بابا غُنڈی۔۔۔تحریر: سلمان رشید/مترجم: عتیق بزدار

(Translation of “Old man of Ghund” by Salman Rashid)
“جب بالآخر وہ آپے میں آئے تو انہوں نے خاتون کو خبردار کیا کہ وہ کسی بھی صورت اپنے گھر سے باہر نہ نکلے۔ کیونکہ وہ، “چپرسن” کے گناہ گار لوگوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے کیچڑ اور پتھر کا سیلاب لانے والے ہیں۔ فقط خاتون کو اس کی رحمدلی کے باعث بخش دیا گیا ہے”

چپرسن ایک خوش منظر وادی ہے جو شاہراہ ء قراقرم پر “سوست” کے مقام سے لے کر مغرب میں 5185 میٹر بلند چیلنجی  درے کے پن دھارے (واٹر شیڈ) تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ وادی نقرئی ندیوں سے سیراب ہوتی ہے۔ چار سو سال قبل ایک گلیشئر پگھلا تو اس کی زرخیز مٹی نے یہاں کی زمین کو شاداب کیا۔ چپرسن کے باغات اور مزروعہ زمینیں  پیداوار میں بے مثل ہیں۔ یہاں آباد کرغیز النسل لوگ “واخی” زبان بولتے ہیں جس کا ماخذ قدیم فارسی زبان ہے۔ یہ لوگ اپنی جفا کشی اور زندہ دلی سے جانے جاتے ہیں۔ بہت کم پاکستانی گوجال (ہنزہ کا بالائی حصہ) کے دور افتادہ علاقے میں واقع اس جنتِ صغریٰ سے واقفیت رکھتے ہیں۔ لیکن چند لوگ اس وادی کو ایک ایسے شخص کے وطن کے طور پر بلا توقف پہچان لیں گے جو تن تنہا ملک کا نام روشن کرنے میں ہمیشہ سب سے آگے رہا ہے۔ یہ وادی نذیر صابر جیسے جوانِ رعنا کا دیس ہے ۔ انہوں نے نہ صرف اپنے ملک کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کیا ہے بلکہ انہیں ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے والے واحد پاکستانی کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

مگر یہ سب تو وادی کا رسمی تعارف ہے۔ وادی کے وسطی حصے میں ایک داستان مشہور ہے جو یہاں کے تمام دیہاتوں میں مقبول ہے۔ یہ “غُنڈ” کے پیر مرد “بابا غُنڈی” کی داستان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ “غنڈ” واخان کے پار کا ایک چھوٹا سا دیہات ہے۔ بر بنائے روایت، برس دن کی بات ہے کہ بابا غُنڈی دورانِ سفر میں اس وادی سے گزرے۔

جان فزا نظاروں سے معمور، چپرسن وادی فردوس بر روئے زمین معلوم ہوتی ہے۔ بہت دن کی بات ہے کہ اس وادی کو ایک خوفناک آفت کا سامنا تھا۔ ایک آدم خور اژدہا وادی کی ایک جھیل میں آ بسا جو روزانہ انسانی بھینٹ لیا کرتا تھا۔ کئی لوگوں کی جان گئی۔ روز کسی قسمت کے مارے شخص کو اس وحشتناک عفریت کی خوراک کے لیے جھیل کنارے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ ایک روز ایک کمسن حسینہ کی بھینٹ طے تھی۔ وہ جھیل کنارے بیٹھی عفریت کا لقمہ بننے کے خوف سے زار زار رو رہی تھی۔ اسی اثناء میں بابا غنڈی کا وہاں سے گزر ہوا اور انہوں نے لڑکی سے رونے کی وجہ پوچھی۔

اس کی داستان سن چکے تو بابا نے لڑکی سے کہا “وہ بخوشی اپنے گھر جا سکتی ہے کیونکہ اژدہا اپنی زندگی کے آخری لقمے لے چکا ہے” لڑکی چلی گئی تو بابا جھیل کنارے بیٹھ کر اژدہے کا انتظار کرنے لگے ۔ اور جونہی وہ نمودار ہوا۔ اسے اپنی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ اس کارنامے کو بابا کی روحانی طاقتوں پر محمول کیا گیا کیوں کہ ایسا معرکہ یہاں کے بڑے بڑے سورماؤں کے بس کی بات نہ تھی۔

لوگ بے حد مسرور تھے اور انہوں نے بابا غنڈی سے پوچھا کہ وہ ان کی کیا خدمت کر سکتے ہیں۔ بابا نے کہا کچھ بھی نہیں- مگر جب کبھی انہیں کسی آفت کا سامنا ہو تو ان کو طلب کیا جا سکتا ہے۔ اور ایسے میں وہ مدد کو ضرور پہنچیں گے۔ اور پھر وہ پہاڑوں کی طرف لوٹ گئے۔ مرورِ زمانہ کے ساتھ بابا کی فیض رسانی کی داستانیں بھلا دی گئیں۔ اور لوگ شبہ کرنے لگے کہ وہ شاید ہی کبھی واپس آئیں۔ فقط ان کے ایفائے عہد کو جانچنے کے لیے اہلِ علاقہ نے ایک دن اُن کو طلب کر لیا۔ حسبِ وعدہ بابا تشریف تو لے آئے مگر اہلِ علاقہ کی ناشائستگی پر آزردہ خاطر ہوئے اور واپس جانے سے پہلے انہیں شدید سرزنش کی۔

چپرسن کے لوگوں نے اسے ایک دل لگی سمجھ لیا۔ وہ انہیں بار بار بلاتے۔ اور جب وہ تشریف لاتے تو ان کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کیا جاتا۔ جب ان پر پتھر اور گوبر پھینکنے تک نوبت جا پہنچی تو ان کا پیمانہ ء صبر لبریز ہو گیا۔ چند سال پہلے جن لوگوں کی مدد کی تھی اب انہی کے عتاب کا سامنا تھا۔ اسی اثناء میں ایک بوڑھی عورت ( واخی زبان میں “کامپیر” ) ان کی مدد کو آئی۔ رحم دل خاتون انہیں اپنے گھر لے آئی۔ ان پر سے گندگی صاف کی اور انہیں بکری کا دودھ پلایا۔

“جب بالآخر وہ آپے میں آئے تو انہوں نے خاتون کو خبردار کیا کہ وہ کسی بھی صورت اپنے گھر سے باہر نہ نکلے۔ کیونکہ وہ، “چپرسن” کے گناہ گار لوگوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے کیچڑ اور پتھر کا سیلاب لانے والے ہیں۔ فقط خاتون کو اس کی رحمدلی کے باعث بخش دیا گیا ہے” بابا تو واپس چلے گئے مگر اس کے تھوڑی ہی دیر بعد وادی، پتھر اور کیچڑ کے ایک تلاطم خیز سیلابی ریلے کی زد میں آ گئی۔ جس نے کھیت کھلیان، گھر، باغات سب کچھ تباہ کر دیا۔ فقط “دیارِ کمپیر” (بوڑھی عورت کے گھر) کو کوئی گزند نہ پہنچی۔ آج تک ایک سپاٹ اور لمبی چٹان کو بوڑھی عورت کے گھر کا موقع سمجھا جاتا ہے۔

مذکورہ سیلاب کو امرِ واقعہ ثابت کرنے کے لیے چپرسن کے خوش خصال لوگ آج بھی نہایت سنجیدگی سے اُن پتھریلی اور ریتلی کونز کی دلیل دیتے ہیں جو وادی کے وسطی اور بالائی حصے میں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔ اور لوگ انہیں بابا غُنڈی کے سیلاب کی باقیات قرار دیتے ہیں۔ چند لوگ تو ان کیلشیم کاربونیٹ پر مشتمل پتھروں کو اژدھے کی ہڈیوں کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں۔ گلمت (وادئ ہنزہ) کے ایک ہوٹل مالک نے انتہائی فخر کے ساتھ ان پتھروں کو اژدھے کی ہڈیوں کے طور پر سجا رکھا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس نے اپنے ہوٹل کا نام مشہور سیاح مارکوپولو کے نام پر رکھا ہے اور لوگوں کو بتاتا ہے کہ مارکوپولو ایک انگریز تھا جو سن 1860 کے لگ بھگ “گُلمت” سے گزرا تھا۔

بابا غُنڈی کا مزار وادی کے انتہائی مغربی سرے پر واقع ہے۔ سرمئی چٹان تلے واقع، سفید رنگ روغن میں ڈھکی، یہ قبہ دار سنگی عمارت بجائے خود اِک مرقع حسن ہے۔ خصوصاً جب عرس کے دنوں میں رنگ برنگے جھنڈوں سے آراستہ ہوتی ہے تو اس کی آب و تاب قابلِ دید ہوتی ہے۔ اگرچہ ان کی زندگی میں اہل چپرسن نے ان سے درشت رویہ اپنائے رکھا مگر چپرسن کے خوش طبع لوگ اب انہیں اپنا مرشد و مربی مانتے ہیں۔

ہم نہیں جانتے کہ وہ کون تھے، چپرسن میں ان کی آمد کب ہوئی اور یہاں ان کی وفات کیسے ہوئی۔ مگر یہاں وادی میں ایک چھوٹا ذیلی گلیشئر “قلندر گُم” کے نام سے معروف ہے۔ یعنی “کھویا ہوا درویش” ۔ ممکن ہے کوئی بدقسمت درویش اثنائے ہرزہ خرامی چپرسن آیا ہو۔ جہاں شاید اس سے ہتک آمیز سلوک کیا گیا ہو۔ آتے ہوئے غالباً وہ آسان راستے سے آئے ہوں مگر واپسی پر شاید کسی مشکل راستہ اپنانے کی سوجھی ہو جس کا کچھ حصہ گلیشیر نوردی پر محیط ہو۔

ممکن ہے کہ ان کا خاتمہ شدید سردی میں ٹھٹھر کر یا کسی برفانی دراڑ میں گرکر ہوا ہو۔ اور اہلیانِ چپرسن کفن دفن کے لیے اُن کی لاش وہاں سے نکال لائے ہوں۔ اس کے برعکس دوسرا خیال یہ ہے کہ وہ یہ راستہ کامیابی سے پار کر گئے ہوں ( گو اس کا امکان بہت کم ہے)۔ اور پھر کبھی واپس نہ لوٹے ہوں۔ یوں اہلِ چپرسن کو گمان گزرا ہو کہ وہ شاید گلیشیر پر کہیں کھو گئے ہیں۔ اور یہی خیال گلیشیر اور مزار کی وجہ تسمیہ ہو۔

حقیقتاً اژدھے اور سیلاب کا قصہ سادہ لوح لوگوں کے لیے چند ایسے مظاہر کی توجیہہ بیان کرنے کے لیے تراشا گیا جو ان کی فہم سے بالا تر ہیں۔ جیسا کہ یہاں موجود ریت، پتھر اور سنگریزوں کے ڈھیر۔ یہ سب ایک گلیشئر کا ملبہ ہے جو قریب سترھویں صدی یا شاید اس سے تھوڑا بعد سِرک کر ساری وادی میں اُتر آیا تھا۔ کوئی بھی دانش مند اور تجربہ کار کوہ نورد یہ جانتا ہے کہ جب بھی کوئی گلیشیر پگھلتا ہے تو اپنے پیچھے ملبے کا اِک انبار چھوڑتا ہے جس پر سیلاب کی باقیات کا گماں ہوتا ہے۔ غالب گمان ہے کہ چپرسن میں بھی ہوبہو یہی واقعہ پیش آیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

سو، سیلاب کا یہ فسانہ فقط عوام کی شوخئ طبع کے باعث تراشا گیا۔ یہاں موجود کلس دار (کیلشیم کاربونیٹ پہ مشتمل) پتھروں کا انبار اپنی شکستگی اور مسام دار ساخت کے باعث ایک عام آدمی کو ہڈیوں کا انبار نظر آتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انہیں اگر اژدہے کی ہڈیاں مان لیا جائے تو چشمِ تصور میں اژدھے کی صورت کسی گرتے پڑتے بے ڈھب سے جانور کی آتی ہے۔ ایسے اژدھے میں ہرگز وہ توانائی متصور نہیں کی جا سکتی جو کسی شکار کو دبوچنے اور ہڑپ کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بابا غُنڈی۔۔۔تحریر: سلمان رشید/مترجم: عتیق بزدار

  1. Good job done by both… Writer and translator…. Chaparsan seems to be a ‘to go’ place.. M.. Overall a Good effort…

Leave a Reply to Naeem sajid Cancel reply