قصہ چہار درویش جدید ۔۔۔۔ احمد رضوان

(دوسرا اور آخری حصہ)

قصہ تیسرے درویش کا۔۔۔۔۔۔۔

یک چشم تیر انداز تیسرے درویش نے کوٹ پہن کر یوں گوٹ پھینکی، میں ملک عجم کا شہزادہ ہوں اور تیر و تفنگ کا دلداہ ہوں ۔عسکری تربیت میں کثرت سے حصہ لینے اور تیر اندازی کی مسلسل مشق سے میری ایک آنکھ کافی زیادہ سمے تک بند رہنے سے یک چشم کا تاثر ملتا ہےمگر میں آنکھ سب کو ایک ہی نظر سے دیکھنے کے لئے بند کرتا ہوں۔ خیر ایک دن شکار کرنے نکلا، جنگل میں ہرن جاتے دیکھا، نشانہ تاک کر لگایا جو ہرن کی ٹانگ میں لگا ، زخمی ہونے کے باوجود ہرن اٹھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ میں بھی پیچھا کرنے لگا۔ اصلی گوشت کھائے ہوئے بڑے دن بیت گئے تھے۔ جب سے یہ کھوتا خوری اور مردہ مرغیوں کی وبا چلی ہے صرف دالیں اور سبزیاں کھا کھا کر معدہ خراب ہوگیا تھا۔

پیچھا کرتے کرتے وہ ہرن ایک کھوہ میں گھس گیا، میں بھی پیچھے اند ر چلا گیا ۔ کیا دیکھتا ہوں ایک بزرگ ایک زخمی عورت کی مرہم پٹی کے ساتھ ساتھ صلواتیں سنا رہے ہیں، زخمی کرنے والے کو ۔رہا نہ گیا اور سامنے آگیا۔ معافی کا خواستگار ہوا کہ میں تو غزال سمجھا تھا مگر یہ تو پوری غزل نکلی اصلی والی ۔ اس آہو چشم نے مجھ یک چشم کو دزدیدہ نظروں سے دیکھا، نگاہیں تین ہوئیں اور میں نے بزرگ سے نظر بچا کر اپنی طرف سے آنکھ ماری مگر اسے دونوں آنکھیں بند لگیں تو سمجھی حسن کی تاب نہ لاکر پٹ سےبند ہوگئیں، اک تبسم نے تکلیف کی جگہ لے لی ۔ زخمی وہ تھی اور دل میرا گھائل ہوگیا ۔ مرہم پٹی اورکنگھی پٹی کرنے کے بعد جب وہ نمودار ہوئی تو اپسرا ہی لگی۔ وہ قتالہ تین تالہ چودہ ماتروں والی۔

بزرگ نے کھانے کی دعوت دی جو بھوکے پیٹ قبول کرلی کہ کھانے کے ساتھ ساتھ شربت دیدار بھی نصیب ہوگا۔ طعام کے بعد کلام کی باری آنے سے پہلے اور بادہ نوشی کرتے ساتھ ہی بے ہوشی کی وادیوں میں اتر گیا۔ صبح دم کچھ بھی نہ تھا۔ بس ہیاں آنے کا پتہ لکھا رکھا تھا سر ہانے جسے لے کر نگر نگر دربدر ٹھوکریں کھا کر اب آپ کے سامنے موجود ہوں۔

قصہ درویش درجہ چہارم

چوتھا درویش روتے روتے یوں سٹارٹ ہوا جیسے چنگ چی کہ اس کا تعلق ملک چین سے تھا جہاں راوی چِین ہی چِین لکھتا ہے ۔ میں اپنے بڑے بھائی کے ظلم و ستم کا شکار ہوا جو والد کے فوت ہونے کے بعد ساری جائیداد ہڑپ کر گیا اور مجھے افیون پر لگا دیا ۔ سارا دن چارپائی توڑتا اور رات کو قبض بے حال رکھتی ، ملیِن ڈھونڈتا ایک حکیم حاذق کے در جا پہنچا جو شلوار کا پائنچہ گھٹنوں کے قریب رکھتا تھا اور اٹھتے بیٹھتے بس یہی کہا کرتا شمیم اور اقلیم دونوں ملیں گے درجہ چہارم کو۔ کسی کو سمجھ نہ آتی ۔ اسے میرے مرض کا پتہ چلا تو دوا کے ساتھ املاء بھی درست کروانے لگا ، تھوڑے عرصہ کے بعد مجھے محصول چنگی کے درجہ چہارم میں ملازم بھرتی کروادیا اور اپنی دختر نیک اختر کا ہاتھ تھما دیا جو خمیرہ گاؤ زبان کھا کھا کر وزن اور درازی زبان میں دونوں میں گاؤ ہو چکی تھی۔ تب اس مقولے کا عقدہ کھلا، پتہ نہیں اللہ میاں کی گائے کہاں دستیاب ہوتی ہے مجھے تو معلوم نہیں ہے۔

چنگی پر محصولات کرتے کرتے ہاتھ ادھر اور دھیان اس بات پر لگا رہتا کہ کس طرح اپنی جائیداد واپس لوں کہ زمین مہنگی اور پلاٹ سکیم نکل رہی تھی وہاں ایک بڑے مہا بلڈرکی کارستانیوں کی وجہ سے۔ ایک دن بنا محصول کچھ چھکڑے چنگی سےگذرنے لگے، روکا تو ابے تبے کرکے مجھ پر پل پڑے اور مشکیں کس کر ساتھ بٹھا کر لے گئے ، دیکھا تو اسی بلڈر کے کارندے نکلے اور مجھے زمین کا مالک سمجھ کر انگوٹھا لِوا لینا چاہتے تھے میری زمینوں پر۔ بڑی مشکل سے اصل صورتحال انہیں بتا کر جان بخشی کرائی اور الٹا ان سے مدد مانگی جو انہوں نے دینے سے انکار کرکے یہاں بھیج دیا کہ تیرا مسلہء وہیں جا کر حل ہوگا۔ اب پتہ چلا ہے کوئی دفینے کا چکر بھی ہے اس زمین میں ۔ بڑا بھائی کھدائی کرا رہا ہے چپے چپے کی ۔ سو اب آپ لوگوں کے سامنے یہ درجہ چہارم کا ملازم مدد مانگنے آیا ہے ۔

آزاد بخت کی خوش بختی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتنی دیر میں بادشاہ کا وہی خاص مصاحب بھاگا بھاگا آیا ، جہاں پناہ !! آپ بیٹے کے باپ بن گئے۔ بادشاہ اس اچانک ملنے والی خوشخبری سے بھونچکا رہ گیا۔ قریب تھا کہ تخت سے گر پڑتا ، چاروں درویش اٹھ کر لپکے اور بادشاہ کو سہارا دیا اور حواس بحال ہونے پر جب تفصیل کا پتہ چلا کہ کافی دیر سے ایک کنیز جو خرابیءِ طبیعت کی بنا پر ایک کونے میں پڑی تھی ،دراصل حاملہ تھی اور بفضل تعالیٰ ماں بن گئی ۔بادشاہ کی تو مارے خوشی گھگھی بندھ گئی ، اٹھ کر موتیوں والے ہار لٹانےلگا اورسب کو دعوت عام دے دی۔ دعوت خاص میں بادشاہ نے اپنے مربی اور سببی بنے شاہ جنات کو بھی مدعو کرلیا تاکہ چاروں درویشوں کے مسائل کا حل نکالا جا سکے۔ شاہِ جنات نے اپنے ہرکارے ہر جگہ دوڑائے۔ ڈرون کی طرح جو چپہ چپہ چھان کر سب کے مسنگ پرسن برامد کرا لائے ۔ درویشوں کی حیرت دیدنی تھی جب سب کا مال مسروق بمعہ صندوق برامد کرکے حوالے کیا گیا ۔ یوں ہنسی خوشی سب اپنے اپنے ملک کو لوٹ گئے۔ اور بادشاہ اپنے دل کی مراد پوری ہونے پر شاداں و فرحاں نامی دو نئی کنیزوں کو عقد میں لے کر نیٹ پریکٹس کرنے اور شاہی حکماء و طبیب نئے کشتوں اور طلایہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔

ختم شد۔

پس نوشت: اس قصے کے سارے کردار اور واقعات فرضی ہیں ، اگر آپ کو کوئی کردار یا واقعہ اپنے جیسا معلوم پڑے تو آپ کے اوپر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے اور ساتھ یہ نصیحت یا تو اپنا آپ بدلو یا اس پیج کو بند کرکے کوئی ڈھنگ کا کام کرو۔ شکریہ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس مضمون کی پہلی قسط کے لیے یہاں کلک کیجیے
makalma.com/ahmad-rizwan/

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply