جارج آرویل اور پاکستان۔۔قیصر عباس فاطمی

جارج آرویل کے ناول پڑھ کر ایسا گمان ہوتا ہے جیسے پاکستان کو سامنے رکھ کر لکھے گئے ہوں۔ اور بعض معاملات میں تو ایسی مماثلت ہے کہ یقین نہیں ہوتا آرویل گزر چکے ہیں بلکہ یوں لگتا ہے کہ ان کا ظہور ابھی ہونا ہے اور یہ سب ٹائم ٹریول ہو کر پہلے آ گزرا۔ جیسا کہ 1984 پڑھیں اور ہمارے اصل مقتدر طبقے کے چال چلن دیکھیں! یا پھر انیمل فارم پڑھیں اور موجودہ حکومت دیکھیں۔ مثلاً جانز (نواز شریف) سے فارم چھیننے کے لیے اولڈ میجر (ملیٹیبلشمنٹ) قوم کو انقلابی ترانہ (بنے گا نیا پاکستان) سکھاتا ہے۔ پھر سنوبال (خادم رضوی) اور نیپولین (عمران خان) سامنے آتے ہیں۔ کچھ نعرے لگائے جاتے ہیں جن میں سے سب سے اہم یہ ہوتا ہے، سب برابر ہیں (سارے سیاستدان کرپٹ اور چور لٹیرے ہیں) ۔ نپولین ، سنو بال کے ساتھ ہاتھ کر جاتا ہے اور خود اکیلا حکمران بن جاتا ہے۔
بعدازاں، نپولین ، سکویلر کے ساتھ مل کر ونڈ مل (تیل کا کنواں، کیکڑا ون) میں لگاتا ہے جس سے تمام جانوروں کی زندگیاں آسان بنانے کی امید دلائی جاتی ہے۔ مگر ونڈمل ایک طوفان سے تباہ ہو جاتی ہے۔
ایک اور واقعہ میں باکسر (پاکستانی معیشت) شدید زخمی ہو جاتا ہے۔ باکسر کو نیکر (آئی ایم ایف) کی گاڑی میں ڈال کر روانہ کر دیا جاتا ہے۔ جب سب شور کرنے لگتے ہیں تو سکویلر بتاتا ہے کہ وین ہسپتال کی ہے۔ جب کہ اصل میں باکسر کو فروخت کر دیا گیا ہوتا ہے اور ان پیسوں سے نپولین اب وسکی (کوکین) خرید کر پی رہا ہوتا ہے۔
ایک عرصہ گزر جاتا ہے۔ ونڈ مل بن چکا ہوتا ہے۔ ہر طرف حالات پہلے جیسے ہو جاتے ہیں۔ مگر نپولین اب بدل چکا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ سادگی اچھی چیز ہے۔ وسکی پیو، کھانے کھاو، گھومو پھرو۔ یہاں تک کہ فارم پہلے جیسی حالت پر لوٹ آتا ہے۔ جانور اور انسان (تمام سیاسی جماعتوں کے جنونیے) پھر سے اکٹھے کھیل رہے ہوتے ہیں اور کھیل کے دوران ایک دوسرے کی ٹرکس پر ہنستے ہیں۔ سات نعرے سمٹ کر ایک نعرہ بن  چکےہوتے ہیں: سب برابر ہیں، مگر کچھ زیادہ برابر ہیں ( سب کرپٹ ہیں مگر کچھ لوگ کم/زیادہ کرپٹ ہیں)۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply