وزیر اعظم عمران خان جانتے ہیں انہوں نے سابقہ حکومتوں کے دوران اپنے وعدوں اور دعوؤں کے ذریعے خود سے وابستہ عوامی توقعات بلند ترین سطح تک پہنچائی تھیں اور ان توقعات پر پورا اترنے کے لیے ان کی حکومت کو مثالی حکمرانی اور کارکردگی دکھانی ہے۔
وہ یہ بھی جانتے ہیں بہتر طرزِحکمرانی اور ترقی لانے میں ان کی ناکامی سے پی ٹی آئی کے حامی نوجوانوں کی بڑی تعداد جمہوری تبدیلی سے مایوس ہوکر انتہاپسندی کی راہ پر گامزن ہو جائے گی۔
عام خیال تھا پی ٹی آئی نے اصلاحات کا ایک جامع پیکج اور ایک مثالی حکومتی ٹیم تیار کی ہوئی ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی حکومت اب تک سیاست کے انداز و اطوار، نظم و نسق کے امور، معیشت کی تدبیر، غیرملکی تعلقات اور اداروں کے بارے میں طرزعمل وغیرہ کے نکات پر سابقہ حکومتوں سے کسی طور پر بھی مختلف یا اچھی نظر نہیں آئی ۔
ٹیکس اور بر آمدات میں اضافہ اور معیشت کی بہتری کی بات ہو یا پولیس کو سیاست سے پاک کرنے اور دیگر اصلاحات کا معاملہ ہو، صحت اور تعلیم کو بجٹ میں زیادہ رقم اور ترجیح دینے کی بات ہو، پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو یا اپنی پارٹی میں نچلی سطح تک جمہوریت رائج کرنے کا معاملہ، بیرونی قرض کا حصول ہو یا انڈیا سے تعلقات، سیاسی مخالفین کے بجائے سب کے بےلاگ احتساب کا اصول ہو یا حکومتی وزراء اور حکومتی پارٹی سے وابستہ ملزمان کے خلاف میرٹ پر قانونی کارروائی کا معاملہ ہو، قابلیت اور ایمانداری کے بجائے محض پارٹی سربراہ کے ذاتی دوستوں میں حکومتی عہدے بانٹنے کی بات ہو یا اپنے منشور پر عمل درآمد کا معاملہ، چہیتے وزیروں مشیروں کی فوج بنانا ہو یا سربراہ حکومت کے بیرونی دوروں کا معاملہ یا وزیر اعظم اور وزراء کی جانب سے پارلیمان کی توقیر اور اس میں باقاعدہ حاضری کی بات ہو، ان سب کارکردگی اشاریوں پر پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی فروتر رہی ہے۔
یہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح برآمدات بڑھانے اور طاقتور سرمایہ داروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے درکار جرات اور تیاری نہیں دکھاپائی ہے اور اس نے بھی روپے کی قدر گھٹانے اور بجلی گیس اور پٹرول کو مہنگا کرکے بالواسطہ ٹیکسوں اور بہت زیادہ قرضے لینے کے ذریعے بجٹ خسارہ پورا کرنے کی کوشش کی ہے جس سے غریب و بے کس عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ حکومت اب تک کتنے طاقتور افراد کو ٹیکس نیٹ میں لائی اور کتنے”کرپٹ“افراد سے ریکوری کی ہے؟
اس حکومت کی خوش قسمتی کہ حزب اختلاف نے بھی کئی مواقع (مثلاً تحریک لبیک کے دھرنے، ساہیوال سانحے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی، مہنگائی میں اضافہ، پاک پتن پولیس مداخلت، اعظم سواتی معاملہ، علیمہ خانم اثاثہ جات وغیرہ) ملنے کے باوجود حکومت کے خلاف تحریک چلانے سے اجتناب کیا ہے اور اس کے لیے اُن مشکلات کا عشر عشیر بھی پیدا نہیں کیا جو پی ٹی آئی نے بطور اپوزیشن سابق حکومت کے لیے پیدا کی تھیں۔ ملک کی فیصلہ کن طاقتیں بھی اس کے ساتھ ہیں تو پھر اس کی کارکردگی مایوس کن کیوں ہے؟
پی ٹی آئی خیبر پختونخوا، پنجاب اورمرکز میں موجودہ حکومتی ٹیم اور کارکردگی کے ساتھ عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی اوران ٹیموں میں تبدیلی ناگزیر ہوچکی۔
وزیر اعظم ہاؤس، گورنر ہاؤسز اور صدر ہاؤس چھوڑنے، بیرونی دورے نہ کرنے اور قرضے نہ لینےجیسے بلند باہنگ دعوے کیے گئے جن کی بعد میں دھڑلے سے خلاف ورزی کی گئی ۔ اب کھلے بندوں اعتراف کیا جائے کہ ماضی میں ان محلات کے پر تعیش استعمال کے حوالے سے مخالفین پر تنقید غیر ضروری تھی اور ان اثاثوں سے فائدہ لیا جانا چاہیے ۔
وزیر اعظم ہوں یا پی ٹی آئی کے وفاقی اور صوبائی وزراء ابھی تک سابقہ حکومتوں پر تنقید اور اپوزیشن کو غیر ضروری الزامات لگا کر اکسانے کا کام ہی کرتے رہے ہیں ۔ اگر حکومت کےلیے اپوزیشن سے معمول کے تعلقات رکھنا”چوروں اور ڈاکوؤں“سے میل ملاپ اور سمجھوتے کے مترادف ہے تو پھر پنجاب میں وہاں کے”سب سے بڑے ڈاکو“ اور کراچی کے”دہشت گرد گروہ“سے سیاسی اتحاد کیوں کیا گیا ہے؟
سابقہ حکمرانوں کو کوسنے اور انہیں ملک کی تمام مشکلات کا ذمہ دار قرار دینے سے تو ملکی معیشت بہتر اور قوم خوشحال نہیں ہو سکتی۔ الزامات، اشتعال انگیز گفتگو، مبالغہ آرائی ، خود توصیفی اور اپنے مخالفین کو شیطانِ مجسم ثابت کرنے کا طرزعمل اب چھوڑ ہی دیا جائے تو بہتر ہوگا۔
پی ٹی آئی سابقہ حکومتوں پر رشتہ داروں اور دوستوں کو نوازنے کا الزام لگاتی تھی لیکن اب اس میں بھی دوستوں کو ایک ایک کرکے مشیر بنا اور کلیدی عہدوں پر بٹھا یا جا رہا ہے۔ اگر یہ ٹھیک ہے تو پھر اعتراف کیا جائے کہ مخالفین پر عہدوں کی بندر بانٹ، دوست نوازی اور اقرباپروری کے الزامات لگانا غلط تھا۔
پی ٹی آئی نے سابقہ حکومت کے دوران مہینوں سڑکیں بند کی تھیں، ریڈ زون میں دھرنے دیے تھے، عوام کو بل نہ دینے، ہنڈی استعمال کرنے، ٹیکس نہ دینے اور سول نافرمانی شروع کرنے کی ترغیب دی تھی۔ ان حوالوں سے بھی قوم سے معافی مانگی جائے۔
حکمران کو اپنے مخالفین کی غمی شادی میں شرکت کرنا اور تجربہ کار ماہرین اور سابقہ حکمرانوں سے رابطے برقرار رکھنا اور ان سے مشورے لینے ہوتے ہیں لیکن ان حوالوں سے بھی خان صاحب کوئی قابل فخر مثال قائم نہیں کر سکے حتیٰ کہ اپنے پیش رو نوازشریف کی شریک حیات اور قمرالزمان کائرہ کے بیٹے کی وفات پر بھی ان کے پاس جا کر تعزیت نہیں کی۔
سیاسی قوتوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا یا لینا پڑتا ہے۔ چنانچہ اپنے سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو، لٹیرا وغیرہ کہنا، ان پر ملک دشمنوں سے ساز باز کرنے کا الزام لگانااور ان کے خلاف نازیبا زبان استعمال مناسب نہیں۔ اس سے ہمیشہ کے لیے توبہ کی جائے ۔
سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے پرامن ماحول اور سیاسی استحکام لازمی عوامل ہیں۔ جب احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کی”کرپشن“پکڑنے کے لیے ہی آپ سارے ادارے اور وسائل وقف کریں، ان کو بدنام کرنے اور اشتعال دلانے کا عمل جاری رکھیں اور اُن سے ہاتھ ملانے اور رابطہ کرنے کو بھی اپنی توہین سمجھیں تو سیاسی استحکام کیسے آئے گا؟
حکمران باتیں کم اور کام زیادہ کریں تو بہتر۔ اور بولیں بھی تول کر۔ یہ تو مناسب نہیں کہ باہر جاکر اپنے ملک کے سابقہ حکمرانوں کی بدعنوانی کا رونا رو کر سرمایہ کاروں کو بدظن کیا جائے یا اپنے سرزمین کو دہشت گردی کا برآمد کنندہ قرار دیا جائے ۔
ملک کو درپیش مسائل حل کرنا کسی ایک فرد اور پارٹی کے بس کا کام نہیں۔ اس لیے خان صاحب سب سیاسی مذہبی جماعتوں اور ماہرین کو خود باضابطہ دعوت دیں کہ آئیں حکمرانی اور معیشت کی بہتری کے لیے ہمیں تجاویز اوررہنمائی دیں۔ بلکہ سب پارٹیاں ماضی میں کی گئی غلطیوں کے اعتراف اور معیشت و حکمرانی میں درکار اصلاحات پر مشتمل ایک میثاقِ معیشت و سیاست پر دستخط کرلیں۔
جناب وزیر اعظم صاحب! عام معافی کا اعلان کریں اور احتساب کا عمل روک دیں یا پھر اپنے پرائے کی تمیز کے بغیر بے لاگ احتساب شروع کریں۔ آغاز اپنے یا اپنے خاندان اور ساتھیوں پر عائد جرمانے یا واجب الادا ٹیکس کی وصولی سے کریں۔ مداہنت چھوڑ دیجیے۔ بد عنوان اورنااہل لوگوں کو فارغ اور خود سے دور کرلیجیے۔ بالخصوص پنجاب جیسے بڑے اور مستقبل کے انتخابی امکانات کے لیے اہم ترین صوبے کو کسی اچھے منتظم کے حوالے کر لیجیے۔ اپوزیشن کا احترام اور ان سے تعلقات بہتر بنا لیجیے۔ اور ملک میں قانون کی بالادستی کے لیے کمربستہ ہو جائیں۔
یاد رکھیں آپ کی نیک نامی و کامیابی ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے ناگزیر ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں