نئے چیف صاحب سے توقعات

قوموں کی زندگی میں فرد کی بجائے اداروں کی فیصلہ کن اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے جو ایک متعین طریقہ کار کی روشنی میں بروئے کار رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نا صرف وہاں ترقی کی منازل تیزی سے طے ہوتی ہیں بلکہ کسی بھی بحرانی صورت میں اجتماعی قومی دانش کے توسط سے حالات کی سنگینی کا مقابلہ بھی کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے ایسے ممالک میں افراد کے آنے جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا مگر ہمارے ہاں جہاں روز اول سے ہی افراد کی پرستش شروع ہو گئی تھی اور نظام و ادارے بیک فٹ پہ چلے گئے، وہاں جناب راحیل شریف صاحب نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہ لے کر ایک واضح پیغام دیا ہے کہ بہادر خاندان کا یہ سپوت اداروں کی سربلندی اور اہمیت پہ یقین رکھتا ہے۔

جب جناب راحیل شریف صاحب کو مسلح افواج کی کمان سونپی گئی۔ تو ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی ابتر تھی۔انھوں نے دہشت گردوں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور سانحہ پشاور کے بعد پاکستان آرمی نے تمام تر ملک دشمن قوتوں کے خلاف بلا تفریق کاروائیاں کیں۔ اس سے امن و امان کی صورتحال میں بہتری ہونے لگی اور راحیل شریف ملک میں ایک مقبول آرمی چیف کی حیثیت سے ابھرے۔گزشتہ سال ایران، سعودیہ کشیدگی میں بھی وہ ملکی وزیر اعظم جناب میاں نواز شریف کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے دوروں پر رہے۔ جب وہ آئے تو ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے بارے میں ایک ابہام سا تھا کہ وہ شاید اتنی بھاری ذمہ داری سے عہدہ برآء نہ ہو پائیں گے مگر انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ نہ صرف ایک اچھے جرنیل ہیں بلکہ اپنی بہترین قائدانہ صلاحیتوں کی بناء پر یہ بھی ثابت کیا کہ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
جنرل راحیل کو پاک فوج کا سب سے زیادہ کامیاب اور نڈر سربراہ تسلیم کیا گیا۔ ان کے پورے دور میں ان کا اشاعتی اور برقی ذرائع ابلاغ میں بہت زیادہ ذکر رہا جو ذہن میں کئی سوالات اجاگر کرتا ہے کہ آخر ان میں ایسی کیا منفرد صلاحیتیں ہیں جن کی وجہ سے انہیں نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی، آخر کیوں لوگ انہیں نہ صرف ایک آرمی چیف بلکہ ایک محافظ کی سی حیثیت سے دیکھتے ہیں؟ جس طرح سے انہوں نے ایک پست حوصلہ قوم میں اعتماد، خود داری اور اچھے مستقبل کے لیے نئی امید اجاگر کی، اس سب کی بدولت انہوں نے لوگوں کا دل جیت لیا ہے۔ ضرب عضب ہو، کراچی کے امن و امان کی صورت حال ہو، یا بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب، ان سارے مراحل سے جنرل راحیل شریف اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر بحسن و خوبی عہدہ برآء ہوئے۔

16 جون 1956 کو میجر محمد شریف کے ہاں آنکھ کھولنے والے اس نومولود کے بارے کون جانتا تھا کہ وہ ایک روز اس ملک کی پاک فوج کا سربراہ ہو گا اور قوم کی امیدوں کا محور ہو گا ان کی آنکھ کا تارا ہوگا۔۔۔ پورا ملک اس پہ اپنی امیدیں لگائے بیٹھا ہوگا۔ اور ۔۔۔۔ اور یہ بچہ اپنے ہم وطنوں کی امیدوں پہ پورا اترے گا۔ جس طرح سے انہوں نے ایک پست حوصلہ قوم میں اعتماد، خود داری اور اچھے مستقبل کے لیے نئی امید اجاگر کی، اس کی بدولت انہوں نے لوگوں کا دل جیت لیا ہے۔ راحیل شریف صاحب اپنے پیچھے ایک امید اور درست سمت چھوڑے جا رہے ہیں۔ اب یہ ہم پہ ہے کہ ہم اس سمت سے دائیں بائیں نہ ہوں۔ گوکہ کامیابی کا سفر شروع ہو گیا ہے مگر منزل ابھی نہیں آئی، اس لیے سفر جاری رہنا چاہیے۔
راحیل شریف صاحب کے دور میں زیادہ فوکس اندرونی دشمنوں پہ رہا جس کی وجہ سے وہ بیرونی دشمنوں سے مکمل صرف نظر کیے رہے ۔ یا مکمل صرف نظر نہیں بھی کیا تب وہ انڈیا کو ڈھیل دے بیٹھے جس کا خمیازہ ہمیں آئے روز لائن آف کنٹرول پہ بھگتنا پڑتا رہا۔ انڈیا اس قدر دیدہ دلیر ہو گیا کہ اس نے پاکستان میں تخریبی کاروائیوں کا کوئی موقعہ خالی نہ جانے دیا۔ اور ہم یوں اپنا کئی گنا نقصان کروا بیٹھے۔ حالانکہ اس محاذ کو خالی چھوڑ کر ہم نے جس اندرونی محاذ پہ اپنی قوتیں لگائے رکھیں وہاں بھی ہمیں کامیابی کے بس خالی خولی دعوے ہی ملے۔ ادھر ہم دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا اعلان کرتے وہاں کوئی نہ کوئی دھماکہ کر دیا جاتا۔ اور ان دہشت گردوں نے ہر ہر لمحہ اپنی موجودگی کا ثبوت دیا۔

اب یہ آنیوالے چیف صاحب پہ منحصر ہے کہ وہ گذشتہ دور میں ہونے والی غلطیوں کا ازالہ کیسے کرتے ہیں۔جناب باجوہ صاحب سے بھی قوم کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ اور امید ہے کہ وہ قوم کی امیدوں پہ پورا اتریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جنرل باجوہ صاحب کس حد تک عوام اور قوم کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے شہرت اور مقبولیت کی اس منزل پر پہنچ پائیں گے، جس پر ان کے پیش رو پہنچے تھے؟

16 بلوچ رجمنٹ سے اپنے فوجی کیریئر کا آغاز کرنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ لائن آف کنٹرول اور شورش زدہ شمالی علاقوں میں فوج کی کمانڈ کی ذمہ داری نبھا چکے ہیں، اس لیے ان سے امید یہی کی جا رہی ہے کہ پاکستان کو درپیش سکیورٹی کے حوالے سے دو اہم ترین معاملات، یعنی پاک بھارت سرحد لائن آف کنٹرول پر مسلسل چلی آ رہی کشیدگی اور پاکستان کے شورش زدہ شمالی علاقہ جات میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جاری مہم پر وہ خاص توجہ مرکوز رکھیں گے۔ شنید ہے کہ پاکستان کی بری فوج کے نئے سربراہ دہشت گردی کے خلاف جنگ، خاص طور سے پاکستان اور افغانستان میں فعال عسکریت پسند گروپوں کے خلاف راحیل شریف سے زیادہ سخت گیر موقف اختیار کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری دعا ہے اللہ پاک جناب باجوہ صاحب کو ہمت قوت اور طاقت دے کہ وہ پاکستان کو ایک پرامن ملک بنا سکیں۔ آمین!

Facebook Comments

مبین امجد
انگریزی ادب کا طالب علم، چھوٹا موٹا رائٹر، زیادہ ریڈر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply