اب کے برس عورتوں کو بانجھ ہی کیجیو۔۔۔۔۔رمشا تبسم

میں ماں ہوں۔وہ ماں جس کو دھرتی ماں کہتے ہیں۔وہ دھرتی ماں جو اس دھرتی کی ہر مظلوم,بےبس اور لاچار ماں کی آواز بن کر بولے گی۔میں وہ ماں ہوں جس نے اس دھرتی کی ہر ماں کا دُکھ دیکھا ہے۔ہر ماں کے آنسو جذب کئے ہیں۔ہر ماں کی سسکیاں  سنی ہیں۔ہر ماں کو اپنے وجود پر تڑپتا دیکھا ہے۔ہر ماں کو اپنے بچوں کے لئے لمحہ لمحہ مرتا دیکھا ہے،اب  دھرتی ماں  ان تمام ماؤں کی آواز بن کر سوال کرے گی اور جواب ریاست کے ٹھیکیدار سیاست دان,فلاح و بہبود کی تنظیمیں,حفاظتی ادارے,پولیس,ایجنسیاں,فوج, اور ہر وہ شخص دے گا جو صاحبِ حیثیت اور صاحبِ اقتدار  کبھی تھا, اب ہے ,اور رہے گا۔۔۔
جواب دو۔۔۔۔کیوں تڑپ رہی ہے میری ہر ماں؟۔کیوں ہر ماں کی گود کسی نہ کسی طرح اجڑ رہی ہے؟ کیوں ہر ماں ماتم کناں ہے؟۔
بولتے کیوں نہیں میرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟

کیوں میری ہر ماں اپنے جگر کے ٹکڑے کو سینے سے لگانے کو تڑپ رہی ہے؟ کیوں میری ہر ماں کی آنکھ میں آنسو,دل  غمگین اور روح بے چین ہے؟
نہیں دے سکے گا جواب کوئی بھی, درندے بھی بھلا جواب دیا کرتے ہیں۔
ہر سیاست دان,ہر ادارہ ہر حفاظت پر معمور شخص گونگا, بہرہ بن گیا ہے۔ ویسے ہی جیسے یہ اندھے  بن چکے ہیں،جن کو کسی کی تکلیف نظر نہیں آتی۔
کون بتلائے گا, کس سے جا کر پوچھوں۔
زندگی کَہر کے سانچوں میں ڈھلے گی کب تک؟

دھرتی ماں سے سنو! اس ماتم کی داستاں اب۔۔

میں دھرتی ماں ہوں ۔۔۔میرے ہاتھ نہیں,میرے پاؤں نہیں۔میرا وجود تمہیں روح سے خالی لگتا ہے۔مگر اے بے حِس انسان میں جیتی جاگتی احساس رکھتا ہوا ایک وجود ہوں۔۔میرے بازو اس قوم کا ہر فرد ہے۔میرے پاؤں اس قوم کے ہر فرد کے پاؤں ہیں۔تم اس دھرتی پر ہنستے,کھیلتے ہو تو ,میں  زندہ ہوتی ہوں۔۔۔تمہارے بازو میری طاقت ہیں۔تمہارے کامیاب ہوتے قدم میرے قدم ہیں۔اس دھرتی کے گوشہ گوشہ کو جنت بنانے کا دعویٰ  بہت بار کیا گیا۔۔۔ہر بار میرا دل پُر امید تھا کہ  ایک دن یہاں کا ہر انسان خوشحال ہو گا۔میرے وجود پر موجود ہر شخص پر سکون  زندگی گزارے گا۔۔۔
مگر اے ظالم انسانوں! تم نے کِیا کیا۔۔۔اے ریاست کے ٹھیکیداروں,تم نے کیا کر دیا,میری ماؤوں کی گودیں اجاڑنی شروع کر دیں۔تم نے ہر ماں کو تڑپایا میں نے کبھی اپنی دھرتی تم پر تنگ نہیں کی,نہ کبھی شکوہ کیا نہ ہی کبھی تمہیں  برباد کرنے کا سوچا۔
مگر ! اب یہ ظلم و ستم یہ ماؤوں کا ماتم برداشت نہیں ہوتا۔۔۔اب بس۔۔بہت ہو گیا ۔۔۔
کیا  کبھی سوچا ہے تم نے ریاست کے ٹھیکیداروں, یہ مائیں اتنی تکلیف سے نو ماہ اولاد کو پیٹ میں لئے پھرتی ہیں ۔زندہ رہتی ہیں۔تکلیف برداشت کر کے اسے جنم دیتی ہیں۔ اور تم ان کی ان معصوم کلیوں کو نگلتے جارہے ہو اور نگلنے والوں کو آزاد چھوڑتے جا رہے ہو۔۔۔  تم انسانوں  میں موجود جانور ان بچوں کو ہسپتال سے اٹھوا لیتے  ہیں۔اگر وہ وہاں سے بچ جائیں تو  علاج کے لئے تمہارے ڈاکٹر کے پاس آئیں ،تو تم ہسپتال میں غلط علاج سے ان کے بچے مار دیتے ہو۔یہاں سے بچ جائیں تو سڑک پر ان  زندگیوں پر کوئی تمہارا تعینات کیا ہوا محافظ  گولیاں چلا دیتا ہے۔۔یہاں سے بھی بچ جائیں تو سکولوں میں کبھی اساتذہ سے جسم پر تشدد سہتے ہیں یا جنسی ہوس کا شکار ہو کر  زندگی ہار جاتے ہیں۔یہاں سے بھی محفوظ رہ جائیں تو  مدرسے میں موجود جانور ان کے جسموں سے کھیل کر کبھی چھت سے پھینک دیتے ہیں ،کبھی گلے میں پھندا ڈال دیتے ہیں ،یا مسل کر  کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں۔یہاں سے بھی بچ جائیں تو کوئی اغواء کر لیتا ہے۔انکو مسل کر ان کے ننھے جسموں  سے اپنی ہوس بجھا کر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیتا ہے۔انکو آگ لگا دیتا ہے۔انکے ننھے ننھے وجود کو گدھ بن کر نوچ کھاتا ہے۔

ارے یہ معصوم تو کسی بھی طرح مر جائیں  تو بھی  تم درندے ان کو قبروں سے بھی نکال لاتے ہو۔۔۔کوئی انکی لاشیں  کھانے کے لئے نکال لیتا ہے,تو کوئی جادو کرنے کے لئے اور کوئی بھیک مانگنے کے لئے۔
ان معصوموں کے جنم لینے سے لے کر مرنے تک اور مرنے کے بعد بھی ریاست کے ٹھیکیدار ان کو محفوظ کرنے سے قاصر ہیں۔۔۔
تم درندے ہو سب۔۔۔تم نے میری ہر ماں کی اولاد کسی نہ کسی طرح کھا  لی ہے۔۔۔تم نے کئی  زینب ,نشوا اور فرشتہ نگل لئے تم نے کئی اسد اور ہارون کھا لئے۔ریاست کے ٹھیکیداروں تم لوگ  اور یہ تمام مجرم  سب لوگ درندے اور بھیڑیئے ہیں۔

تم کھاتے جا رہے ہو میری ماؤں کے بچے۔وہ بچے پیدا کرتی جا رہی ہیں ۔۔۔تمہاری خوراک پوری ہوتی جا رہی ہے۔۔۔۔
ہم وہ انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں۔۔
کبھی سوچا تم نے میں دھرتی ماں! کتنا تڑپتی ہونگی ۔جب میرے  وجود پر ایک معصوم بچے کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔جب اس پر درندے حملہ کرتے ہیں۔جب اسکے ہاتھ پاؤں کاٹتتے ہو۔جب اس کو درد سے چیخنے بھی نہیں دیتے۔جب اسکی سانسیں ختم کرتے ہو ۔اسکا ننھا تڑپتا وجود میں برداشت کرتی ہوں۔جب اسکو آگ لگاتے ہو۔جب اسکو کوڑے پر پھینکتے ہو ۔جب اسکو گندے نالوں میں پھینکتے ہو۔۔۔میں تڑپتی ہو۔میرے ہاتھ ہوں تو اس وقت تم کو روک لو ۔تمہاری سانسیں چھین لو۔۔۔مگر ایسا ممکن نہیں ہوا۔میں بے بس ہوں۔۔۔مگر ریاستی ادارے بے بس نہیں ۔۔ان کے ہاتھ ہیں انکے پاس طاقت ہے مگر یہ سب مجرم ہے۔۔۔۔یہ سب ظالم ہیں۔۔۔۔یہ اپنی عیاشیوں میں مست لوگ  میری ماؤں  کے آنسو اور تڑپ نہیں محسوس کر سکتے۔۔۔یہ نہیں محسوس کرتے جس لمحے ننھی کلیوں کو مسلا جاتا ہو گا اس وقت ماں کا کلیجہ پھٹ  رہا ہو گا۔۔۔یہ نہیں سمجھ سکتے اپنے بچے کی جلی,کٹی,آدھی, مسک شدہ لاش دیکھ کر اس کی ماں  پر کیا گزرتی ہو گی۔۔۔وہ ماں زندہ لاش بن جاتی ہے۔۔۔مگر ریاست کو فرق نہ کبھی پڑا ہے نہ  پڑے گا۔۔۔تم سب بانجھ سوچ رکھنے والے ,بانجھ لوگ ,بانجھ معاشرہ  بنا چکے ہوں۔۔۔۔

ارے بزدل سیاست دانوں ,کم ظرف اداروں , گھٹیاں تنظیموں تم کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔۔تو کم سے کم  میری تمام ماؤں کو بانجھ کر دوں۔۔۔وہ بچے پیدا کر کے بھی بے اولاد ہی ہیں ۔تم میری مستقبل کی ہر ماں کو بانجھ کر دو۔۔۔نا کوئی بچہ پیدا ہو نہ وہ کسی کی جنسی خوراک بنے ۔۔۔نہ  ہی وہ کسی کی لاپرواہی سے جان سے جائے۔ نہ ہی ایک ماں کو اپنے بچے کے  بے دردی سے نوچے ہوئے جسم کو بانہوں میں لے کر تڑپنا پڑے۔۔۔۔۔
تم کچھ نہ کرو میں ۔۔۔دھرتی ماں اب تم سے اپنی ماؤں کو بانجھ کرنے کا مطالبہ کرتی ہوں۔۔
میں مزید اپنے وجود پر تڑپتے,سسکتے ,مرتے,  روتے  اور کٹتتے وجود برداشت نہیں کر سکتی۔
کاش! میرا وجود اب پھٹ جائے اور  میں  دھرتی ماں تم سب درندوں  کو نگل جاؤں۔
خدارا!تم کچھ مت کرو ۔۔۔۔میری ماؤں کو بانجھ کردو۔۔۔۔۔بانجھ کردو۔۔۔بس بانجھ کردو۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کب تک آنکھ نہ کھولے گا  زمانے کا ضمیر
ظلم اور جبر کی یہ ریت چلے گی کب تک؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply