سندھ میں ایڈز کا پھیلاؤ۔۔۔۔حسن مجتبٰی

سندھ کے مسکین و مظلوم لوگوں پر عذاب کیا پہلے کم تھے، ہیپاٹائٹس سی، وڈیرہ شاہی، گردن میں سریا لئے سرداروں اور پولیس مظالم، حوالاتی اموات، گم شدگیاں، رشوت ستانیاں، زمینوں پرقبضے، عورتوں اور بچیوں کے روزمرہ قتل (ایک شخص نے خیرپور میرس میں اپنی بیوی، شیر خوار بچی اور ساس کا قتل اِس لئے کیا کہ اُس کی بیوی نے بچی کے ڈائپر لانا یاد نہیں دلایا تھا) اور دس سال سے بھٹو زندہ باقی سب مرئے ہوئے۔ اب تو لاڑکانہ سے بھی نکل کر کشمور، ٹنڈو الہیار تک ایڈز جیسی مہلک بیماری پھیل رہی ہے۔

ایچ آئی وی کا حالیہ دنوں میں تیزی سے پھیلائو سندھ میں انیسویں صدی کے آخر میں طاعون یا پلیگ کے پھیلائو والے خوف کی سی صورتحال پیدا کر رہا ہے لیکن ولی عہد بلاول اور اُن کے ہمنوا ہیں کہ سندھ میں اسپتالوں کے اسٹیٹ آف دی آرٹ ہونے کی منادی کرتے نہیں تھکتے۔ جی ہاں یہ اسٹیٹ آف دی آرٹ نہیں، آرٹ آف دی اسٹیٹ (ریاست کی فنکاری) ہے کہ مرکزی حکومت ہو، سندھ میں پی پی پی زرداری حکومت ہو کہ مقامی متعلقہ انتظامیہ یا سندھ کا محکمہ صحت،سب اِس خطرناک بیماری کی شدت اور پھیلائو کو کم کر کے بتانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

سندھ کی وزیرِ صحت نے تازہ ترین فرمایا ہے کہ ’’دراصل ایڈز اتنی خطرناک بیماری نہیں جتنی اُس کی منفی رپورٹنگ میڈیا نے کی ہے‘‘۔ لاڑکانہ انتظامیہ نے کارنامہ یہ سرانجام دیا کہ ایڈز کی بیماری اور اُس کے پھیلائو کی روک تھام یا اُس کے خاتمے کی کوشش کرنے کے بجائے ایک مقامی ڈاکٹر کو ذمہ دار ٹھہرا دیا، جس کیلئے سرکاری طور پر بتایا گیا کہ مبینہ طور پر اُس ڈاکٹر کا ایچ آئی وی پازیٹو نکلا ہے۔ یعنی یہ کہ ڈاکٹر کے خون میں مبینہ طور پرایڈز یا ایچ آئی وی پایا گیا۔ ڈاکٹر کوجیل کر کے گویا انتظامیہ نے چابی دریا میں پھینک کر خود کو تمام ذمہ داریوں سے مبرا کر لیا جبکہ اب عالم یہ ہے کہ مہلک مرض لاڑکانہ کے ایک شہر رتوڈیرو سے نکل کر کشمور، ٹنڈوالہیار تک پھیل گیا ہے۔ مرد، عورتیں اور بچے اِس میں مبتلا ہیں لیکن متعلقہ انتظامیہ اور محکمہ صحت ہے کہ محض اتائی ڈاکٹروں کے پیچھے لگا ہوا ہے جبکہ ایڈز کے مرض کی تشخیص، علاج معالجے کی سہولتوں اور عوام میں شعور پیدا کرنے کے ایک مارشل پلان کی ضرورت تھی اور ہے۔ ایڈز کے وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے عوام میں آگہی، اُس کی تشخیص یا بروقت اسکریننگ اشد ضروری ہے۔ ملک یا صوبے میں میرے خیال میں اسکریننگ کی سہولتیں موجودنہیں ہیں، نہ ہی موبائل یونٹ نہ ہی کوئی میڈیکل، اسکریننگ اور میڈیکل سروسز۔

دی نیوز میں انیس سو نوے کی دہائی میں میرا دوست اور نامور صحافی اویس توحید بڑے عرصے تک صحت عامہ اور ایڈز کے حوالے سے صورتحال اور آگہی پر تحقیقی کام کرتے رہے۔ اویس اُن دنوں ہیلتھ رپورٹنگ بھی کیا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ 1993 میں جرمنی کے شہر برلن میں ایڈز پر عالمی کانفرنس ہوئی تھی، جس کو کور کرنے تب میرا ساتھی سینئر رپورٹر محمد حنیف بھی گیا تھا۔ مگر المیہ یہ ہے آج بھی پیارے پاکستان میں ایڈز کے مریض کو ایسے برتا جاتا ہے جیسے کسی زمانے میں چھوت کے مریض کو برتا جاتا تھا، اچھوت سمجھ کر۔ خیال یہ کیا جاتا ہے کہ شاید ایڈز کے مریض کے سانس اور اُس سے قریب سے ملنے، ساتھ کھانے پینے سے ایچ آئی وی وائرس منتقل ہو سکتا ہے۔

اُنہی دنوں اویس توحید کی رپورٹ کے مطابق شیر محمد بلوچ نامی ایک مزدور شاید پاکستان میں ایڈز کا پہلا کیس رپورٹ ہوا تھا، جو خلیج کے کسی ملک سے تشخیص ہو کر کراچی ڈیپورٹ کیا گیا تھا۔ اُس شخص کو سول اسپتال میں تنہائی کے یا ’’آئیسولیشن‘‘ وارڈ میں رکھا گیا تھا جہاں سے وہ بھاگ نکلا اور پھر آج تک ہاتھ نہیں آیا۔ اب اُس سے ایڈز کے پھیلائو کے امکان کا اندازہ لگائیں۔ میں نے اُن دنوں نیوز لائن کیلئے اپنی تحقیقی رپورٹ کے سلسلے میں صوبہ بھر میں کئی لوگوں سے انٹرویو کئے، اُن میں سے کئی کا کہنا تھا کہ ایڈز تو گوروں کی بیماری ہے۔

تو پس عزیزو سندھ میں ایڈزکے وائرس کے پھیلائو اور مریضوں کی روز بروز بڑھتی تعداد کی رپورٹیں سن کر میرے دوست اور امریکہ میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی تنظیم ’’اپنا‘‘ کے عہدیدار سرگرم ہیں۔ اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ ہماری تنظیم سندھ میں ایڈز کے شکار مریضوں کو اور مزید لوگوں کو اُس سے بچانے کے ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ ’’اپنا‘‘ تنظیم سندھ حکومت کے ساتھ چاہے غیر سرکاری سیکٹر میں (یا جو بھی وہاں قوانین ہیں اُن کے مطابق) ساجھے داری میں کام کرنا چاہ رہی ہے، جس کیلئے وہ لوگوں میں تشخیصی کٹ مفت مہیا کرنا چاہتی ہے۔ اِس سے ایڈز کی بروقت تشخیص سے اُس کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے۔ اِس اخبار کے توسط سے میں ’’اپنا‘‘ کی یہ بات سندھ میں اُس کے ممکنہ ساجھے داروں تک پہنچا رہا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply