلص دوست سمیع اللہ ملک کی بھی تھی ۔۔۔ ہم دونوں کے خیال میں گو ویسے تو ابھینندن کو کبھی نا کبھی رہا کیا جانا ہی تھا لیکن اسے دو ماہ بعد ہونے والے بھارتی انتخابات تک روک کے رکھ لیا جانا ہرگز ناممکن نہیں تھا اور اگر ایسا کیا جاتا تو اس سے بھارتی عوام شدید مشتعل ہوجاتے اور ردعمل میں نریندر مودی کی مقبولیت کا گراف پاتال میں گرجانا تھا اور وہ مودی جی جو اپنے 2014 کے انتخابی وعدوں کی تکمیل میں بری طرح ناکام چلا آرہا تھا اور جس نے 2017 اور پھر جولائی 2018 کے ضمنی الیکشنوں میں کئی صوبوں میں کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے مقابل میں زبردست مات کھائی تھی اسکو چند ہی ماہ بعد ہونے والے اس جنرل الیکشن میں عبرتناک شکست سے بچنا قطعی ناممکن ہوجاتا ۔۔۔ درحقیقت یہ ضمنی الیکشنوں میں پے درپے ہونے والی شکستیں ہی تھیں کہ جن سے آگے جنرل الیکشن میں متوقع بھیانک انتخابی منظرنامہ نے مودی کی نیندیں اڑادی تھیں اور بالآخر پلوامہ کراڈالا گیا کہ جسکا وقوع پزیر ہونا بہت کم لوگوں کے لیئے حیرت کا باعث تھا کیونکہ مودی کی ذہنیت سے واقف لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اپنی جیت کے لیئے اسے اب کسی ایسے بڑے تماشے کی ازبس ضرورت تھی کہ اپنے مقصد کے حصول کے لیئے یہ ہندو توا والے کسی بھی بدترین جرم سے بھی گریز نہیں کرتے اور سمجھوتہ ایکسپریس و گودھرا پہ ٹرین کی آتشزدگی سے خود متعدد ہندوؤں کی ہلاکت اس ذہنیت کی عکاس ہے ۔۔۔ میں ‘پلوامہ’ کو کراڈالا گیا میں اسلیئے کہ رہا ہوں کہ اسکا ہونا یقینی بنایا گیا تھا اور اس ضمن میں اس علاقے سے بھارتی فوج کی شیڈول سے ہٹ کے نقل و حرکت کی اطلاعات لیک کردی گئی تھیں اوردفاعی و سرکاری سطح پہ کسی ممکنہ حملے سے بچاؤ کے اقدامات سے جان بوجھ کر گریز کرنے یا کرانے کی خبریں تو متعدد ذرائع سے منظر عام پہ آ بھی چکی ہیں اور ان غفلتوں‌ کے باعث اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والے مجاہدین کی جانب سے یہ حملہ ہونا تو عین یقینی تھا اور ایسی بات بھی نہیں کہ بعد میں بھی عمران خان کو اپنے اس غلط فیصلے کے سنگین مضًرات کا اندازہ نہیں ہوسکا تھا ، بلکہ ہمارے خیال میں انکا یہ دلچسپ بیان تو اسی خفت میں‌ دیا گیا تھا کہ ‘ مودی کی جیت پاکستان کے حق میں ہوگی ‘ اور اپنی دانست میں اپنے غلط فیصلے کو درست جتانے کی کوشش میں وہ اسکے دفاع کے لیئے یہ لولا لنگڑا امکان ڈھونڈھ لائے تھے کہ بھارت میں اگر کوئی معتدل قسم کی حکومت اقتدار میں آگئی تو وہ پاکستان کے ساتھ یا تو کوئی معاہدہ ہی نہیں کرسکے گی اوراگر کربھی پائی تو وہ معاہدہ بی جے پی قبول ہی نہیں کرےگی ۔۔۔ دراصل خان کے یہ بوگس اندازے بی انکے گھامڑ پن اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی بنیادی سوچ سے عدم وقفیت کا پتا دیتے تھے کیونکہ برصغیر میں خطے کی سیاست سے ذرا بھی آشنا کونسا فرد ہے جو یہ سچائی نہیں‌جانتا کہ پاکستان دشمنی اور ہندو تؤا کا فروغ ہی تو مودی کی سیاسی عمارت کے دو بڑے بنیادی ستون ہیں اور ایسا فرد بھلا کیوں اپنے ایسے بنیادی مؤقف سے دستبردار ہوجائے گا کہ جس کی بنیاد پہ وہ صوبہ گجرات کے الیکشنوں میں بھی خوب دھوم مچاتا رہا ہے اور جس کی وجہ سے وہ 2014 ک الیکشن میں بھی سرخرو ہوگیا تھا ۔ بہرحال غلطی بھی بڑی ہوئی اور اسکے بل پہ مودی کا نتیجہ بھی بہت بڑا نکل آیا اور اب آئندہ کے منظرنامے میں پاکستان کے لیئے اسکے نہایت بڑے برے اثرات مرتب ہونا بھی یقینی سمجھیئے ویسے بھی ایک طرف اسے صدر ٹرمپ نےاپنے بہترین دوست ہونے کا اعزاز بخش رکھا ہے تو دوسری طرف اس نےحیرتناک طور پہ امریکا کے مخالف ایران کو بھی ، اسکے زبردست وسائل کی لالچ میں ، اپنی آغوش میں لے رکھا ہے اور ان سب سے بڑھ کر سنگین تر یہ حقیقت ہے کہ اب پاکستانی خارجہ پالیسی کی حماقتوں کے باعث بھارت کی طالبان سے کافی حد تک دوستی بھی ہوچکی ہے کیونکہ امریکا سےطالبان کے مذاکرات میں پاکستان نے امریکا کی چاکری کی حد کرکے اور اسکے ناجائز مطالبت کو طالبان سے منوانے کی کوشش کرکے ماضی کے ان دیرینہ دوستوں کو اس حد تک خفا کردیا ہے کہ ہمیشہ بھارت کو دھتکارنے والے طالبان نے بھی بھارت کے لیئے اپنی سوچ کو بلنا شروع کردیا ہے جسکی متعدد علامتیں نظر آنا بھی شروع ہوچکی ہیں ۔۔۔۔۔ اور یہ سب قضیئے پاکستان کی وہ شرمناک پسپائیاں ہیں کہ جو عمرانی دور کی خارجہ پالیسی کے محاز پہ بدترین ناکامی کی بھی اک بڑی بلکہ بہت بڑی و روشن دلیل ہے ۔۔۔۔ ویسے تو منہ چلانے بڑھکیں مارنے اور نعروں کی جگالی کرنے سے خان کو پہلے کون اور کب روک سکا ہے جو اب روکے گا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply