جنگ نہیں، مذاکرات ۔۔۔۔۔ سبط حسن گیلانی

ہندوستان کی تقسیم ناگزیر تھی۔ کوئی بھی واقعہ راتوں رات رونما نہیں ہوتا۔ بعض اوقات صدیاں ایسے تاریخی واقعات کی پرورش کرتی ہیں۔ یہاں بھی ایسے ہی ہوا تھا۔ اگر یہ حادثہ تھا تو اس کے مجرم ، اگر یہ کارنامہ تھا تو اس کے ہیرو، دو ہی تھے۔ افراد نہیں، طبقات۔ مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنے والے اور سیاست کے نام پر حکومت کرنے کے خواہش مند۔ ابوالکلام نے اپنی آخری کتاب آزادی ہند میں بھید کھولے ہیں۔ تقسیم کاسارا الزام انہوں نے کانگریس پر دھرا ہے۔ صرف الزام نہیں اسے دلائل کے ساتھ ثابت بھی کیا ہے۔ پھر جسونت سنگھ نے قائداعظم پر کتاب لکھ کر بہت سارے مغالطوں کو دور کرنے کی کوشش کی۔ جس کی پاداش میں ان کی کتاب بھارت میں جلائی گئی اور مصنف کو سیاست کے میدان سے باہر نکال پھینکا گیا۔

جمے جمائے عقیدوں اور نظریوں کو ٹھیس پہنچے تو عام انسان ہتھے سے اکھڑ جایا کرتے ہیں۔ موہن داس کرم چند گاندھی اور محمد علی جناح ایک ہی علاقے کی مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔ ایک نے پاکستان کو اس کا حق دلوانے کی خاطر بھوک ہڑتال کی اور اپنے ہی ہم مذہب کے ہاتھوں قتل ہوا۔ دوسرے نے کہا تھا پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات امریکہ اور کینیڈا جیسے ہونے چاہیں۔ ہم نے جس طرح اس کی تخلیق کی توہین کی اُسی طرح اس کے خواب کو بھی مٹی میں ملا ڈالا۔ دونوں ممالک کی قسمت خراب اور عوام کے مقدر سیاہ ثابت ہوے۔ نہ اُدھر کوئی گاندھی دوبارہ پیدا ہوا نہ اِدھر کوئی دوسراجناح جنم لے سکا۔ دونوں کی موت کے بعد ڈھلوان کا سفر شروع ہوا۔ اُن کے ہاں نہرو جیسے لیڈر نے اپنی حد تک اس زوال کو تھامے رکھا لیکن ہمارے ہاں تو کوئی نہرو جیسا بھی نہ تھا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

آج نہرو کی جگہ مودی ہے اور ہماری باگ ڈورعوام کے پیسوں سے ستر ستر کروڑ کی اپنے ذاتی گھروں کی چاردیواریاں تعمیر کرنے والوں کے ہاتھ میں ہے۔ آج گاندھی اور نہرو کے سیکولر دیس میں لوگ گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں تلواریں لے کر گلیوں میں بے گناہوں کا پیچھا کر رہے ہیں اور قائداعظم کے دیس کسی بے گناہ کے قتل ہونے کے لیے اس کا نام اور کسی اقلیتی فرقے کا ہونا ہی کافی ہے۔ غربت ایسی کہ وہاں لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اپنے کندھوں پر اُٹھا کر دس دس کوس پیدل چلنے پر مجبور ہیں۔ اور ہمارے ہاں مائیں بچوں کو دودھ کے بدلے زہر پلا کر خود نہروں میں کود کر جان دے رہی ہیں اور باپ عید والے دن خالی ہاتھ گھر جاکر بھوکے بچوں کے چہرے دیکھنے پر موت کو ترجیح دے رہے ہیں۔مگر لیڈر۔اس حد تک بے شرم کہ اپنے ارد گرد اژدھے کی طرح رینگتی غربت۔بے بسی، لاچارگی اور کم مائیگی انہیں نظر نہیں آتی اور بڑھ بڑھ کر ایک دوسرے کو فنا کر دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

آج سے بیس بائیس برس پہلے اس وقت کے چینی سربراہ کا انٹرویو ٹائم رسالے میں پڑھا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا ،مستقبل میں چین کا عالمی سیاست میں کیا کردار ہو گا؟ صدر کاجواب تھا، میرے ملک میں ابھی تک بیس فی صد عوام بھوکے ننگے ہیں۔ پہلے ہم ان کی حالت سُدھاریں گے، پھر اپنے بین الاقوامی سیاسی کردار کا سوچیں گے ۔ مذہبی انتہا پسندوں کی چھتر چھایہ تلے سیاسی قد کاٹھ نکالنے والا ہزاروں بے گناہوں کا قاتل مودی بھگوت گیتا کے جنگی گیت گا کر ہمسایوں کو للکار رہا ہے۔جبکہ اس کے اپنے ملک میں کروڑوں ایسے ہیں جن کے پائوں میں نہ جوتا ہے نہ جسم پر ڈھنگ کا لباس ۔ اِدھر صرف پنجاب میں دو کروڑ بچوں کو سکول نہ بھیج سکنے کی قوت رکھنے والے بچے بچے کے کٹ مرنے کی قسمیں کھا رہے ہیں۔

دونوں طرف صرف مٹھی بھر ایسے ہیں جو جانتے ہیں جنگ کیا ہوتی ہے؟۔ اور وہ بھی ایٹمی۔ بھارت کا میڈیا جنگی ترانے گا رہا ہے۔ اپنی افواج اور عوام کو جنگ پر اُکسا رہا ہے۔اور ہمارے اینکر اس دوڑ میں آگے نکلنے کی مسلسل کوشش میں ہیں۔ ایک صاحب فرما رہے تھے۔ ہمارا بچہ بچہ مولانا مسعود اظہر اور حافظ سعید بن کر اپنی سرحدوں کی حفاظت کرے گا۔ اُدھر بچے بچے کو بال ٹھاکرے شیوا جی اور ارجن بننے کے سبق پڑھاے جا رہے ہیں۔

میں جانتا ہوں کہ میری فوج جنگ آزما فوج ہے۔ ان میں سے ایک ایک دس پر بھاری ہو سکتا ہے۔ وہ حکم ملنے پر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میںکود پڑیں گے لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں جب دونوں متحارب قوتیں ایٹمی اسلحے سے لیس ہوں تو ایسی جنگوں میں فتح کسی کی نہیں ہوا کرتی۔ ایک مہیب تباہی و بربادی ہوتی ہے جو نسلوں کو اپنی منحوس لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بھارت اس مرتبہ بلا شبہ جنگ کو بھڑکانے میں پہل کرتا نظر آ رہا ہے۔ وہ کشمیر میں ناکام ہو رہا ہے۔ مودی اس ناکامی کا الزام پاکستان پر تھوپ کراپنی سیاسی حیثیت برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے بار بار ٹیکٹیکل ہتھیاروں کا ذکر تشویش ناک ہے۔ ہر ہما شما جنگ پر بیان بازی کر رہا ہے۔ یہ حق صرف دو رہنماوں کا ہے۔ ایک سیاسی رہنما یعنی وزیراعظم۔ دوسرا عسکری سربراہ ۔ ان دونوں رہنماوں کو چاہیے کہ بین الاقوامی میڈیا پر ساری دنیا کو واضح پیغام دیں۔کہ ہم جنگ پسند نہیں امن پسند ہیں۔ پہل ہم کسی صورت نہیں کریں گے۔ اگر دوسری طرف سے جارحیت ہوئی تو پھر مقابلہ ہماری مجبوری ہے اور بھارت سے بھی ایسا ہی پیغام آ نا چاہیے کیونکہ ایٹمی جنگ صرف بھارت اور پاکستان کا مسئلہ نہیں یہ باقی دنیا کے امن کا بھی مسئلہ ہے۔ دونوں ممالک کے سیاسی و عسکری رہنماوں کو چاہیے کہ طبل جنگ بجانے سے پہلے ایک مرتبہ اپنے ارد گرد بھی نظر دوڑا لیں۔ جو غربت وہ کم نہیں کر سکے جنگ کی صورت میں اسے کئی گنا بڑھانے کا انہیں کیا حق ہے؟۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply