اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو ۔۔۔۔ اطلس کریم کٹاریہ

معاشرے کی ترقی میں جدید نظریات ہمیشہ ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ قدامت پسندانہ سوچ،نظریات اور دوسرے کے حقوق سلب کرنے جیسی روایات معاشرتی بگاڑ اور قوموں کی اجتماعی پسماندگی کا موجب بنتی رہتی ہیں۔ ایشائی ممالک بالخصوص عرب اور برصغیر کی تہذیبیں ایسے معاشرتی بگاڑ کا شکار ہیں۔ ماضی میں امریکی اور یورپی اقوام بھی ایسے معاشرتی المیوں کا گڑھ تھیں لیکن ان اقوام کے معاشرتی رویوں میں جمود نہیں تھا ، انہوں نے اپنی حالت کو بدلا اور آج وہاں عورت کو بہتر تحفظ اور حقوق حاصل ہیں۔ برصغیر میں ہندوؤں کے ذات پات کے نظام اور اچھوت نظریات کی چھاپ یہاں کے مسلمانوں کی زندگی پر بھی نظر آتی ہے۔ برصغیر کا مسلمان عربوں کی نسبت دین سے لگاو اور محبت زیادہ رکھتا ہے لیکن ان کی اکثریت دین حنیف کی اصل تعلیمات اور ملت حنیفیہ کی حقیقی روایات سے لا علم ہے۔

علم اور شعور کے بغیر انسان جانور کی طرح ہے۔ عورت کو اس جدید دور میں بھی جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس کی بنیاد بھی صدیوں پرانی دقیانوسی روایات ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی عورتوں کو ایسے اور اس طرح کے ملتے جلتے مسائل کا سامنا ہے۔ “مبارک ہو! آپ کے گھر بیٹی کی آمد ہوئی ہے۔” یہ جملہ بعض لوگوں کیلئے پیشمانی اور افسردگی کا موجب بن جاتا ہے۔ بیٹی کی پیدائش کو اللہ کی رحمت سے تعبیر کرنے کے بجائےاس پر رنج و غم کا اظہار کیا جاتا ہے۔ گھر والوں اور رشتہ داروں کے چہرے اتر جاتے ہیں،ان کے دل اندوہناک کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں ، شرمندگی اور ندامت سے انکی گردنیں جھک جاتی ہیں، افسوس کے تاثرات نمایاں ہوتے ہیں،ماں سے اظہار ہمدردی کر کے اسے گھنٹوں رونے پر مجبور کر دیا جاتا ہے جیسے اس سے کوئی گناہ کبیرہ سر زد ہو گیا ہو، یوں محسوس ہوتا ہے کہ گھر میں رب تعالٰی کی رحمت و برکت نہیں بلکہ کسی طوفان یا مصیبت کا نزول ہوا ہو ، جیسے اس گھر سے خوشیاں روٹھ گئیں اور غم کے بادل چھا گئے ، قہر کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، بیٹی کی پیدائش نے ان کا منہ کالا کر دیا پھر ماضی کے گناہ یاد کر کر کے معافیاں مانگی جاتی ہیں۔ بیٹے کی پیدائش پر خوشی کے ڈھول پیٹنے والے بیٹی کی پیدائش پر گھروں میں چھپ جاتے ہیں، کسی کو خبر دینا بھی بے عزتی سمجھتے ہیں۔ اظہار افسوس کیلئے لوگوں کی آمد ہوتی ہے۔ کیا یہ انسانیت ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آپ کے غمزدہ چہرے اور دکھ بھرے جذبات سے اس بیٹی کو جنم دینے والی ماں پر کیا گزرے گی ؟ کیا اس ماں کے اندر دل اور کلیجہ نہیں ؟ غش کھا کھا کر رونے والی عورتیں پتا نہیں یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ ان کا تعلق بھی اسی جنس سے ہے__کیا وہ یہ چاہتی ہیں کہ انکی پیدائش پر کوئی خوشی منانے کے بجائے روئے؟ انہیں تو یہ سوچ کر ہی غش پڑ جائیں کہ انکی پیدائش پر کسی نے افسوس کیا تھا۔

ایک بیٹی کو بوجھ سمجھنے والا مرد ایک بیٹے کیلئے سات سات بیٹیوں کا بھی بوجھ اٹھا لیتا ہے اور پھر وہ اگر نکما نکلے تب بھی رحمت ، پھر اس ماں کو بھی وہ بیٹا زیادہ پیارا ہو جاتا ہے۔ بیٹیوں کو ساری عمر نہ ٹلنے والی مصیبت سمجھنا، ان کو حقیر اور باعث تذلیل سمجھنا اور بیٹی ہونے کی وجہ سے اس کی پرورش اور نگہداشت پر توجہ نہ دینا بھی در اصل ان کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا تو آج پیدائش سے قبل ہی ان کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولرازم کے داعی بھارت میں صرف ایک سال میں ایک لاکھ سے زائد ابارشن صرف اس وجہ سے کروا دیئے جاتے ہیں کہ ممکنہ اولاد ایک بیٹی ہے۔ پھر بیٹی کی پیدائش کا ذمہ دار عورت کو گردانا جاتا ہے حالانکہ سائنسی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو جنس کا تعین مرد کے کروموسومز کرتے ہیں۔ گویا اصل قصور وار تو مرد ہوا لیکن نہیں، محکوم تو عورت ہے۔ ذرا سوچیں ایک ایسی بچی جو ابھی نہ چلنے کی ہمت رکھتی ہے، نہ بولنے کا ہنر جانتی ہے اور نہ سوچنے کا شعور رکھتی ہے ، اسے تب منحوس ٹھہرا دیا جائے تو پھر بڑی ہو کر وہ کیسےباعث مسرت ہو گی۔

حقیقتاً بیٹی کی پیدائش تو رحمت ہے ، یہ تو گھر میں گلاب کے کھلنے کی مانند ہے، یہ تو باد صبا کا وہ جھونکا ہے جو تر و تازگی کا پیغام لاتا ہے ، یہ تو وہ خوشبو ہے جس سے گھر کا آنگن سدا مہکتا ہے،یہ تو وہ نعمت ہے جو کبھی اپنے والدین کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ یہ تو وہ صورت ہے جسے دیکھ کر دل کھل اٹھتا ہے۔ دین محمدی میں تو بیٹی کی پیدائش ایک سعادت اور رحمت وبرکت کا زریعہ ہے اور پھر اس کی پرورش و پرداخت، تعلیم و تربیت کا اجر تو جنت اور حضور پر نور صلی اللہ علیک وسلم کی رفاقت کی صورت میں ہے۔ ایسے معاشرتی رویے دور جاہلیت کی یادگار ہیں۔ لوگوں کے اس رویے میں ان کے دین سے ذیادہ انکے علاقائی رسم و رواج اور تہذیبی روایات کا گہرا اثر ہے ۔ایسا نہیں کہ ان معاشرتی رویوں کی وجہ صرف لاعلمی اور کم فہمی ہے اور اس لا علمی کی وجہ سے لوگوں نے ایسی فضول خیالات کو تہذیب و تمدن کا خاصہ بنا رکھا ہے بلکہ کئی شعور رکھنے والے بھی اس طرح کی روایات کو چھوڑ نہیں پا رہے اور ان المیوں کی گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں ۔

آج کے دور میں ان معاشرتی رویوں کو جڑ سے کاٹنے کیلئے میڈیا کو ایک مثبت کردار ادا کرنا ہوگا لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارا میڈیا ایسے واقعات پر “سیاپا” ڈالنے کے علاوہ کوئی قابل قدر خدمات سرانجام نہیں دیتا۔ ٹی وی اینکرز اور ان کے پیٹی بھائیوں کا کام تو بس ایسا سماں باندھنا ہے کہ بس ملک و قوم کی حالت ابتر نظر آئے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں اصلاح سے کوئی غرض نہیں۔ انہیں غرض ہے تو صرف اپنے چینل کی ریٹنگز سے اور ” یہ خبر آپ تک سے پہلے پہنچا رہا ہے صرف اور صرف _______ نیوز” باقی سب اقدار جائیں بھاڑ میں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نا تو اپنے لکھے ہوئے حرف کو نشتر اور بولے ہوئے لفظ کو تیر سمجھتا ہوں کیونکہ میں ایک پیشہ ور لکھاری نہیں، میرا ہتھیار کند تو ہو سکتا ہے لیکن میں معاشرے کی اصلاح چاہتا ہوں، میں اعلی اخلاقی اقدار کا فروغ چاہتا ہوں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply