تاریخ پہ تاریخ، تاریخ پہ تاریخ۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

فرشتہ مومند سمیت تمام مَسلی ہوئی کلیوں کے نام۔

کبھی کبھی میں اپنی سوچ و خیال کے محور میں خود کو سنی دیول کے روپ میں محسوس کرتا رہتا ہوں۔ اور اُس کے ڈائیلاگ اور مکالمے منہ ہی منہ  میں دہراتا رہتا ہوں۔ خاص کر وہ تاریخ والا ڈائیلاگ۔ اور ایسی صورت تب پیدا ہوتی ہے جب مملکتِ خداداد  کے دشت و بیاباں میں کسی کونے کھدرے سے پھر کوئی زندہ لاش نکل کر سامنے آتی ہے۔ ہاں بالکل ایک زندہ لاش۔

زندہ لاش اِس لئے کہوں گا کہ وہ لاش ہمیں دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اور وہ سنتی اور سمجھتی بھی ہے۔ وہ لاش سب کچھ دیکھتی ہے کہ میرے بعد میرے یہ ہم وطن مجھے کس مقام پر لاکھڑا کردیتے ہیں؟ میری کیا حیثیت اِن کے سامنے آشکار ہوتی ہے؟ میرے وجود کے بھنبھوڑے ہوئے گوشت اور خون میں نہلائی  ہوئے رگوں  کو دیکھ کر میرے یہ ہم وطن بھائی اور بہنیں کس مقام پر جا پہنچتے ہیں۔ اور مجھے ملنے والی اِس سزا کے بدلے میں وہ کیا مانگ کرتے ہیں؟

جب ایسی کوئی زندہ لاش ہمیں ملتی ہے تو میرے سامنے اُس کا مسخ شدہ چہرہ اور اُس کی  اُجڑی  ہوئی خاکی تخلیق میرے سامنے بار بار آتی ہے۔ اور مجھے اُن آنکھوں میں صرف ایک سوال اُبھرتا دکھائی دیتا ہے ” آخر کیوں؟”۔۔
میرے پاس اُس کے سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ میں اپنے چاروں اور   دیکھتا ہوں اور اُس کے پوچھے ہوئے سوال کا جواب ڈھونڈنے میں لگ جاتا ہوں۔ مگر کسی طرف سے کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ کوئی ہوتا ہی نہیں جس کے پاس میں اُس زندہ لاش کے پوچھے سوال کا جواب ڈھونڈنے جاوں۔

میں اُن گندی  نالیوں میں، اُن گٹر کے دہانوں تک، اُن سبز لہلہاتے خون آشام کھیتوں میں،  تند و تیز دریاوں تک، میں اُن غلیظ کچرے کے ڈھیروں  میں، میں شہر کے اُن ویران و ظالم اندھیروں تک، اُس زندہ لاش کا سوال نامہ ہاتھ میں لے کر پوچھنے جاتا ہوں۔ مگر کوئی مجھے جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ میں ناکام واپس  جارہاہوتا ہوں کہ کسی بلند و بالا عمارت سے ایک تحکمانہ آواز اُبھرتی ہے جس کی صداوں میں ” آرڈر آرڈر” بلند سنائی دیتی ہے۔

میں اُس عمارت میں جانے کی ہرگز کوشش نہیں  کرتا اگر وہاں اُس زندہ لاش کا نام نہ لیا جاتا۔ میں وہاں دوڑا چلا جاتا ہوں اور اُس تماشے کا ایک حصہ بن کر تماش بین بن جاتا ہوں۔ میرے ہاتھ اُس زندہ لاش کے سوالنامے کے وزن سے شل ہوجاتے ہیں۔ مگر مجھے اُس کے جواب میں اگر کچھ ملتا ہے تو وہ یہی کہ “آرڈر آرڈر”۔

میرے پاس موجود سوالنامہ اِس قدر بھاری ہوتا ہے کہ جس کو سنبھالنا شاید اِس دنیا کے فرعون و نمرود کے خزانوں کی چابیاں اُٹھانے والے بھی برداشت نہ کرپاتے۔ مگر نجانے کیوں مجھ میں وہ سکت ہوتی ہے کہ میں اُس زندہ لاش کی امانت میں خیانت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں اُس کا سوالنامہ لے کر گھومتا رہتا ہوں اور وہ ہر بار سامنے آکر اُس سوال نامے میں ایک اور سوال کا بوجھ ڈال دیتی ہے۔
“آخر کیوں؟”

ماہ بیت جاتے ہیں سال بیت جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں اگر کسی جگہ سے اُس سوال کا جواب ملنے کی آواز آتی ہے وہ صرف وہی بلند و بالا عمارت ہوتی ہے۔ جہاں ہر روز اُس زندہ لاش کے بدن کے ہر ایک زخم کو پھر سے کُریدا جاتا ہے۔ ہر ایک عضو کو اُس کے جسم سے الگ کردیا جاتا ہے۔ ہر بار اُس کی عصمت و پارسائی کو تار تار کیا جاتا ہے۔ ہر بار اُس کی دوشیزگی کو پامال کیا جاتا ہے۔  سب مل جاتا ہے اگر نہیں ملتا تو میرے ہاتھ میں موجود اُس زندہ لاش کے سوال کا جواب۔

میں اب اِس حالت تک پہنچتا ہوں کہ مجھے ہر ایک صدا میں اُس کے سوال کی گونچ سنائی دیتی ہے۔ اور وہ مجھے چھوڑتی نہیں۔ اب میں اُس کے سوالنامہ کے تیزابی خصلت لئے لفظوں میں ہر روز جیسے آہستہ آہستہ جلتے جلتے فنا ہونے لگتا ہوں۔ ایسے جیسے وہ زندہ لاش مجھے ملامت کرتی ہوئی مجھے کوئی سزا سنا رہی ہو۔ مگر میں مجبور ہوتا ہوں۔ میں اُسے کیسے بتاوں کہ اُس کے سوال کا جواب ملنے میں ابھی اتنا وقت باقی ہے جتنے وقت میں اُس کی خون میں لتھڑی ہوئی لاش فنا ہوکر مٹی میں مٹی نہ ہوجائے۔

مگر وہ بلند عمارت والے ایسا نہیں کرنے دیتے۔ اُن کی  ہتھیلیوں میں اِن سوالوں  کے جواب تحریر کرنے کی لکیریں تو موجود ہوتی ہیں۔ مگر اُن لکیروں کو اتنے جواب تحریر کرنے ہوتے ہیں کہ میرے ہاتھوں میں تھمائے ہوئے سوالنامہ کا جواب آتے آتے میرے ہاتھوں سے وہ چھوٹ کر فضاء میں بکھر جاتے ہیں۔ اور فضاء کے ہر ایک ذرے میں گھل مل کر اُس سوال سے تاحدِ نگاہ یہی صدا نکلتی ہوئی سنائی دیتی ہے “آخر کیوں؟”

اور میں اُس سوال کے جواب میں ذہن و دل کے  نہاں خانوں میں اپنے ضمیر پر تازیانے برساتے ہوئے صرف یہی دہراتا ہوں ” تاریخ پہ تاریخ، تاریخ پہ تاریخ”

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : مضمون کا مقصد و لب و لباب یہ کہ جب تک ہم ایسے درندوں کو سعودی عرب کے نظام کی طرح سرعام سر قلم کرنے کی سزا نہیں دیں گے ایسے درندے روز معصوم زندگیوں سے کھیلتے رہیں گے۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply