خودکش بمبار بنام ماں۔۔ واجد محمود خٹک

اسلام علیکم!

پیاری ماں آج آپ بہت یاد آ رہی ہیں۔ قاری صاحب سے اجازت لے کر آپ کو خط لکھ رہا ہوں۔میں یہاں خیریت سے ہوں اور قاری صاحب کے ساتھ بہت خوش ہوں۔ ہمارے قاری صاحب اور ان کے استاد مولانا صاحب بہت اچھے انسان ہیں۔ بڑے اللہ والے لوگ ہیں۔ پکے مسلمان ہیں اور شریعت کے نہایت پابند۔

پرسوں میری تربیت پوری ہو گئی ہے اور قاری صاحب نے فرمایا ہے کہ کچھ دن بعد ہی مجھ کو منزل پر پہنچایا جائے گا۔ میں نے اصرار کیا کہ ایک بار آپ سے ملنا چاہتا ہوں، مگر قاری صاحب نے فرمایا کہ اس سے اللہ ناراض ہو جائیں گے۔اس نے بتایا کہ پچھلے دنوں جو لڑکا اپنی ماں سے ملنے گیا تھا وہ واپس نہیں آ رہا۔کیونکہ اس سے اس کا رب ناراض ہو گیا ہے اور وہ کامیابی کے راستے سے ہٹ گیا ہے۔ ماں آپ کو تو معلوم ہے کہ جس سے رب ناراض ہو جائے، وہ اس کو اپنے راستے سے ہٹاکر غیروں کے راستے پہ لگا دیتا ہے۔ پیاری ماں آپ کو پتا ہے کہ میں آپ سے کتنی محبت کرتا ہوں مگر اپنے رب کو ناراض نہیں کر سکتا۔اس لئے آپ سے ملنے اور آخری بار آپ کو دیکھنے نہیں آ سکوں گا۔

ماں مجھے اجازت دو کہ میں آپ سے بہت دور جا رہا ہوں۔میں اپنے دین کی سربلندی کے لئے قربان ہونے جا رہا ہوں۔ وہ دین جس کے لئے سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے تکلیف اٹھائی اور کتنے ہی جلیل القدر صحابہ کرام شہید کر دئیے گئے تھے،  آج اس دین پر سخت وقت آگیا ہے۔مجھے اجازت دو کہ اس نیک مقصد کے لئے اپنا خون بہا دوں، اپنی جان قربان کر دوں، اور ان بے غیرتوں اور منافقوں کو انجام تک پہنچا دوں جو اس دین کے نام پر کالے دھبے ہیں۔

ماں آپ کے لئے خوشخبری یہ ہے کہ مولانا صاحب نے اپنے ذاتی دستخط سے مجھے جنت کا سرٹیفیکٹ جاری کر دیا ہے۔اور قاری صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ اس سرٹیفیکٹ کے ساتھ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ میرے خاندان کے ستر افراد کو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل فرمائیں گے۔ماں آپ دل چھوٹا نہ کیجئے گا۔ ہم سب جنت میں ساتھ ہونگے۔

پیاری ماں آپ کو پتا ہے جنت کیسی ہوگی؟ پرسو قاری صاحب نے جنت کے قصے سنا کر میری آنکھیں کھول دی۔آپ کو معلوم ہے کہ جنت میں گھنے اور سایہ دار درخت ہونگے۔ وہ اتنے بڑے ہونگے کہ ایک سوار بہت تیز گھوڑا دوڑا کر بھی پانچ سو سال تک ایک درخت کے سایے کو ختم نہیں کر سکے گا۔آپ نے تو پرلے گاؤں کے خان کا باغ دیکھا ہوا ہے نا؟اس باغ سے ہزارو گنا بڑے بڑے باغ ہم شہیدوں کو ملیں گے۔آپ کو یاد ہے جب ایک دن میں نے خان کے باغ سے انار توڑا تھا تو اس کے مالی نے میرے کپڑے نکال کر مجھے بہت مارا تھا۔اماں جان وہاں کوئی کسی کو مارے گا نہیں۔

اماں جان آپ کی طرح میری بھی بہت خواہش تھی کہ میں کسی سکول میں پڑھوں۔ پر وہ دن آپ کو یاد ہے جب ماسٹر صاحب نے یہ کہ کر مجھے سکول سے نکال دیا تھا کہ تیرے کپڑے پھٹے پرانے ہیں اور تیرے پاس جوتے بھی نہیں۔ نہ تو تیرے پاس کتابیں ہیں اور نہ ہی کوئی نوٹ بک۔ اس دن میرا رونا تو آپ کو یاد ہوگا نا؟ میں نے قاری صاحب کو یہ سب باتیں بتائی ہیں۔ قاری صاحب نے فرمایا کہ اچھا کیا جو ماسٹر نے نکال دیا۔یہ طاغوتی علوم بندے کو کافر بناتے ہیں اور یہ جتنے بھی وہاں پڑھتے ہیں سب واجب القتل ہیں کیونکہ یہ یہود و نصٰریٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں۔اس نے فرمایا کہ اگر تجھے پڑھنے کا شوق ہے تو جنت جانے کی تیاری کرو۔ وہاں تم کو پڑھانے والے کوئی بے علم اور جاہل استاد نہیں ہونگے بلکہ اللہ کی نورانی مخلوق یعنی فرشتے ہونگے۔اماں جان میں وہاں جا کر خوب دل لگا کر پڑھونگا۔

میں نے قاری صاحب کو باجی کی شادی کی کہانی بھی سنائی ہے۔میں نے اس کو اس دن کے بارے میں بتایا جب گاؤں کے خان اپنے چمکیلی موٹر میں ہمارے گھر آئے تھے۔ہمارے لئے کتنے مزے کے کھانے لائے تھے۔باجی بھی اس دن کتنی خوش تھی۔ ہم سب نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا تھا۔پر آپ کو میری اور باجی کی چیخیں شاید اب بھی یاد ہو جب خان کے بندوں نے زبردستی باجی کو اپنی گاڈی میں بٹھایا۔ مجھے یاد ہے آپ بھی پوری رات چھپ چھپ کر رو رہی تھی۔

میں نے قاری صاحب کو تیری اس دن کے چیخوں کے متعلق بھی بتایا جب خان اور اس کے سہولت کاروں نے باجی کو تیری آنکھوں کے سامنے زندہ جلایا تھا۔ ہم اس دن کتنا تڑپے تھے۔آپ نے خان کے بندوں کی کتنے منتیں کی تھی۔ مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔پھر اگلے دن جب پولیس والے ہمارے گھر آئے تو انہوں نے ہمیں کتنا ڈرایا اور دھمکایا۔ میں نے قاری صاحب کو یہ بھی بتایا کہ ہم خان پر مقدمہ کرنے کے لئے کچہری گئے تھے اور کالے کوٹوں والے وکیل حضرات کتنے زیادہ پیسے مانگ رہے تھے۔پھر پتا نہیں کیسے وہ ٹائی والے وکیل ماموں ہمارہ کیس کرنے کے لئے تیار ہو گئے لیکن اس کے باوجود بھی ہم کیس ہار گئے۔ وہ خالہ زاد کہ رہا تھا کہ خان نے جج کو پیسے دئیے ہیں۔ مجھے حقیقت کا پتا نہیں ماں،، کیا یہ سچ ہے؟

 قاری صاحب فرماتے ہیں کہ یہ لوگ یہاں انصاف کے لئے نہیں بیٹھے بلکہ اپنی پیٹ پوجا کے لئے بیٹھے ہیں۔ ان کو برحق اور ناحق کی کوئی تمیز نہیں۔ گناہگار اور بے گناہ کے بکھیڑوں میں یہ نہیں پڑتے، ان کو بس پیسے کی فکر ہوتی ہے۔جو کوئی زیادہ پیسہ خرچ کرے گا اچھا انصاف پائے گا۔ تم اپنی باجی کے لئے انصاف نہیں خرید سکے کونکہ تمہارے پاس پیسے نہیں تھے۔

اماں جان قاری صاحب مجھے اپنا بیٹا مانتے ہیں۔کہتے ہیں کہ کیا ہوا اگر تیرے بابا نہیں ہیں۔ میں تیرے بابا جیسا ہوں۔وہ مجھے بہت تسلی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان سب باتوں کا بدلہ ان لوگوں سے لیا جائے گا۔تم اس بارے میں نا سوچو، صرف اپنی جنت کے بارے میں سوچو۔ اس نے کہا کہ جیسے ہی شہادت کا رتبہ پاؤ گے، خود کو جنت میں  پاؤ گے۔وہ جنت جہاں بڑی بڑی سیاہ آنکھوں والی، لمبے لمبے گھنے سیاہ بالوں والی، روئی سے نرم و نازک جلد والی،دودھ سے سفید اور ملائم کہ جب پانے پئے تو گلے میں نظر آئے، کنواری پاک حسینائیں اور وہ بھی ایک دو نہیں درجنوں خدمت گزاری اور راحت و سکون کے لئے موجود ہونگی۔وہ جنت جہاں پہ شہد، دودھ اور شراب کی نہریں ہونگی۔ جہاں پہ گھنے اور سایہ دار باغ ہیں اور ہر طرح کے پھل اور میوہ جات ہیں۔

پیاری ماں مجھ سے اب مزید انتظار نہیں کیا جاتا۔ ایک مرتبہ سکول والے ماسٹر جی نے کہا تھا ک کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اپنی ماں سے اجازت ضرور لینا۔ پس ماں میں آپ سے اپنا آپ قربان کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ میری ماں مجھے اجازت دیجیئے کہ اپنی جنت میں پہنچ جاؤں۔ اپنی نہروں میں گھوموں پھروں، اور اپنی حوروں کے ساتھ ابدی زندگی کے مزے لوں۔

اور ہاں اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا قلع قمع کروں جو دین اسلام کے سربلندی کے لئے خطرہ ہیں۔جو مذہب اسلام کی ایک عالمگیر قوت بننے کے مخالف ہیں۔ جو صرف نام کے مسلمان ہیں۔اور جو طاغوتی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ان کے سکولوں میں پڑھ رہے ہیں اور ان کے دفتروں میں کام کر رہے ہیں۔ میری ماں مجھ کو اجازت دیجئے تاکہ حشر کے دن میں تجھ سمیت اپنے خاندان کے ستر افراد کی شفاعت کر سکوں۔ میں تیری اجازت کا منتظر رہونگا۔

مجھے معلوم ہے مجھے جوابی خط ضرور لکھو گی۔

          فقط آپکا

          فدائی بیٹا

Advertisements
julia rana solicitors london

واجد محمود خٹک سیاسیات کے طالب علم اور سماجیات کے شاھد ہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”خودکش بمبار بنام ماں۔۔ واجد محمود خٹک

  1. aik bahut he complex issue ko sahib nae aik chotae sae khat mae samo dya haen. Ye khat nahin aik group ka worldview haen.bahut c chezon sae ihtalaf ho sakta haen, q k ye masala sirf itna nahi haen, is mae bahut c awamil karfarma haen, laiken iska aik pehlo ap nae expalin krdya. sakht chezon ko naram andaz mae . mashallah

Leave a Reply