حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا ۔۔

کہتے ہیں کہ تلوار سے لگی چوٹ ختم ہو جاتی ہے لیکن الفاظ کا زخم انسان بھول نہیں پاتا۔۔ یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ بڑے سے بڑا حادثہ اور اور سانحہ بہ چشم دیکھ کر کچھ عرصہ اس کا ماتم اور سوگ مناتا ہے۔ پھر ذندگی کی الجھنوں کے ساتھ ساتھ اس کی تھوڑی بہت یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ لیکن جس وقت ملکی سطح پر حادثہ یا سانحہ رو نما ہوتا ہے اس وقت اکثر امید یہی کی جاتی ہے شاید اس غم میں تمام اہلیان وطن تمام اختلافات کے باوجود برابر کے شریک ہوں گے۔ میرے بھی ذاتی جزبات یہی ہیں۔ گزشتہ دنوں چترال سے اسلام آباد جانے والی پی آئی اے کی پرواز گر کر تباہ ہو گئی ۔پاکستان کی تاریخ میں 1965 سے لیکر اج تک یہ چوتھا فضائی حادثہ ہے اور اب تک 560 افراد ذندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ جہاں تک گزشتہ حادثے کا تعلق ہے تو اس کے نتیجے میں جن معروف نعت خوان اور مذہبی سکالر جنید جمشید اور ان کی اہلیہ، ڈپتی کمشنر چترال اسامہ وڑایچ اور ان کی فیلمی ، 3 غیر ملکی اور 6 عملے کے ارکان سمیت 48 افراد شہید ہو گئے۔ ان شہداء میں 17 کا تعلق چترال سے ہے۔
وہ شعلہ رو ہے سوار توسن اور اس کا توسن عرق فشان ہے
عجب ہے اک سیر دوپہر سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

جہاں پوری اس غم اور افسوس کا اظہار کر رہی ہے وہاں کچھ لوگ صف ماتم میں خوشیاں بھی مناتے ہیں۔ لیکن حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ طیارے کی گمشدگی سے لے کر اس کے گر کر تباہ ہونے کی تصدیق تک کی خبر اور خاص کر جنید جمشید کی شہادت کی خبر میڈیا چینلز کی زینت بنتی رہی۔ جمشید پاپ سنگر سے مذہبی اسکالر تک ہر جگہ کامیاب رہے لیکن افسوس کا عالم یہ ہے جس شخص نے خود موسیقی کی دنیا کو اس کی تمام تر رنگینیوں اور الائشوں سمت خیرباد کہ کر مذہبی رنگ میں رنگ بھرنے اور انحضرت ﷺ کی شان اقدس میں نعت خوانی اور اسلام کی اشاعت کے لئے اپنی ذندگی کو وقف کرنے کا فیصلہ کیا تھا آج میڈیا ان کی شہادت کے بعد ان کی شخصیت ایک نعت خوان۔ ایک داغی دین، ایک مبلغ اور ایک مذہبی سکالر کی حیثیت سے پیش کرنےکی بجائےایک فنکار اور موسیقار کی روپ میں پیش کر دی۔
جنید نے دنیا بھر میں کنسرٹ کئے اور لازوال شہرت حاصل کی مگر 2000ء کے آتے آتے ان کی سوچ بدلنے لگی۔ یہ سوچ کا ہی نتیجہ تھا کہ انہوں نے پہلے تصوف کا رنگ اختیار کیا اور پھر رفتہ رفتہ پاپ موسیقی سے دور ہوتے چلے گئے۔ نئی صدی کے ابتدائی سالوں میں ہی انہوں نے یکدم موسیقی کو چھوڑ کر نعت خوانی شروع کردی۔ یہاں تک کہ انہوں نے کلین شیو کی بجائے داڑھی رکھ لی۔ وہ اسلام کی تبلغ کی جانب مائل ہو گئےاور تبلیغی جماعت کے رکن بن کر ملک کے کونے کونے اور پوری دنیا میں جاکر تبلیغ کرنے لگے۔
یہی نہیں بلکہ انہوں نے دانشور کی حیثیت سے جگہ جگہ لیکچرز دینا شروع کر دیئے۔ اسلامی تعلیمات کی ترویج میں لگ گئے اور ٹی وی پر نعت خوانی کے ساتھ ساتھ منقبت، ثنا اور قصیدہ بردہ شریف پڑھنے لگے۔ وہ ٹی وی پر مذہبی پروگرامز کی میزبانی بھی کرتے رہے جبکہ رمضان المبارک اور دیگر دینی تہواروں اور مواقعوں پر وہ پوری پوری ٹرانسمیشن خود کرتے تھے ۔ زندگی کے آخری دس ،پندرہ سال انہوں نے اسلامی مبلغ اور مذہبی دانشور کے طور پر گزارے۔سال انہوں نے اسلامی مبلغ اور مذہبی دانشور کے طور پر گذارے۔ اور یہ وجہ ہے کہ اپ اپنا اخری سفر بھی اشاعت دین ہی کے مقصد لو لے کر چترال گئے تھے ۔
انسانی عقل یہ تقاضا کرتی ہے کہ ایک
جمشید کے حوالے سے زیادہ دکھی اور غمگین ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ میں کسی خاص فرقے کی بات کر رہا ہوں یا جنید جمشید کے ساتھ میرا کو ذاتی تعلق رہا ہے۔ یا باقی شہداء کے اور ان کے لواحقین کے ساتھ ہماری ہمدردیاں نہیں ہیں۔ بندے کا ذاتی تعلق بھی چترال سے ہے اور سارے شدعاء میرے اپنے ہیں۔ ان سب کے غم میں ہم سب برابر کے شریک ہیں ۔جنید جنید جمشید کے حوالے سے زیادہ رنجیدہ ان کے دین کے ساتھ زیادہ قرب اور اسلام کی اشاعت کے حوالے ان کی خدمات اور موسیقی کی دینا سے نعت خوانی اور مبلغ تک کے سفر میں ان کو اول روز سے پیش آنے والے مسائل اور ان کے صبر و استقامت کی وجہ سے ہے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جو اللہ اور اسکے رسول ﷺسے محبت کرے گا اللہ تعالی لوگوں کے دلوں میں اسکی محبت ڈال دیں گے، اور یہی محبت اللہ تعالی نے جنید جمشید کے حوالے سے لوگوں کے دلوں میں ڈال دی ہے۔
سوشیل میڈیا بالخصوص فیس کی دنیا میں جنید جمشید کے مخالفین اور حامیوں کی ایک جنگ چھڑ چکی ہے جہاں تک ان کی مخالفین کا تعلق ہے وہ تو ان کی ذندگی ہی میں ان کے خلاف بیان دینے میں کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔یہاں تک ان کو ایک مرتبہ ائیرپورٹ پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ بحیثیت انسان ان سے بھی غلطی ہو ئی ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے انہوں نے اپنی غلطی کا سرعام اقرار کرتے ہوئے انسانوں اور اپنے رب سے معافی بھی مانگ لی تھی۔ اب یہ ان کا اور اللہ کا معاملہ ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ کم از کم مشکل اور مصیبت کی اس گھڑی میں فرقہ ورانہ اختلافات کو پس پشت ڈال ایک دوسرے کا ہمدرد اور غم خوار بنے۔
یہاں پر ڈپنی کمشنر اسامہ وڑایچ کا تزکرہ ضرور کرنا چاہوں گا ۔ ان کا تبادلہ نومبر 2015 میں چترال میں ہوا تھا۔ انہوں سے چترال کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ قابل قدر خدمات سرانجام دی جس کی مثال چترال کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔اہلیاں چترال ان کی خدمات کو حراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے تجاوزات کے خلاف بلاخوف کاروائی کی جس کے نتیجے میں عوام میں ان کو خوب پزیرائی ملی۔ اگرچہ ان کا ذاتی تعلق سرگودھا پنجاب سے تھا لیکن اج بھی ان کو فرزند چترال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

Facebook Comments

عبدالحلیم شرر
اک سنگ بدنما ہے بظاہر میرا تعارف ۔۔ کوئی تراش لے تو بڑے کام کا ہوں میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply