• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شادی شدہ افراد، مانع حمل آلات اور شرم کا معاملہ۔۔۔۔۔اے وسیم خٹک

شادی شدہ افراد، مانع حمل آلات اور شرم کا معاملہ۔۔۔۔۔اے وسیم خٹک

وہ اُس دکان کے تین چار چکر لگا چکا تھا دکاندار پوچھتا کیا چاہیے تو پہلی بار اُس نے سگریٹ کہہ دیا۔ دوسری بار پندرہ بیس منٹ کےبعد وہ پھرآیا دکاندار نے پوچھا کیا چاہیے تو اُس نے نہ چاہتےہوئے تیس روپے کی مونگ پھلی مانگ لی اور چلتا بنا ۔ تیسری بار وہ دکان کے سامنے  کھڑے ہو کر  گاہکوں کے جانے کا انتظار کرنے لگا کہ کب وہ جائیں  اور وہ دکاندار سےاکیلے میں بات کرلے۔ کئی دفعہ دکاندار نے اُس کی جانب نگاہ کی تو اُس نے نظریں پھیر لیں ۔ گاہک تھوڑے کم ہوئے تو دکاندار نے ایک دفعہ پھ پوچھ لیا تو اُس نےدوسری جانب نگاہ پھیرتے ہوئے ڈرتے ڈرتے کنڈوم کہہ دیا۔۔ دکاندار ہنس دیا اُس نے دکاندار سےنظریں نہ ملاتے ہوئے پیسے دئیے اور پیکٹس کو شاپر میں ڈالنے کا کہہ ڈالا۔ اور پھر یہ ہر ہفتے ہونے لگاوہ دکان کے سامنے کھڑاہوجاتا دکاندار اُسے دیکھ کرسمجھ جاتا اور پھروہ اپنی راہ لیتا۔

یہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں اکثریتی شادی شدہ مردوں کی کہانی ہے جو شرم  کی وجہ سے شادی شدہ ہوکر بھی بازار جاکر   ایسی شئے نہیں خرید سکتے۔نجانے مخصوص  اشیا بازار میں خریدنے سے ان کو لجا کیوں آتی ہے صرف  یہی  نہیں بلکہ خواتین کی بعض مخصوص  اشیاء کے لئے وہ ہزار دفعہ سوچتے ہیں ۔

پہلے زمانےمیں بچوں کی پیدائش میں وقفے کے بارے میں باتیں سامنے آتی ہیں مگر ایسی صورتحال پیش ہی نہیں آتی تھی مگر موجودہ زمانے میں بچوں کی تعداد میں تحدید اور کمی کی غرض سے بعض مخصوص قسم کے   کنڈوم   استعمال کئے جاتے ہیں، دوسرے وہ جسے عورتیں مانع حمل کے لیے استعمال کرتی ہیں  کو لوپ کہا جاتا ہے. یہ صورت گوکہ نئی ہے، مگراب پاکستان میں بڑےبڑے میڈیکل اسٹورز پر موجودہے۔
چونکہ کم اولاد ہونے کا جذبہ بہت قدیم اور پرانا ہے، اس لیے ہمیں اسلام کے ابتدائی عہد میں بھی اس کی نظیر ملتی ہے، اسلام سے پہلے لوگ اس کے لیے عزل کا طریقہ اختیار کرتے تھے، عزل یہ ہے کہ ہمبستری کے دوران جب انزال کا وقت آئے تومرد اپنا عضو مخصوص  پیچھے ہٹا لے، احادیث میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے، نرودھ اور لوپ کا استعمال مکروہ ہے، بالخصوص اس وقت جب یہ محض معاشی پریشانی کے احساس پرمبنی ہو، البتہ کسی عذر کی بناء پرہوتو اجازت ہے، مثلاً حمل ٹھہرجانے کی وجہ سے شیرخوار بچہ کے دودھ سے محروم ہوجانے کا اندیشہ ہو یاحمل ٹھہرجانے میں عورت کی صحت کومعمول سے زیادہ خطرہ لاحق ہو۔

اس حوالے سےپشاور صدر میں گزشتہ تیس برسوں سے کاروبار کرنےوالے سہیل نے بتایا کہ ان تیس سالوں میں میرے بہت سے گاہک ایسے ہیں جب وہ دکان  پر آجاتے ہیں تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اسکو کیا چاہیے یا پھر ان کا مخصوص وقت ہوتا ہے جب کوئی نہیں ہوتا۔ اس کا کہنا تھا کہ بہت سے شادی شدہ نوجوان جو پہلے سالوں میں بچہ نہیں چاہتے وہ ایک کفیوژن کا شکارہوتے ہیں ۔ کہ بازار میں کنڈوم کیسے لیا جائے گا۔جس کے لئے وہ کبھی کبھار دوستوں کا سہارا لیتے ہیں ۔ اُن کےدوست ہمیں کہہ دیتے ہیں کہ اسے بھی وہ دیا کرو جو میں لے کرجاتا ہوں ۔ سہیل کا کہنا تھا کہ چونکہ میری شاپ صدر کے وسط میں ہے اس لئے میرے گاہکوں میں خواتین بھی ہیں مگر مردوں کی نسبت اُن میں جھجھک کم ہوتی ہے وہ ڈائریکٹ کہہ دیتی ہیں کہ فلاں چیزچاہیے ۔ مگر مرد حضرات عجیب مخمصےکاشکار ہوتے ہیں جبکہ کچھ مرد تو بہت تیز ہوتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس  حوالے سے ایک نئے  دلہے سے جب پوچھا گیا تو وہ کنڈوم کانام سُن کر ہی شرمندہ سا ہوگیا۔ اور بات کرنے سے ہچکچانے لگا۔ مگر پھر کہا کہ پہلی دفعہ جب ضرورت پڑی تھی تو صبح سے منصوبے بنا رہا تھا کہ کس طرح دکاندار سے کہوں گا۔وہ کیا سوچےگا۔اُس کے ذہن میں تو یہی آئےگا کہ یہ کنڈوم غلط مقصد کے لئے لے رہا ہے ۔ جوکہ آجکل ایک عام سی بات ہے ۔ زیادہ تر نوجوان لڑکے موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا نے سب اُن کی مٹھی میں کردیا ہے ۔ شادی شدہ حضرات اس شرم کی وجہ سے بھی جائز کام کے لئے بھی یہ لینے سے قاصرہیں ۔اُس کا یہ بھی کہنا تھا کہ بہت مضبوط اعصاب کے مالک کے لئے بھی کنڈوم خریدنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply