پاکستان کو سبق سکھانا ضروری ہے مگر ۔۔۔۔۔؟ڈاکٹراسلم جاوید

وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ہندوستان پوری دنیا میں پاکستان کو الگ تھلگ رہنے پر مجبور کردے گا۔اسی کے ساتھ جاپان سے آ نے والے پارلیمانی وفد نے کل ہی اڑی حملے کے بعد ہندوستان کے ساتھ اپنی ہمدردی اورحمایت کا علان کیا ہے۔جاپان کے پارلیمانی وفد کی یہ دلجوئی اوراحساس تعزیت مصیبت و کرب کی اس گھڑی میں ہمارا ڈھارس بندھانے کیلئے یقیناًمفید ثابت ہوگی۔مگر اس سے قبل یعنی اڑی دہشت گردانہ حملے کی شام کو ہی میڈیا میں اس قسم کی خبریں گردش کرنے لگیں تھیں کہ فوج کے بریگیڈ کیمپ پر حملہ سے روس بھی غم و اندوہ میں ڈوب گیا ہے اور اس نے غالباً اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کے ساتھ فوجی مشق کے فیصلہ کو ملتوی کردیا ہے۔

اسی دن ایک دیگر ملک افغانستان سے وہاں کے سربراہ کا پیغام حکومت ہند کے نام سامنے آ یا اور اس نے اڑی دہشت گردانہ حملہ کی پروزور مذمت کرتے ہوئے ہند کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔بظاہر مذکورہ اقدامات یہی بتاتے ہیں کہ ہندوستان کی ڈپلومیسی اس وقت کا فی مضبوط اور فیصلہ کن پوزیشن میں ہے۔میڈیا کے مہارتھیوں نے بھی افغانستان اور روس کے ہمدردانہ کلمات کو حقیقت سمجھ لیاہے ،اس سے یہ اندازہ لگتا ہے کہ ہندوستانی میڈیا کاشمار عالمی فورم پر ابھی نابالغوں میں ہی ہوتاہے اور اسے اتنا شعور بھی نہیں ہے کسی ملک کے ہمدردانہ بیان پر تالی پیٹنے سے پہلے اس کی سفارتی اہمیت کو سمجھ کراس کے اعلانات اوروعدوں سے کو ئی مسکت نتیجہ اخذ کرسکے۔ جہاں تک افغانستان کی یقین دہانی کی بات ہے تو وہ اس وقت مجموعی طور پر خود اپنے تحفظ کیلئے دوسرے کا محتاج ہے اوراسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کیلئے نہ جانے کتنی مدت چاہئے، اس بارے میں حتمی طور پر شاید اشرف غنی تو کیا ان کا سیاسی آقا امریکہ بھی یقینی طورپرکچھ بولنے کی ہمت نہیں کررہا ہے۔رہی روس کی بات تو اس کے فریب و دغا کو بس اتنی بات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اس نے ہمارے ساتھ اظہار ہمدردی جتائی ،پاکستان کے ساتھ فوجی مشق ملتوی کرنے کی یقین دہانی کرائی ،جس کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ کے ہندوستان کے نابا لغ میڈیا کو دودن تک ٹی آر پی بڑھا نے اور ملک بھرمیں شور غوغا مچانے کاموقع مل گیا۔مگر ہندوستان کو روس سے کیا ملا ،اس کا جواب ممکن ہے ویزخارجہ سشما سوراج،وزیر مملکت برائے امور خارجہ مسٹر ایم جے اکبر اور وزیر اعظم نریندر مودی جی کے پاس ہو۔مگر ہم جو چیز سامنے دیکھ رہے ہیں اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سفارتی قوت لاغر ہوچکی ہے ،لہذا ہرکسی ایرے غیرے کی بات پر ہم یقین کرلیتے ہیں۔روس کی یقین دہانی کے فریب کا ٹھیکرا 23ستمبر2016کوہی پھوٹ گیا ،جب جنگی مشقوں کیلئے روسی فوجیں پاکستان کی سرزمین پر اتریں اور دوسر ے روز سے ہی دونو ں ملکوں کی مشترکہ فوجی مشقیں بھی شروع ہو گئیں۔

روس کی اس شاطرانہ سفارتی چالبازی پر تبصرہ کرتے ہوئے بی بی سی لندن نے لکھا ہے کہ ’’گو کہ یہ مشقیں پہلے سے طے شدہ تھیں لیکن ایک ایسے وقت میں جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے، روس اور پاکستان کی مشترکہ جنگی مشقیں خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔‘‘یہ وقت اس بات غور کرنے کا ہے کہ روس پر بھروسہ کیا جائے یا نہیں؟

سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیاروس جنوبی ایشیا میں ہندوستان کے بعد کسی نئے اتحادی کی تلاش میں ہے اور پاکستان سے دفاعی تعلقات استوار کرنا کیا نئے تعلقات کی شروعات ہیں؟ہندو پاک کے درمیان ہفتہ بھر سے جا ری کشید گی کے درمیان روس کی کار کردگی کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا ہے۔ایک طرف وہ ہندوستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان سے پینگیں لڑانے کو بھی موجودہ عالمی کش مکش کے درمیان اپنے لئے ضروری سمجھتا ہے۔آپ خلیجی جنگ کے بعد دوملکوں کے درمیان استوار ہونے والے تعلقات اور رشتوں پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ دنیا کا کوئی بھی ملک نہ کسی مستقل دوست ہوسکتا ہے اور نہ کسی کا ازلی دشمن ہوسکتا ہے ۔مملکتوں کے درمیان تعلقات کی سوئی اپنے اپنے مفادات کے حصول کے مطابق چلتی رہتی ہے اور مقصد پورا ہوتے ہی ساری دوستی اور تعلقات ختم ہوجاتے ہیں اور دودوست ملک پلک جھپکتے ہی ایک دوسر ے کیلئے اجنبی بن کر رہ جاتے ہیں۔
’’ماضی میں پاکستان امریکہ اور مغربی ممالک کے قریب رہا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف امریکہ کی جنگ میں اہم کردار ادا کرنے کے بعد پاکستان اور روس کے درمیان رشتے بھی ماسکو کے سخت موسم کی مانند سرد رہے، لیکن وقت بدلتے ہی پا کستان وروس کے درمیان حائل مخالفت کی برف پگھلنے لگی۔‘‘

اس کی بھی ایک اہم وجہ ہے جسے روس کی سفارتی مجبوری سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔سیریا کی خانہ جنگی میں اس وقت روس بشار الاسد جیسے درندے کا دست راست بنا ہوا ہے،ایسے میں دیگر ملکوں سے اس کے تعلقات میں تلخی پیدا ہونا بعید ازقیاس نہیں ہے ۔افغانستان تو ابتدا سے ہی روس کا مخالف رہا ہے۔لہذا اس کیلئے ضروری تھا کہ وہ کسی ایسے مسلم ملک کو اپنے ساتھ کرنے کی کوشش کرے جس کی عسکری طاقت مسلم ملکوں میں اہمیت رکھتی ہو۔اس لحاظ سے تین ملک ایسے تھے ،جس کے ساتھ روس کو رشتے گانٹھنے تھے۔سب سے پہلے ترکی جس کی طرف ولادیمیر پوتن نے ہاتھ بھی بڑھا یا تھا ۔مگر ان کی شاطرانہ چال پر صدر رجب طیب ارگان نے بھروسہ نہیں کیا۔اب دومسلم ملک ہی ایسے رہ جاتے تھے ،جن کی جنگی قوت کسی حدتک قابل توجہ تھی۔ اس میں سے ایک ایران ہے اور دوسرا پاکستان۔شام میں اسد شیطان کی حمایت کے نتیجے میں روس ایران کا محبوب پہلے ہی بن چکاتھا ۔اب روس کو ضرورت تھی کہ کسی طرح پاکستان کو اپنے قریب لایا جائے۔چناں چہ اسی پالیسی کے تحت اس وقت روس اور پاکستان کے درمیان جگل بندیاں ہو رہی ہیں۔

مذکورہ بالا صورت حال میں ہندوستان کواپنے مسائل خود حل کرنے کی صلاحیت دنیاکے سامنے پیش کرنی تھی۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ عالمی فورم بالخصوص اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہم اپنی دھاک بٹھا سکتے تھے۔مگراے!بسا آ رزو کہ خاک شدہ۔
موجودہ حالات میں امریکہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ،جو ہمیشہ اپنی دوغلی پالیسی کی وجہ سے ناقا بل اعتماد رہا ہے،بھوپال گیس سانحہ کا کلیدی مجرم اب بھی اس کی پناہ میں ہے ،جس نے ہمارے کئی ہزار بے گنا ہ شہریوں کی زندگی تبا کردی تھی۔مگر ہمارے بار بار کے مطالبے کو امریکہ ہمیشہ نظر انداز کرتا رہا۔ہم اس سے مستقل یہ شکایت کرتے رہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر آپ ڈالرکی شکل میں پاکستان کو جو اقتصادی مدد دے رہے ہیں ،پاکستان اس کا صحیح استعمال نہیں کررہا ہے،بلکہ دہشت گردی کے خاتمہ کی بجائے پاکستان امریکہ کی امدادی رقم کو دہشت گردی کے فروغ میں صرف کررہا ہے۔ مگرہندوستان کی تشویش کو امریکہ نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا،بلکہ وہ ہمارے مطالبے کو ہمیشہ پایے حقارت سے ٹھکراتا رہا۔اس وقت کا پس منظر یہ ہے کہ ’’ امریکہ جنوبی ایشیاء میں ایک نئی سرد جنگ کی کوشش کر رہا ہے۔ انڈیا کی جنگ چین کے خلاف اور امریکہ کی جنگ یورپ میں روس کے خلاف ہے اور سفارتکاری کے لحاظ سے اس سرد جنگ کا مقابلہ اقتصادی تعلقات اور تعاون بہتر کر کے کیا جا سکتا ہے۔امریکہ اور روس کی موجودہ نقل حرکت بتارہی ہے کہ دونوں ظاہری حریف نے بباطن متحد ہوکر ہمارے خطہ میں سرد جنگ چھیڑ دی ہے۔جس کا نوالہ بہر حال ہندوستان اور پاکستا کے بے گناہ عوام کوہی بننا پڑے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وزیر اعظم کی یہ بات یقیناً قابل تائید ہے کہ پاکستان کو دنیامیں یکا وتنہا کردینا چاہئے، کشمیر کے اوڑی قصبے میں فوج کے بریگیڈ کیمپ پر ہونے والے حملے کے بعدکیرالہ کے قاضی کوڈ میں وزیراعظم کا یہ پہلا عوامی خطاب تھا جس میں انھوں نے اس حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے 18 جوانوں کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کو پوری دنیا میں الگ تھلگ کرنے میں ہندوستان کامیاب رہے گا اور وہ یہ کام مزید تیزی سے کریں گے۔مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ ہمیں دوسروں کی یقین دہانیوں پر خوش ہونے کی بجائے اپنے قوت بازو پر زیادہ بھروسہ کرنا چاہئے۔اس لئے کہ عالمی منظرنامہ اس وقت کارگل جنگ کے جیسا نہیں رہ گیا ہے۔اس وقت دنیا کے سبھی ممالک اپنے اپنے مفادات کی ڈپلومیسی تک محدود ہیں،البتہ انسانیت اورمظلومیت کے ساتھ صحیح ہمدردی کسی کے پاس نہیں ہے اور نہ انصاف کی آنکھ میں روشنی باقی رہ گئی ہے۔کہیں ایسا نہ ہوکہ ہماری جلد بازی سے دوسرے فائدہ اٹھالیں اورہمارے پاس کف افسوس ملنے کے سوا کوئی سرمایہ ہی نہیں بچے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply