کنفیوژڈ۔۔۔ عارف خٹک

میرے دادا ریٹائرڈ صوبیدار ہیں۔ جب بھی انڈیا پاکستان کی لڑائی کی خبریں زبان عام ہوتی ہیں وہ شدید جذباتی ہوجاتے ہیں۔ اتنے جذباتی ہوجاتے ہیں کہ جب فضاء میں کوئی جیٹ وزیرستان پر حملہ آور ہونے کیلئے اڑان بھرے تو بچوں کی طرح بہت شوق سے اڑتے جہاز کو دیکھنے لگتے ہیں۔ ایسے میں دادا کے چھوٹے بھائی جو اسی سال کے ہیں چلا اٹھتے ہیں، “دہلی کو کھنڈر کرکے آنا ہے میرے شیرو”۔ میں جب اس کو بتاتا ہوں کہ دادا دہلی ھنوز دور است، وزیرستان قریب است تو گالی دیتا ہے کہ بےغیرتا تیرے جیسے زنانوں کیوجہ سے مودی ہمیں آنکھ دیکھا رہا ہے۔ جبکہ دادا ابو استہزائیہ ہنسی ہنس کر ہمیں مزید جذباتی کرجاتا ہے کہ ایسے جہازوں کو سن پنسٹھ کی لڑائی میں وہ کتوں کیطرح دوڑاتے تھے اور ھم مزید حیران ہوجاتے ہیں کہ اس میں ھمارا کیا قصور۔

اج سے چھ مہینے پہلے عزیر بھائی نے ایک اصطلاع متعارف کرائی تھی “سالاراعظم” جناب راحیل شریف اور “امیر المومنین” عمران خان صاب۔ فیس بک پر اس کا بڑا چرچا ہوا تھا اور ہم نے اسے خب الوطنی کا نام دیا۔ اسی کے اثر میں، میں کابل میں رہ کر افغانیوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر انھیں انڈئین ڈاگز کے نام سے بلاتا تھا اور بدلے میں کراچی قونصلیٹ نے مجھے بلیک لسٹ میں ڈال دیا۔ مگر پھر بھی ھم عزیر سالار کے سبق کو اپنے دماغ میں نقش کرکے کابل کے دروازے خود پر بند کروا کر اور انکو لعنت دیکر،  جب اپنے ملک آئے تو پتہ چلا کہ میرے چھوٹے بھائی عزیر سالار کو میرے دو دوستوں یدبیضاء اور ابو علیحہ نے پڑھا لکھا بنا ڈالا ہے۔

بقول سالار بھیا کے “ھمارے اساتذہ نے ھمارا تو بیڑہ غرق کرڈالا” غلط معاشرتی علوم پڑھا کر ھمیں اج تک دو قومی نظرئے کا اسیر بنا ڈالا”۔ جب ساری کشتیاں جلا کر ھم اس معاشرتی علوم پر ایمان لاکر اور نسیم حجازی کی ایمان افروز داستانیں پڑھ کر عملی میدان میں آئے، عزیر پاجی نے بتایا یہ سب جھوٹ ہے۔ اب وہ سالار اعظم اور آمیرالمومنین دونوں کے خون کا پیاسا ہے اج وہ ہمیں بوٹ پالشئیا کہہ کر پکارتا ہے۔ اسکی محبت میں یہ دشنام بھی منظور ہے۔

انڈیا پاکستان کی موجودہ صورتحال پر مجھے کچھ بھی نہیں سجھائی دے رہا ہے کہ کیا جذبات ہونے چاہئیے۔ کوئی قطرینہ کو لونڈی بنانے کے چکر میں ہے، کوئی منڈی میں عالیہ کی بولی لگائے جارہا ہے اور ہمارے کچھ بھائی تو شاہد کپور کے پیچھے پڑیں ہیں۔ ایسے میں ہم نے کافی سوچ سمجھ کر رعایت اللہ فاروقی صاب کو پڑھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اب نواز شریف صاب کو نجات دہندہ سمجھنے لگے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر رعایت صاب نے نجانے دو دن بعد ھمیں کیا کہہ کر بلانا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوستو مبارک ہو، میں بھی کنفیوژ ہو گیا ہوں، باقیوں کی طرح۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply