اک ملاقات۔۔۔ محمد اشفاق

کھانا بہت ہی خوشگوار ماحول میں کھایا گیا- میرے سامنے بیٹھی اٹھائیس تیس برس کی وہ دلکش لڑکی بہترین سامع تو تھی ہی, مگر لگتا تھا کہ اپنے کالج کے دور میں بہترین ڈیبیٹر بھی رہی ہوگی- خارجہ امور, ملکی سیاست, میڈیا, مذہب …کیا کچھ زیربحث نہ آیا تھا اور ہر معاملے میں جہاں کہیں اس نے مجھ سے اختلاف کیا تھا, مجھے دانتوں پسینہ آ گیا تھا- گفتگو بتدریج ذاتیات پہ آتے ہی مجھے احساس ہونے لگا کہ وہ مجھے اچھا خاصا پسند کرتی ہے- میری شخصیت کی, میرے اندازِگفتگو کی اتنے خوبصورت انداز میں تعریف کی تھی اس نے, کہ دل بے ساختہ ہی مچل اٹھا تھا- میں دل ہی دل میں اپنی خوش قسمتی پہ نازاں تھا کہ پہلی کال پر ہی اس کے ملنے کی پیشکش میں نے خلافِ معمول ٹھکرائی نہیں تھی- چند منٹ میں نے ریزرو رہنے کی کوشش کی تھی مگر اس کی بے تکلفانہ سادگی اور بے ساختگی نے مجھے زیادہ دیر سنجیدہ نہیں رہنے دیا تھا- میں اپنے خول سے باہر نکل آیا تھا اور اب اسے متاثر کرنے کی کامیاب کوششوں میں مصروف تھا۔

چائے کے دوران اور اس کے بعد ہمارا موضوعِ گفتگو زیادہ تر ایک دوسرے کی ذات ہی رہی- میری ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ پہ وہ دھیمے سے, پراسرار سے انداز میں مسکراتی رہی- اب اس شاندار ملاقات کا اختتام قریب تھا- مجھے مگر یقین تھا کہ یہ ہماری ملاقاتوں کے ایک طویل سلسلے کا محض آغاز ہوگا- چند ثانیوں کی خاموشی کے بعد وہ ٹیبل پر کہنیاں ٹکا کر آگے جھکی, اپنی تھوڑی کو دائیں ہتھیلی کا سہارا دیا, ایک گہرا سانس لیا اور میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سرگوشی کے سے انداز میں بولی-

” Your place or mine?”

میں بے یقینی کے سے انداز میں ہنس کر رہ گیا- کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ شرارت کے طور پر اپنی کولیگز پہ جو فقرہ اچھال کر میں ان کی ڈانٹ کا لطف اٹھاتا ہوں, ایک دن وہی فقرہ زہریلے ناگ کی طرح پھن پھیلائے مجھے گھور رہا ہوگا۔ ” میں جواب کی منتظر ہوں”

“آپ مذاق کر رہی ہیں” میں نے ایک جھرجھری سی لے کر کہا-

میڈیا سے وابستہ ہونے کی بناء پر میرے ٹویٹر فالوورز کی تعداد ہزاروں میں ہے- میرے سامنے بیٹھی لڑکی بھی ان میں سے ایک تھی- بات چیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ ایک معروف سرکاری جامعہ میں اس کا حال ہی میں بطور لیکچرر تقرر ہوا ہے, اس کے ذہانت سے بھرے تبصرے اور میسجز میں میری تعریف کرنا مجھے بھی اچھا لگتا تھا- اس لئے جب اس نے فون نمبر مانگا تو میں نے بلاجھجک دے دیا- اس کی کال مگر کئی دن بعد آئی تھی, اتفاق سے میں بالکل فری تھا, جس ریسٹورنٹ کا اس نے کہا وہ میرے آفس کے بالکل قریب پڑتا تھا, چنانچہ میں نے بغیر کسی تردد کے ہاں کہہ دی- اور اب وہی لڑکی مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ اس کے ہاں جایا جائے یا پھر میری طرف۔

“آپ کو اس میں مذاق کیا لگتا ہے؟” اسی انداز میں بیٹھے ہوئے دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے پوچھا۔ میں نے گلا صاف کیا, ایک گہرا سانس لیا اور بولا ” دیکھیں میں یہ کیسے مان سکتا ہوں, آپ ایک بہت اچھی لڑکی ہیں اور….”

“اگر یہی آفر آپ کو ایک بری لڑکی نے کی ہوتی تو آپ کیا مان جاتے؟”

“نہیں, میرا مطلب یہ تھا کہ میں آپ سے ایسی بات کی توقع نہیں کر رہا تھا”

“چلیں اب جبکہ میں ایسی بات کر ہی چکی ہوں تو جواب دیجئے, گھبرا کیوں رہے ہیں؟” اس کے لہجے میں پوشیدہ چیلنج محسوس کر کے میں سٹپٹا سا گیا۔

“گھبرا کون رہا ہے؟ مگر میں شادی شدہ ہوں اور الحمدللہ ایک خوشگوار زندگی گزار رہا ہوں”

“میں نے آپ کو پروپوز کیا ہے کیا؟؟ ہاہاہاہا”

” نہیں, میرا مطلب یہ تھا کہ میں آپ کی آفر قبول نہیں کرسکتا” میں نے مضبوط لہجے میں کہا۔

” آفر قبول نہ کرنے کی وجہ محض آپ کی خوشگوار ازدواجی زندگی ہے یا کچھ اور بھی؟؟؟”

“جی یہ بھی ایک وجہ ہے” میرا اعتماد اب واپس لوٹ رہا تھا ” لیکن میں سنگل بھی ہوتا تو یہ بات نہ مانتا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں”

“کیا واقعی؟؟ ویری انٹرسٹنگ” اس کے لہجے میں بے یقینی تھی یا تمسخر, میں سمجھ نہیں پایا- ” کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ یہ خوفِ خدا آپ کو مجھ سے ملنے سے کیوں نہیں روک پایا؟؟؟”

“دیکھئے مس……., بات یہ ہے کہ میں نے آپ کو ایک فالوور سمجھ کر, ایک پڑھی لکھی سمجھدار لڑکی جان کر ملنے کا فیصلہ کیا تھا- ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں خواتین سے ہر شعبے میں سامنا ہوتا ہے, میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنے ملنے والوں میں صنفی امتیاز نہ برتوں- آپ ایک ذہین اور سمجھدار “انسان” لگیں اس لئے مل لیا, اس کا خدا خوفی سے کیا تعلق؟”

” بہت خوب سر, آپ کو سلیوٹ کرنے کو جی چاہ رہا ہے-” اب اس نے کرسی سے ٹیک لگا لی تھی, دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسا کر انہیں ٹیبل پہ دھر رکھا تھا اور اس کی گھورتی نگاہوں میں تجسس تھا- کم بخت اگر اینکر ہوتی تو بہت کامیاب ہوتی- “اچھا یہ بتائیے کہ آپ اپنے مرد فالوورز سے ملتے ہیں تو کیا ان کی آنکھوں کی, ان کے بالوں کی بھی ویسے ہی تعریف کرتے ہیں جیسے ابھی کچھ دیر قبل آپ میری آنکھوں پہ نثری شاعری فرما رہے تھے؟” میں کھسیا کے رہ گیا” نہیں دیکھیں وہ تو مجھے آپ کی شخصیت پسند آئی تو میں نے اس کا اظہار کر دیا- میرے ذہن میں یہ کچھ نہیں تھا……”

” اور آپ کے ذہن میں خدا بھی نہیں تھا- اچھا سر, اگر میں یہ جملہ نہ کہتی اور ہم اسی طرح ملتے رہتے تو آپ کو میری شخصیت میں مزید “کیا کچھ” پسند آنے کا امکان تھا؟ آپ نے ابھی یہ بھی تو فرمایا تھا نا کہ میں سر تا پا بے حد حسین ہوں- تو سر سے پاؤں تک مزید کن کن اعضاء پہ آپ شاعری فرمانے کا ارادہ رکھتے تھے؟” میں نے ماتھے سے پسینہ پوچھا, ایک بار پھر کھنگار کر گلا صاف کیا- ” کسی کی خوبصورتی کی تعریف میں کوئی قباحت نہیں ہے محترمہ, خوبصورتی اللہ کو بھی بہت پسند ہے” مجھے خود اپنا لہجہ کھوکھلا محسوس ہوا۔

“ہاہاہاہاہا, سر کہاں کہاں اللہ کے پیچھے جا کر چھپیں گے, یہ بتائیے کہ اگر اس خوبصورتی کو چھونے کا موقع مل رہا ہو اور وہ بھی مفت میں تو اس میں کیا قباحت ہے؟”  دل اچانک زور سے دھڑکا, ایک بھرپور نگاہ اس کے سراپے پہ ڈالی- واقعی بھلا مفت میں ایسا حسین موقع مل رہا ہو, تو اس میں کیا قباحت ہے۔

” آپ سیریس ہیں….نہیں شاید آپ مذاق کر رہی ہیں؟” میں نے تھوک نگل کر پوچھا- لہجہ عجیب فریادی سا ہوگیا, جیسے دس دس روپے بھیک مانگنے والے کو کسی نے دس ہزار کی آفر کر دی ہو۔

” دیکھیں سر, جو بات یا جو کام آپ نے پانچ, چھ یا آٹھ دس ملاقاتوں کے بعد کرنا تھا, وہی میں نے پہلی ملاقات میں کر دیا تو یہ آپ کو مذاق کیوں لگنے لگا- مجھے آپ اچھے لگتے ہیں اور آپ کو میں پسند ہوں…. ہوں نا؟؟؟”  زور زور سے سر ہلاتے مجھے اپنا پالتو کتا یاد آگیا, جانے کیوں-

” تو بس پھر یہ بتائیے کہ یور پلیس آر مائن؟”

بیگم کل ہی چکوال گئی تھی, فلیٹ میرا اسلام آباد کے محفوظ ترین علاقے میں تھا, میں گھر پہ ملاقاتیوں کا آنا زیادہ پسند بھی نہیں کرتا تو کسی ڈسٹربنس کا اندیشہ بھی نہیں تھا, اگر خدانخواستہ کوئی ناگہانی ہو بھی جاتی تو مجھے اپنے گھر پہ ہونے کا ایڈوانٹیج ہوتا- ایک سیکنڈ میں یہ سب سوچ کر میں نے تیزی سے اپنا فیصلہ سنایا۔  “مائن”

“دیٹس گڈ….بٹ سر, وہ اللہ کا ڈر….؟؟؟” اس نے شرارتی لہجے میں آنکھیں گھما کر پوچھا۔

” نیکی اور بدی کی سرحدوں کے پار ایک جگہ ہے, میں تمہیں وہیں ملوں گا”

” واؤ سر, اللہ کے بعد آپ کا اگلا سہارا رومی ہے گویا…..لیٹس گیٹ اپ اینڈ موو ناؤ”

میں اسے اپنی گاڑی میں لے جانا چاہ رہا تھا مگر اس نے کہا کہ پھر مجھے اسے یہاں واپس لانے کی زحمت کرنا پڑے گی, بہتر ہے کہ وہ گاڑی ساتھ لے جائے- یہ بات بھی ٹھیک تھی۔ تمام رستے اس کا حسین سراپا, اس کی دلکش مسکراہٹ, اس کا لڑکی ہو کر اتنا اعتماد میری آنکھوں کے سامنے گھومتا رہا- لڑکیاں میری زندگی میں بہت آئی تھیں, شادی سے پہلے بھی اور بعد بھی مگر یہ ان سب سے مختلف تھی- اس کی اس اچانک آفر سے مجھے پہلےڈر لگا تھا, کہیں یہ مجھے ٹریپ کرنے کی کوئی سازش نہ ہو, مگر اس کی آنکھوں سے چھلکتی سپردگی نے میرا یہ وہم دور کر دیا تھا- آنے والے پرلطف لمحات کا تصور دل میں ہلچل مچا رہا تھا- جس کی باتیں اتنی بے باکانہ ہیں وہ بیڈروم کی تنہائی میں کیا غضب ڈھاتی ہوگی, یہ سوچ سوچ کر میں مسکرا رہا تھا۔

پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے بیک ویو مرر میں دیکھا, اس کی گاڑی پیچھے تھی اور وہ نیچے نہیں اتری تھی- ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھے مجھے شرارتی نظروں سے دیکھ رہی تھی- دل کی تیز دھڑکنوں سے نبرد آزما ہوتا میں اس کی گاڑی کے پاس پہنچا- ایک ادا سے اس نے شیشہ نیچے کیا-

” آئیں نا, آپ نیچے کیوں نہیں اتریں؟” اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے میں نے بوجھل آواز میں پوچھا۔

“میں نیچے نہیں اترتی سر, بس برے کو اس کے گھر پہنچا کے آتی ہوں- ہاہاہاہا, گڈ بائی سر, آپ کی خداخوفی کو سات توپوں کی سلامی, ہاہاہاہا”

Advertisements
julia rana solicitors london

ندامت کے پسینے میں غرق میں فلیٹ کو جاتی سیڑھیاں چڑھنے لگا-

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”اک ملاقات۔۔۔ محمد اشفاق

  1. بہت عمدہ تحریر اشفاق بھائی….
    یہ ایک حقیقی بات ھے کہ ھم کمزور ایمان بہت جلد ڈھے جاتے ھیں….
    شاید پوری تحریر کا خلاصہ یہی ھے….
    ایسا آئینہ جس میں ہر شخص خود کو جانچ سکتا ھے

Leave a Reply