میں خدا کو نہیں مانتا۔۔۔علی اختر/ قسط 7

استنبول میں واقع حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار پر پہلی بار میں علی بخش کے ساتھ گیا ۔ اسکا کہنا تھا کہ  جب کبھی دل پریشان ہو تو اس جگہ آکر کچھ وقت گزارا کرو ۔ قلبی سکون کااحساس ہوتا ہے ۔ عجیب جگہ تھی ۔ میں نے استنبول میں قیام کے دوران اس جگہ انگنت بار چکر لگایا ۔ رات ہو یا دن کبھی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلے نہیں پایا ۔ ہمیشہ لائن لگا کر ہی مزار مبارک پر فاتحہ خوانی کی ۔ اسی شہر میں ترکوں کے بڑے بڑے سلطان، جنرل ، وزیر وغیرہ کی بھی قبریں موجود ہیں لیکن وہاں جب کبھی جانے کا اتفاق ہوا خود کو اور صاحب مزار کو تنہا ہی پایا ۔

حضرت ابو ایوب انصاری کا مزار پاکستان کے مزارات سے بہت مختلف ہے ۔ داخلی راستہ جس پر جابجا خوبصورت دکانیں موجود ہیں پھر داخلی دروازہ جس پر ترکی کا بڑا سا پرچم لٹکا ہوتا ہے ۔ ایک صحن جسمیں صدیوں پرانا ایک درخت لگا ہے ۔ داہنی جانب ایک کمرہ جہاں جالیوں کے پیچھے قبر مبارک ہے اور سامنے زائرین کے کھڑے ہونے کی جگہ اور پھر اگلے دروازہ سے باہر نکلنے کی جگہ ۔ ساتھ ہی ایک بہت ہی خوبصورت مسجد بھی ہے ۔ مزار سے باہر نکلیں تو ترک نو بیاہتے  جوڑےعروسی لباس میں مزار پر حاضری دینے کے لیئے موجود ہوتے ہیں ۔ چھوٹے بچے شہزادوں کے لباس پہنے ہاتھ میں مٹھائی  کا ڈبہ لیے کھڑے ہوتے ہیں جس میں سے زائرین ایک ایک ٹکڑا اٹھاتے جاتے ہیں اور انکے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر کے دعا بھی دیتے جاتے ہیں ۔ مزار کے ساتھ واقع پہاڑی پر ایک صدیوں پرانا قبرستان بھی ہے جہاں پہنچنے کے لیے پہاڑ کی چڑہائی  پر موجود راستے سے پہنچنا پڑتا ہے اور اوپر چائے وغیرہ کا ایک چھوٹا سا ہوٹل بھی ہے ۔ یہ سارا علاقہ “ایوان سرائےایوب  سلطان’ کہلاتا ہے ۔ میں نے ایک بات نوٹ کی کہ  وہاں موجود مردوں کی اکثریت باریش اور ٹریڈیشنل ترک لباس میں تھی ۔ سروں پر عمامہ یا ٹوپیاں موجود تھیں ۔ عورتوں کی اکثریت بھی باپردہ تھی ۔ یہ ترکی کے اسلامسٹ اور اسلام پر عمل کرنے کے لیے سب سے جڑا وقت دیکھنے والے لوگ تھے جسکی تفصیل آگے آئے گی ۔

یہ میرا معمول بن گیا کہ اکثر میٹرو بس کے ذریعے اس مزار پر حاضری دیتا ۔ دعا کرتا ۔ گھر سے دوری کی وجہ سے ہونے والی ہوم سکنس وغیرہ سب زائل ہو جاتی ۔ قلبی سکون ملتا ۔ پھر کچھ دیر وہاں گزار کر واپس آجاتا۔ ایسے ہی ایک دن عصر کے بعد میں وہاں ایک ہوٹل   کےسامنے بچھی کرسی پر بیٹھا ترکش چائے پی رہا تھا کہ  سامنے والی کرسی پر ٹوپی اور سیاہ ترک لباس میں ملبوس ایک بھاری بھرکم ترک کب آکر بیٹھ گیا مجھے پتا ہی نہیں چلا ۔ موبائل سے سر اوپر اٹھایا تو وہ گھنی داڑھی کے ساتھ موٹی موٹی آنکھوں سے مجھے گھور رہا تھا ۔ مجھ سے نظر چار ہوتے ہی اس نے گرجدار آواز میں سلام کیا ۔ ” “وعلیکم السلام” میں نے جواب دیا ۔ “کہاں سے ہو ” “پاکستان سے” ۔ سنتے ہی اسکے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ “کتنا عرصہ ہوا یہاں ” ۔ “یہی کوئی  تین چار ماہ ” “اتنے سے عرصہ میں کوئی  ترکی کیسے سیکھ سکتا ہے ۔ ہماری زبان مشکل ہے بہت ” اس نے حیرت کا اظہار کیا ۔ جواب میں میں نے اپنا پاسپورٹ دکھایا جس پر ترکی آنے کی تاریخ درج تھی ۔ “تو علی نام ہے تمہارا ” ،”جی ” “میرا نام اورہان ہے” اس  نے گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اور ویٹر کو بسکٹ لانے کا آرڈر دیا ۔

“یہاں کیا کر رہے ہو ” ” کچھ نہیں بس فاتحہ پڑھنے آیا تھا ” “عربی جانتے ہو ” “پڑھ  سکتا ہوں لیکن معانی نہیں جانتا ” “پڑھ  تو سکتے ہو نا ” وہ خوش ہو گیا ۔ “ہاں صرف عربی ہی نہیں بلکہ ترکی کی پرانی تحاریر بھی پڑھ سکتا ہوں جو آپ لوگ خود نہیں پڑھ  سکتے ” جیسے وہ سامنے “استنبول پولیس مرکزی لکھا ہے ” میں نے سامنے عثمانی دور کی عمارت پر کندہ اردو و فارسی طرز کے اسکرپٹ میں لکھی تحریر پڑھ  کر دکھائی ۔ یہ طرز تحریر کمال اتاترک کے دور میں متروک کر کے لیٹن طرز تحریر اپنایا گیا اور آج اسے پڑھنے والے ترک شاذ ہی موجود ہیں ۔ میں نے بتایا کہ  اسکے علاوہ میں انگریزی بھی جانتا ہوں اور سب سے بڑھ  کر میری مادری زبان ان ساری زبانوں میں سے کوئی  نہیں بلکہ اردو ہے ۔ میں نے اندازہ لگایا کہ  وہ مجھ سے ملکر حیرت کا شکار ہوا ہے ۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ  ایک ہوٹل پر چائے پیتے اسے اتنا باکمال انسان مل جائے گا ۔ اب اسے کیا پتا تھا کہ  ایسے باکمال لوگوں سے پاکستان بھرا ہوا ہے ۔ میں بھی اسکی حیرت اور دلچسپی سے لطف اندوز ہوتا رہا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

“اورہان” استنبول کے علاقے “فاتح” کا رہائشی تھا ۔ ایک جنرل اسٹور چلاتا تھا اور مدرسہ سے پڑھا ہوا تھا ۔ نمبرز کا تبادلہ ہوا ۔ اس نے مجھ سے فاتح کا علاقہ دیکھنے اور اس سے ملنے کا وعدہ لیا ۔ چائے کا بل بھی اسی نے ادا کیا اور مجھے دعائیں دے کر رخصت کیا ۔ (جاری ہے )

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply