ہم اہل زباں۔۔۔فرحین جمال

کہنے کو تو ہم اہل زبا ں ہیں مگر یہ بالشت بھر کا گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جو تالو اور منہ کے اندر قدرت نے چسپاں کر دیا اور صرف اس کا وہی حصہ ہل سکتا ہے جو باہر تک نکالا جا سکتا ہے لیکن یہ زبان ہی ہے جو ایسے ایسے معرکے سر انجام دے سکتی ہیں جن کی توقع کسی ماہر شمشیر زن سے بھی نہیں کی جا سکتی ،یہ چند انچ کا گوشت کا ٹکڑا ایٹم بم سے زیادہ تابکار ہو سکتا ہے ۔ دنیا میں جتنی جنگیں آج تک لڑی گئی ہیں اور ملک تخت و تاراج ہوۓ ،اسی کے مرہون منت ہیں ۔ بس ذرا سی زبان ہلانے کی دیر ہے ۔ زبان ہلانے پر یاد آیا کہ انسان کی زبان کسی خاص وجہ سے بتیس دانتوں کی پاس داری میں رکھی گئی ہے ۔ورنہ یہ وقت بے وقت منہ سے نکل پڑتی اور دنیا تباہی کے دھانے پر تو ویسے ہی کھڑی ہے بالکل ہی نسیت و نابود ہو جاتی ۔! ان بتیس پہرہ داروں کے ہوتے ہوے بھی اکثر یہ پھسل پڑتی ہے اور زبان کا پھسلنا ،کیلے کے چھلکے پر سے آپ کے پاؤں کے رپٹ جانے کے مترادف نہیں جس میں آپ کی ایک آدھ ہڈی ،پسلی ٹوٹ جاتی ہے بلکہ اس کا پھسلنا دوسروں کی ہڈی پسلی ایک کرنا ہوتا ہے ۔۔یہ زبان کا چسکا ہی تھا جس نے حضرت انسان کو جنت سے زمین کی راہ دکھائی ۔ یاد آیا کہ مینڈک اور انسانی زبان میں صرف یہ ہی فرق ہے کہ اس کی زبان آگے تالو سے چپکی ہوئی ہے اسلئے بیچارہ صرف ” ٹرر ا ‘ کر رہ جاتا ہے ،ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ زبان کو منہ سے باہر پھینک کر دور سے اپنا شکار کر لیتا ہے ،اور شکار بھی بیچارہ زبان سے چپک کر رہ جاتا ہے ،لیکن انسان اس سلسلے میں خود کفیل ہے کہ نا صرف وہ اسے ہلا سکتا ہے بلکہ میلوں دور بیٹھے دشمن پر کاری ضرب بھی لگا سکتا ہے ۔

اللہ جھوٹ نا بلوا ۓ ( کہ اللہ  کیوں جھوٹ بلوا ۓ گا ؟) ہماری والدہ مرحومہ کو زندگی بھر یہ شکایت رہی کہ “ہماری زبان قینچی کی طرح چلتی ہے ” لو بتاؤ قینچی کب چل سکتی ہے ،یہ محاورے بھی نا کبھی کبھی بے محل ہی ہوتے ہیں قینچی تو کاٹتی ہے ۔ چلتی تو زبان ہے وہ بھی منہ کے اندر ۔لیجیئے ہم پھر خاندانی حوالوں میں پھنس گئے ۔بات ہو رہی تھی زبان کی ،کبھی کبھی یہ دانتوں تلے بھی آ جاتی ہے اور اس وقت کا حال نا پوچھ اے دوست ،کیا حال ہوتا ہے اپنے ہاتھوں ہی ۔۔میرا مطلب ہے اپنے دانتوں ہی زبان کاٹ بیٹھتے ہیں ۔۔ تب یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ یہ کیا کر دیا ،؟، اب اس سوجی ہوئی زبان کو کیسے ہلائیں گئے ۔۔ مگر ہمت مرداں مدد خدا ۔۔
کوئی خاص نقصان بھی نہیں اٹھانا پڑا بس چند دن پڑوسن کی بد خوئی نہیں ہو سکتی ،ساس اور نند کو جلی کٹی نہیں سنا سکتے اور فون پر سہیلیوں سے غیبت جیسے قبیح فعل سے باز رہتے ہیں اور میاں جی بھی کانوں کو آرام ملنے پر فرحاں و شاداں ۔۔ کوئی کہنے والی جو نہیں ہوتی “اے جی سنتے ہو ” جیسے وہ قوت گویائی کے ساتھ ساتھ حس سماعت سے بھی محروم ہیں ۔

ایک مرتبہ ہماری ایک ملنے والی نے زبان پکا کر ہمارے گھر بھیج دی ۔”۔ ا جی ۔ مری ہوئی گاۓ کی زبان ” اپنی نہیں ۔۔ لیجیئے جناب ہم نے بھی خوب چٹخارے لے لے کر سالن کھایا اور اگلے دن جا کر بہت محبت سے پوچھا کہ ” آنٹی آپ نے کس جانور کا گوشت پکا کر بھیجا تھا،بہت ہی ذائقے دار تھا ( وہ ایک معنی خیز ہنسی ) سے گویا ہوئیں
” اچھا ! وہ تو زبان تھی ” ہم حواس باختہ ہو کر ان کے منہ کی طرف دیکھنے لگے کہ یا اللہ اگر زبان پکا ڈالی تو بول کس طرح رہی ہیں ‘ ہماری پریشانی بھانپ کر بولیں “بھئی گاۓ کی زبان تھی ‘ بیچاری بے زبان گاۓ اپنی زبان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی ۔ تب ہم پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوئی کہ “گاؤدی ‘ کسے کہتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

‘ دل کے ارمان کیسے زبا ں تک پہنچے “۔یہ نغمہ اکثر محبت کے ماروں کو گاتے اور گنگناتے سنا ہے ،اور وہ بیچارے اسی غم میں گھل گھل کر کانٹا ہو ۓ جاتے ہیں کہ کوئی ان کی بات محبوب تک پہنچا دے ،اور پھر دیکھیئے اسی خواهش کی تکمیل کیسے ڈرامائی انداز سے ہوتی ہے کہ کسی دن وہ اپنے ارمانوں کی ترسیل کے لئے اپنے محبوب کے ساتھ کسی خوبصورت گوشہ عافیت میں بیٹھے لہک لکھ کر یہ گیت گا رہے ہوتے ہیں کہ لڑکی کا کوئی چچا ،ماموں ،بھائی یا محلے کا دل جلا ان کو دیکھ لیتا ہے اور پھر بات ہونٹوں نکلی اور کوٹھوں چڑھی ۔ لڑکی بیچاری عجلت میں کسی کھونٹے سے باندھ دی جاتی ہے بے زبان گاۓ کی مانند ۔
اے لو آپ یہ کہیں گے کہ ہماری “گز بھر لمبی’ زبان ہے جو رکتی ہی نہیں ،ایسی بات نہیں ہے ،زبانی جمع خرچ کے معاملے میں ہمارے سیاستدان حد سے زیادہ شاہ خرچ ہیں
ایسی ایسی تاویلیں، تجاویز ،بہانے اور رپورٹ پیش کرتے رہتے ہیں کہ کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ،شاید ان کے بارے میں ہی کہا گیا ہے زبان دراز ؟؟ دن را اپنے مخالف کی تعریفوں میں اس قدر مرصع و مسجع زبان میں لن ترانیاں کرتے رہتے ہیں کہ ان کو سن کر بہت سے الفاظ نئے معنی پہن لیتے ہیں ۔ان جیسے زبان دراز کہیں بھی نہیں دیکھے ۔ الفاظ کو بے لباس کرنے میں ماہر ، اپنی زبان سے پھر جانا شاید ان کی گھٹی میں ہے ۔ سوچتی ہوں اگر شاہانہ دور حکومت ہوتا تو بادشاہ وقت ایسوں کی زبانیں گدی سے کھینچوا دیتا ۔ پھر ان زبانوں کو سرے عام عبرت کے لئے لٹکایا جاتا ۔ رعایا جوق در جوق دیدار کے لئے آتی ۔
مگر کیا کروں کہ اس ملک میں جمہوریت ہے اور عوامی لیڈرز کو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔اور عوام بیچاری یہ ہی رونا روتی نظر آتی ہے کہ ” ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں ۔۔کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے ؟؟ “

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply