وزیر اعظم صاحب! یہ ہے کشمیر کا سچ ۔۔۔۔سنتوش بھارتیہ

پیارے وزیر اعظم صاحب، میں ابھی چار دن کے بعد جموں و کشمیر سے لوٹا ہوں اور چاروں دن میں کشمیر کی وادی میں رہا اور مجھے یہ لگا کہ میں آپ کو وہاں کے حالات سے واقف کراؤں۔ حالانکہ آپ کے یہاں سے خط کا جواب آنے کا رواج ختم ہوگیا ہے،ایسا آپ کے ساتھیوں کا کہنا ہے، لیکن پھر بھی میں اس امید پر یہ خط بھیج رہا ہوں کہ آپ مجھے جواب دیں یا نہ دیں، لیکن خط کو پڑھیں گے ضرور اور پڑھنے کے بعد آپ کو اس میں ذرا بھی حقیقت نظر آئے، تو آپ اس میں اٹھائے ہوئے نکات پر دھیان دیں گے۔ مجھے یہ پورا یقین ہے کہ آپ کے پاس جموں و کشمیر کو لے کر خاص طور سے وادی کشمیر کو لے کر جو خبریں پہنچتی ہیں، وہ سرکاری افسروں کے ذریعہ اسپانسر شدہ خبریں ہوتی ہیں، ان خبروں میں سچائی کم ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی ایسامیکانزم ہو جو وادی کے لوگوں سے بات چیت کرکے آپ کو سچائی سے آگاہ کرائے تو میرا یقینی طور پر ماننا ہے کہ آپ ان حقائق کو نظر انداز نہیں کر پائیں گے۔

میں وادی میں جاکر مضطرب ہوگیا ہوں۔ زمین ہمارے پاس ہے، کیونکہ ہماری فوج وہاں پر ہے، لیکن کشمیر کے لوگ ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ اور میں پوری ذمہ داری سے یہ حقیقت آپ کے سامنے لانا چاہتا ہوں کہ 80 سال کی عمر کے شخص سے لے کر 6سال تک کے بچے کے دل میں ہندوستانی نظام کو لے کر بہت زیادہ غصہ ہے۔ اتناغصہ ہے کہ وہ ہندوستانی نظام سے جڑے کسی بھی شخص سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ اتنا زیادہ غصہ ہے کہ وہ ہاتھ میں پتھر لے کر اتنے بڑے میکانزم کا مقابلہ کررہے ہیں۔ اب وہ کوئی بھی خطرہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں جس میں سب سے بڑا خطرہ قتل عام کا خطرہ ہے اور یہ حقیقت میںآپ کو اس مقصد کو سامنے رکھ کر لکھ رہا ہوں کہ کشمیر میں ہونے والے صدی کے سب سے بڑے قتل عام کو بچانے میںآپ کا کردا رسب سے اہم ہے۔ ہمارے سیکورٹی فورسیز میں ، ہماری فوج میںیہ جذبہ پنپ رہا ہے کہ جو بھی کشمیر میں نظام کے تئیںآواز اٹھاتا تھا اسے اگر ختم کردیا جائے ، اس کی جان لے لی جائے ، اسے دنیا سے وداع کردیا جائے، تو یہ علیحدگی پسند تحریک ختم ہوسکتی ہے۔ نظام جسے علیحدگی پسند تحریک کہتا ہے، دراصل وہ علیحدگی پسندتحریک نہیں ہے، وہ کشمیر کے عوام کی تحریک ہے۔ اگر 80 سال کے ضعیف سے لے کر 6 سال کا بچہ تک آزادی، آزادی ، آزادی کہے، تو ماننا چاہیے کہ گزشتہ 60 سالوں میں ہم سے بہت بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور وہ غلطیاں جان بوجھ کر ہوئی ہیں۔ ان غلطیوں کو سدھارنے کا کام آج تاریخ نے، وقت نے آپ کو سونپا ہے۔ امید ہے کہ آپ کشمیر کے حالات کو فوری طور پر نئے سرے سے جان کر اپنی سرکار کے قدموں کا تعین کریں گے۔وزیر اعظم صاحب کشمیر میں پولیس والوں سے لے کر ، وہاں کے تاجر، وہاں کے طلبہ، وہاں کی سول سوسائٹی کے لوگ، وہاں کے قلم کار، وہاں کے صحافی، وہاں کی سیاسی پارٹیوں کے لوگ اور وہاں کے سرکاری افسر، وہ چاہے کشمیر کے رہنے والے ہوں یا کشمیر کے باہر کے لوگ جو کشمیر میں کام کررہے ہیں،سب کا ماننا ہے کہ نظام سے بہت بڑی بھول ہوئی ہے اور اسی لیے کشمیر کا ہر آدمی ہندوستانی نظام کے خلاف کھڑا ہوگیا ہے۔ جس کے ہاتھ میں پتھر نہیں ہے اس کے دل میں پتھر ہے۔ یہ تحریک عوامی تحریک بن گئی ہے ٹھیک ویسی ہی جیسی ہندوستان کی سن 42 میں تحریک تھی یا پھر جے پرکاش تحریک تھی جس میں لیڈر کا کردار کم تھا اور لوگوں کا کردار زیادہ تھا۔

کشمیر میں اس بار بقرعید نہیں منائی گئی، کسی نے نئے کپڑے نہیں پہنے، کسی نے قربانی نہیں کی۔ کسی کے گھر میں خوشیاں نہیں منائی گئیں۔ کیا یہ ہندوستان کے ان تمام لوگوں کے منہ کے اوپر طمانچہ نہیں ہے جو جمہوریت کی قسمیں کھاتے ہیں۔ آخر ایسا کیا ہوگیا کہ کشمیر کے لوگوں نے تیوہار منانا بند کردیا، عید، بقرعید منانی بند کردیں اور یہ ساری تحریک وہاں کی سیاسی قیادت کے خلاف ایک بغاوت کی شکل اختیار کرگئی۔ جس کشمیر میں 2014 میں انتخاب ہوئے، لوگوں نے ووٹ ڈالے، آج اسی کشمیر میں کوئی بھی شخص ہندوستانی نظام کے تئیں ایک لفظ ہمدردی کا کہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ میںآپ کو حالات اس لیے بتارہا ہوں کیونکہ آپ پورے ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں، آپ اس کا کوئی راستہ نکال سکیں۔

کشمیر کے گھروں میں لوگ ایک بلب جلاکر شام کورہتے ہیں، زیادہ تر گھروں میں یہ مانا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں اتنا دکھ ہے، اتنے قتل ہورہے ہیں، دس ہزار سے زیادہ پیلیٹ گن سے زخمی لوگ ہیں، پانچ سو سے زیادہ لوگوں کی آنکھیں چلی گئی ہیں۔ ایسے وقت میں ہم چار بلب گھر میں جلاکر خوشی کا اظہار کیسے کرسکتے ہیں، ہم ایک بلب جلاکر رہیں گے۔ وزیر اعظم صاحب میں نے دیکھا ہے کہ لوگ گھروں میں ایک بلب جلا کر رہ رہے ہیں۔

میں نے یہ بھی کشمیر میں دیکھا کہ کس طرح صبح آٹھ بجے سڑکوں پر پتھر لگا دیے جاتے ہیں اور شام کو 6 بجے اپنے آپ وہی لڑکے جنھوں نے پتھر لگائے ہیں سڑکوں سے پتھر ہٹادیتے ہیں۔ دن میں وہ پتھر چلاتے ہیں،شام کو وہ اپنے گھروں میں اس خدشے میں سوتے ہیں کہ انھیں کب سیکورٹی فورسیز کے لوگ اٹھاکر لے جائیں، پھر وہ کبھی اپنے گھر کو واپس لوٹیں یا نہ لوٹیں۔ ایسی حالت تو انگریزوں کے دور حکومت میں بھی نہیں تھی ۔یہ ذہنیت جتنی ہم پڑھتے ہیں تاریخ میں، عام لوگوں میں اتناڈر نہیں تھا۔ لیکن آج کشمیر کا رہنے والا ہر آدمی، وہ ہندو ہو، مسلمان ہو، سرکاری نوکر ہو نہیں ہو، بیکار ہو، تاجر ہو، سبزی والا ہو، ٹھیلے والا ہو، ٹیکسی والا ہو، ہر آدمی ڈرا ہوا ہے اور شاید مجھے یقین نہیں ہوتا کہ کیا ہم انھیں اور ڈرانے کی یاانھیں اور زیادہ پریشان کرنے کی حکمت عملی پر تو نہیں چل رہے ہیں۔

کشمیر کے لوگوں میں گزشتہ 60 سالوں میں نظام کی چوک، لاپرواہی یا مجرمانہ چشم پوشی کی وجہ سے لوگوں کو یاد آگیا ہے کہ جب کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کا سمجھوتہ ہوا تھا جسے وہ’ ایکارڈ‘ کہتے ہیں۔ مہاراجہ ہری سنگھ اور حکومت ہند کے بیچ، جس کے گواہ مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے کرن سنگھ ابھی زندہ ہیں، اس میں صاف لکھا تھا کہ دفعہ 370 تب تک رہے گی جب تک کہ کشمیر کے لوگ اپنے مستقبل کو لے کر آخری فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعہ نہیں کردیتے۔ کشمیر کے لوگ اس ریفرنڈم کو چار پانچ سال میں بھول گئے تھے۔ شیخ عبداللہ کامیابی کے ساتھ حکومت کررہے تھے، لیکن وزیر اعظم صاحب ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم نے جب شیخ عبداللہ کو جیل میں ڈالا تب سے کشمیر میں ہندوستان کے تئیں عدم اعتمادی پیدا ہوئی۔ 1974 میں شیخ عبداللہ اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان معاہدہ ہوا اور پھر شیخ صاحب کو کشمیر کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ شیخ عبداللہ پنڈت نہرو کے آخری دور میں پاکستان بھی گئے اور انھوں نے اندرا گاندھی سے معاہدے کے بعد اپنی حکومت چلائی، لیکن انھوں نے سرکار سے جن جن چیزوں کی مانگ کی، سرکار نے وہ نہیں کیا اور کشمیر کے لوگوں کے دل میں دوسرے زخم لگے۔

1982میں پہلی بار شیخ عبداللہ کے بیٹے فاروق عبداللہ کانگریس کے خلاف انتخاب لڑے اور وہاں انھیں اکثریت حاصل ہوئی۔ شاید دہلی میں بیٹھی کانگریس کشمیر کو اپنی کالونی سمجھ بیٹھی تھی اور اس نے فاروق عبداللہ کی سرکار گرادی۔ فاروق عبداللہ کی جیت ہار میں بدل گئی اور یہاں سے کشمیریوں کے دل میں ہندوستانی نظام کو لے کر نفرت کا جذبہ پیدا ہوا۔ آپ کے وزیر اعظم بننے سے پہلے تک دہلی میں بیٹھی تمام سرکاروں نے کشمیر میں لوگوں کو یہ یقین ہی نہیں دلایا کہ وہ بھی ہندوستانی نظام کے ویسے ہی عضو ہیں جیسے ہمارے ملک کی دوسری ریاستیں۔ کشمیر میں ایک پوری نسل جو سن 1952 میں پیدا ہوئی اس نے آج تک جمہوریت کا نام ہی نہیں سنا ،اس نے آج تک جمہوریت کا ذائقہ نہیں چکھا اس نے وہاں فوج دیکھی، پیراملٹری فورسیز دیکھیں، گولیاں دیکھیں، بارود دیکھی اور موتیں دیکھیں۔ اس کو یہ نہیں اندازہ ہے کہ ہم دہلی میں، اترپردیش میں، بنگال میں، مہاراشٹر میں، گجرات میں کس طرح جیتے ہیں اور کس طرح ہم جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے جمہوریت کے نام کے نظام کا ذائقہ چکھتے ہیں۔ کیا کشمیر کے لوگوں کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ بھی جمہوریت کا ذائقہ چکھیں، جمہوریت کی اچھائیوں کے سمندر میں تیریں یا ان کے حصے میں بندوقیں، ٹینک، پیلیٹ گنس اور پھر ممکنہ قتل عام ہی آئے گا۔

وزیر اعظم صاحب یہ باتیں میں آپ سے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ کو لوگوں نے یہ بتادیا ہے کہ کشمیر کا ہر شخص پاکستانی ہے۔ ہمیں کشمیر میں ایک بھی آدمی پاکستان کی تعریف کرتا ہوا نہیں ملا۔ لیکن ان کا یہ ضرور کہنا تھا کہ آپ نے جو ہم سے وعدہ کیا تھا۔ آپ نے ہمیں روٹی ضرور دی، لیکن تھپڑ مارتے ہوئے دی، آپ نے ہمیں حقارت سے دیکھا، آپ نے ہمیں بے عزت کیا۔ آپ نے ہمارے لیے جمہوریت کی روشنی نہ آنے دینے کی سازش کی اور اسی لیے پہلی باریہ تحریک، آزادی کے بعد کشمیر کے گاؤں تک پھیل گئی۔ ہر پیڑ پر ہر موبائل ٹاور کے اوپر ہر جگہ وزیر اعظم صاحب پاکستانی جھنڈا ہے اور جب ہم نے پتہ کیا تو انھوں نے کہا کہ نہیں ہم پاکستان نہیں جانا چاہتے، لیکن چونکہ آپ پاکستان سے چڑتے ہیں، اس لیے ہم پاکستانی جھنڈا لگاتے ہیں اور یہ کہنے میں بہت سے لوگوں کے دل میں کوئی پشیمانی نہیں تھی۔ کشمیر کے لوگ ہندوستان کے نظام کو، اقتدار کو چڑانے کے لیے جب ہندوستان کی کرکٹ میں ہار ہوتی ہے، تو جشن مناتے ہیں وہ صرف پاکستان کی ٹیم کی جیت کے اوپر جشن نہیں مناتے خوش نہیں ہوتے اگر ہم نیوزی لینڈ سے ہار جائیں، اگر ہم بنگلہ دیش سے ہار جائیں، اگر ہم سری لنکا سے ہار جائیں، تب بھی وہ اسی خوشی کو محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ انھیں یہ لگتا ہے کہ ہم ہندوستانی نظام کی کسی بھی خوشی کو مسترد کرکے اپنی مخالفت کا اظہار کررہے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کیا اس نفسیات کو ہندوستان کی سرکار کو سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کشمیر کے لوگ اگر ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے، تو کشمیر کی زمین لے کر کے ہم کیا کریں گے۔ کشمیر کی زمین میں کچھ بھی پیدا نہیں ہوتا پھر وہاں پر نہ ٹورزم ہوگا، نہ وہاں محبت ہوگی، صرف ایک سرکار ہوگی اور ہماری فوج ہوگی۔ وزیر اعظم صاحب کشمیر کے لوگ خود فیصلہ کرنے کا حق چاہتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایک بار آپ ہم سے یہ ضرور پوچھئے کہ ہم ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیںیا ہم پاکستان کے ساتھ رہناچاہتے ہیں یا ہم ایک آزاد ملک بنانا چاہتے ہیں اور اس میں صرف ہندوستان کے ساتھ شامل ہوا کشمیر شامل نہیں ہے۔ اس میں وہ ریفرنڈم پاکستان کے قبضے میں رہنے والے کشمیر ، گلگت، بلتستان ،یہ تینوں کے لیے ریفرنڈم چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ بات چیت کرے کہ اگر ہندوستان یہاں یہ حق دینے کو تیار ہے، تو وہ بھی یہاں پر وہ اختیار دیں۔

وزیر اعظم جی یہ حالت کیوں آئی، یہ حالت اس لیے آئی کہ اب تک پارلیمنٹ نے چار وفود کشمیر بھیجے، ان چاروں کل جماعتی وفود نے جو پارلیمنٹ کی نمائندگی کرتے تھے، کیا رپورٹ سرکار کو دی وہ کسی کو نہیں معلوم، لیکن جو بھی رپورٹ دی ہو عمل نہیں ہوا۔ سرکار نے اپنی طرف سے شری رام جیٹھ ملانی اور شری کے سی پنت کو وہاں پر ایلچی کے طور پر بھیجا اور ان لوگوں نے وہاں پر بہت سے لوگوں سے بات چیت کی، لیکن ان لوگوں نے سرکار سے کیا کہا یہ کسی کو نہیں پتہ۔ آپ سے پہلے کے وزیر اعظم نے منموہن سنگھ نے انٹرلوکیٹرس کی ٹیم بنائی تھی جس میں دلیپ پڈگاؤنکر، رادھا کمار،ایم ایم انصاری تھے۔ ان لوگوں نے کیا رپورٹ دی کسی کو نہیں پتہ، اس پر بحث نہیں ہوئی، اس پر چرچا نہیں ہوا۔ جموں و کشمیر کی اسمبلی نے اتفاق رائے سے ایکقرارداد منظور کی کہ انھیں کیا حق چاہیے اسے کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ کشمیر کے لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ ہماری حکومت ہم نہیں چلاتے دہلی میں بیٹھے کچھ افسر چلاتے ہیں، انٹیلی جنس بیورو چلاتی ہے، فوج کے لوگ چلاتے ہیں، ہم نہیں چلاتے۔ ہم تو یہاں پر غلاموں کی طرح سے جی رہے ہیں جسے روٹی دینے کی کوشش تو ہوتی ہے، لیکن جینے کا کوئی راستہ ان کے لیے کھلا نہیں ہے۔ وزیر اعظم صاحب کشمیر کے لیے جو پیسہ الاٹ ہوتا ہے وہ وہاں نہیں پہنچتا ، پنچایتوں کے پاس پیسہ نہیں پہنچتا، کشمیر کو جتنے پیکیج ملے، وہ نہیں ملے اور شاید آپ نے پچھلی دیوالی 2014 کی کشمیر کے لوگوں کے بیچ گزاری تھی، آ پ نے کہا تھا کہ وہاں اتنا سیلاب آیا ہے، اتنا نقصان ہوا ہے، اتنے ہزار کروڑ روپے کا پیکیج کشمیر کو دیا جائے گا۔ وزیراعظم صاحب وہ پیکیج نہیں ملا ہے، اس کا کچھ حصہ مرحوم مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد جب محبوبہ مفتی نے تھوڑا سا دباؤ ڈالا، تو کچھ پیسہ ریلیز ہوا۔ کشمیر کے لوگوں کو یہ مذاق لگتا ہے، اپنی توہین لگتی ہے۔

وزیر اعظم صاحب !کیا یہ ممکن نہیں کہ جتنے بھی اب تک پارلیمانی وفود کشمیر میں گئے، انٹرلوکیٹرس کی رپورٹ، کے سی پنت اور شری را جیٹھ ملانی کی تجویز اور ابھی جن لوگوں نے کشمیر کے بارے میں آپ کو رائے دی ہو، آپ سے مطلب آپ کے دفتر کو اب تک رائے دی ہو۔ کیا ان آراء کو لے کر ہمارے سابق چیف جسٹسوں کا ایک آٹھ یا دس کا گروپ بناکر ان کے سامنے وہ رپورٹ نہیں سونپی جاسکتی کہ اس میں فوری طور پر کیا کیا نافذ کرنا ہے۔ ان نکات کو تلاش کریں۔ یا انٹرلوکیٹرس کی رپورٹ بغیر کسی شرط کے نافذ کرکے اس کے اوپر عمل نہیں کرایا جاسکتا۔ چونکہ یہ ساری چیزیں نہیں ہوئیں، اس لیے کشمیر کے لوگ اب آزادی چاہتے ہیں اور وہ آزادی کا جذبہ اتنا بڑھ گیا ہے وزیر اعظم صاحب۔ میں پھر دوہراتا ہوں، مجھے پولیس سے لے کر، 80 سال کے ضعیف سے لے کر، قلم کار، صحافی، تاجر، ٹیکسی چلانے والے، ہاؤس بوٹ کے لوگ اور 6 سال کا بچہ، یہ سب آزادی کی بات کرتے دکھائی دیے۔ ایک شخص، پھرسے میں دوہراتا ہوں ،مجھے نہیں ملا جس نے یہ کہا ہو کہ اسے پاکستان جانا ہے، اسے معلوم ہے پاکستان کی حالت کیا ہے اور جن ہاتھوں میں پتھر ہیں، ان ہاتھوں کو یہ پتھر پکڑنے کی طاقت اگر کسی نے دی ہے، تو یہ ہمارے نظام نے دی ہے۔

وزیر اعظم صاحب! میرے دل میں ایک بڑا سوال ہے کہ کیا پاکستان اتنابڑا ہے کہ وہ پتھر چلانے والے بچوں کو روز پانچ سو روپے دے سکتا ہے اور کیا ہمارا نظام اتنا خراب ہے کہ اب تک ایک اس شخص کو نہیں پکڑ پایا جو وہاں پانچ پانچ سو روپے بانٹ رہا ہے۔ کرفیو ہے ، لوگ سڑکوں پر نہیں نکل رہے ہیں، کون محلے میں جارہا ہے پانچ سو روپے بانٹنے کے لیے۔ پاکستان کیا اتنا طاقتور ہے کہ پورے کے پورے 60 لاکھ لوگوں کو ہندوستان جیسے 125 کروڑ لوگوں کے ملک کے خلاف کھڑا کرسکتا ہے۔ مجھے یہ مذاق لگتا ہے، کشمیر کے لوگوں کو بھی یہ مذاق لگتا ہے۔ کشمیر کے لوگوں کو ہمارے نظام کے عضو میڈیا سے بھی بہت شکایت ہے،وہ کئی چینلوں کا نام لیتے ہیں جن کو دیکھ کر لگتاہے کہ یہ ملک میں فرقہ پرستی کا جذبہ بڑھانے کاکام کررہے ہیں۔ اس میں کچھ اہم چینل انگریزی کے ہیں اور کچھ ہندی کے بھی ہیں ، میں مانتا ہوں کہ ہمارے ساتھی راجیہ سبھا میں جانے یا اپنا نام صحافت کی تاریخ میں فرسٹ کلاس میں لکھوانے کے لیے اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ وہ ملک کے اتحاد اور سالمیت سے بھی کھیل رہے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم تاریخ بے رحم ہوتی ہے، وہ ایسے صحافیوں کو محب وطن نہیں غدار مانے گی، کیونکہ ایسے لوگ جو پاکستان کا نام لیتے ہیں یا ہر چیز میں پاکستان کا ہاتھ دیکھتے ہیں، وہ لوگ دراصل پاکستان کے دلال ہیں،وہ ذہنی طور پر ہندوستان کے لوگوں میں اور کشمیر کے لوگوں میںیہ جذبہ پیدا کررہے ہیں کہ پاکستان ایک بڑا مضبوط، بڑا قادر اور بہت باریک بین ملک ہے۔ وزیر اعظم صاحب ان لوگوں کو جب سمجھ میں آئے گاتب آئے گا یا نہیں سمجھ میں آئے، مجھے اس سے تشویش نہیں ہے۔ میری تشویش ہندوستان کے پیارے وزیر اعظم نریندر مودی کو لے کر ہے۔ نریندر مودی کو تاریخ اگر اس شکل میں دیکھے کہ انھوں نے کشمیر میں ایک بڑا قتل عام کراکر کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ جوڑے رکھا،شاید وہ آنے والی نسلوں کے لیے بہت افسوسناک تاریخ ہوگی۔ تاریخ نریندر مودی کو اس شکل میں جانے کہ نریندر مودی نے کشمیر کے لوگوں کا دل جیتا۔ انھیں ان سارے وعدوں کی بھرپائی کرنے کی یقین دہانی کرائی جنھیں ساٹھ سال سے کشمیریوں کو کہا جاتا رہا ہے۔ کشمیر کے لوگ سونا نہیں مانگتے ، چاندی نہیں مانگتے، ہیرا نہیں مانگتے۔ کشمیر کے لوگ عزت مانگتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب میں نے جتنے طبقوں کی بات کی یہ سب اسٹیک ہولڈر ہیں۔

وزیر اعظم صاحب یہ سارے لوگ اسٹیک ہولڈر ہیں او ران میں حریت کے لوگ شامل ہیں۔ حریت کے لوگوں کا اتنا اخلاقی دباؤ کشمیر میں ہے کہ وہ جو کیلنڈر جمعہ کو وہاں جاری کرتے ہیں،وہ ہر ایک کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اخباروں میں چھپا کہ ہر ایک کو اس کی جانکاری ہوگئی اور لوگ سات دن اس کیلنڈر کے اوپر کام کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ 6 بجے تک بازار بند رہیں گے، 6 بجے تک بازار بند ہوتے ہیں او ر6 بجے بازار اپنے آپ کھل جاتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب وہاں تو بینک بھی 6 بجے کے بعد کھلنے لگے ہیں جو آپ کے نظام کے تحت آتے ہیں۔ وہاں پر ہمارے سیکورٹی فورسیز کے لوگ 6 بجے کے بعد نہیں گھومتے، 6 بجے سے پہلے گھومتے ہیں او راسی لیے ہمارا کور کمانڈر سرکار سے کہتا ہے کہ ہمیں اس سیاسی جھگڑے میں مت پھنسائیے۔ وزیر اعظم صاحب یہ چھوٹی چیز نہیں ہے، ہماری فوج کا کمانڈر وہاں کی سرکار سے کہتا ہے کہ ہمیں اس سیاسی جھگڑے میں مت پھنسائیے، ہم سویلین کے لیے نہیں ہیں، ہم دشمن کے لیے ہیں۔

اسی لیے جہاں فوج کاسامنا ہوتا ہے تو وہ پتھر کا جواب گولی سے دیتے ہیں۔ لوگوں کی موتیں ہوتی ہیں، لیکن فوج کے اس جذبے کو تو سمجھنے کی ضرورت ہے نہ کہ فوج اپنے ملک کے شہریوں کے خلاف نظم و نسق بنائے رکھنے کی چیز نہیں ہے۔ سیکورٹی فورسیز پیلیٹ گن چلاتے ہیں، لیکن ان کا نشانہ کمر سے نیچے نہیں ہوتا ہے، کمر سے اوپر ہوتا ہے، اس لیے دس ہزار لوگ زخمی پڑے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب میں کشمیر کے دورے میں اسپتالوں میں گیا۔ مجھ سے کہا گیا کہ چار پانچ ہزار پولیس والے بھی زخمی ہوئے ہیں۔ سیکورٹی فورسیز کے لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ مجھیپتھروں سے زخمی لوگ تو دکھائی دئے وہ تعداد کافی کم تھی۔ یہ ہزاروں کی تعداد والا ہمارے پرچار کا نظام کہتا ہے جس پرکوئی یقین نہیں کرتا اور اگر ہے تو ہم صحافیوں کو ان جوانوں سے ملوائیے جو ہزاروں کی تعداد میں کہیں زیر علاج ہیں۔ لیکن ہم نے اپنی آنکھوں سے زمین پر ایک دوسرے سے بستر شیئر کرتے لوگ دیکھے جو زخمی تھے۔ ہم نے بچوں کو دیکھا جن کی آنکھیں چلی گئیں جو کبھی واپس نہیں آئیں گی۔ لہٰذا میں یہ خط بڑے یقین اور جذبے کے ساتھ لکھ رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ آپ کے پاس اگر یہ خط پہنچے گا تو آپ اسے پڑھیں گے اور ہو سکتا ہے کچھ اچھا بھی کریں۔ لیکن مجھے اس میں شک ہے کہ یہ خط آپ کے پاس پہنچے گااس لیے میں اسے’ چوتھی دنیا‘ اخبار میں چھاپ رہا ہوں تاکہ کوئی تو آپ کو بتائے کہ سچائی یہ ہے۔

وزیراعظم صاحب، ایک کمال کی بات آپ کو بتاتا ہوں ۔ مجھے سری نگر میں ہر شخص اٹل بہاری واجپئی صاحب کی تعریف کرتا ہوا ملا۔لوگوں کو صرف ایک وزیراعظم کا نام یاد ہے اور وہ ہیں اٹل بہاری واجپئی ، جنہوں نے لال چوک پر کھڑے ہوکر کہا تھا کہ میں پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں۔ انہیں کشمیر کے لوگ کشمیر کے مسائل کو حل کرنے والے مسیحا کی طرح یاد کرتے ہیں انہیں لگتا ہے کہ اٹل بہاری واجپئی کشمیر کے لوگوں کا دکھ درد سمجھتے تھے اور ان کے آنسو پونچھنا چاہتے تھے۔ وزیراعظم صاحب، وہ آپ سے بھی ویسی ہی امید کرتے ہیں، لیکن انہیں یقین نہیں ہے۔ انہیں اس لیے یقین نہیں ہے ، کیوں کہ آپ پوری دنیا میں گھوم رہے ہیں۔ آپ لاؤس، چین، امریکہ، سعودی عرب ہر جگہ جا رہے ہیں۔ دنیا میں سفر کرنے والے پہلے وزیراعظم بنے ہیں لیکن اپنے ہی ملک میں ساٹھ لاکھ لوگ ناراض ہوگئے ہیں۔ یہ ساٹھ لاکھ لوگ اس لیے ناراض نہیں ہوئے ہیں کہ آپ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہیں، وہ اس لیے ناراض ہوئے ہیں کہ آپ ہندوستان کے وزیراعظم ہیں اور وزیر اعظم کے درد میں اپنے ملک کے ناراض لوگوں کے لیے جتنا پیار ہونا چا ہیے وہ پیار اب نظر نہیں آرہاہے۔ اس لیے ہماری گزراش ہے کہ آپ خود کشمیر جائیں وہاں کے لوگوں سے ملاقات کریں، حالات کا جائزہ لیں اور قدم اٹھائیں۔ یقین کیجئے کشمیر کے لوگ اسے ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ لیکن بات آپ کو وہاں کشمیر کے تمام فریقین سے کرنی ہوگی، حریت سے بھی۔

وزیراعظم صاحب، مرے ساتھ اشوک وان کھیڑے، جو مشہور کالم نگار ہیں اور ٹیلی ویژن پر سیاسی تجزیہ کر تے ہیں، اور پروفیسر ابھے دوبے ، یہ بھی سیاسی تجزیہ نگار ہیں جو ٹیلی ویژن پر آتے رہتے ہیں اور محقق ہیں، یہ بھی ساتھ تھے۔ اور ہم تینوں کئی بار کشمیر کی حالت دیکھ کر روئے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ پورے ملک میں یہ تاثر پھیلایا گیاہے، منصوبہ بند طریقہ سے ایک گروپ نے اس تاثر کو ہوا دی ہے کہ کشمیر کا ہر شخص پاکستانی ہے۔ کشمیر کا ہر شخص ملک کا غدار ہے اور سبھی لوگ پاکستا ن جانا چاہتے ہیں۔ نہیں وزیراعظم صاحب، یہ حقیقت نہیں ہے۔ کشمیر کے لوگ اپنے لیے روزی چاہتے ہیں، روٹی چاہتے ہیں لیکن عزت کے ساتھ چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہو، جو بہار، بنگال، آسام کے ساتھ ہوتا ہے۔ اب وزیراعظم صاحب ایک چیز اورمیں نے دیکھی ہے کہ کیا کشمیر کے لوگوں کو ممبئی کے لوگوں کی طرح، پٹنہ کے لوگوں کی طرح، احمدآباد کے لوگوں کی طرح، دہلی کے لوگوں کی طرح جینے یا رہنے کا حق نہیں مل سکتا۔ ہم 370ختم کریں گے، 370ختم ہونا چاہیے، اس کا پرچار پورے ملک میں کر رہے ہیں۔ کشمیریوں کو غیر انسانی بنانے کا پرچار کررہے ہیں۔ لیکن ہم ملک کے لوگوں کو یہ نہیں بتاتے کہ حکومت ہند کا ایک فیصلہ تھا کشمیر ہمارا کبھی حصہ نہیں رہا اور کشمیر کو جب ہم نے 1947میں اپنے ساتھ ملایا ، توہم نے دو فریقین کے درمیان معاہدہ کیا تھا۔ کشمیر ہمارا آئینی حصہ نہیں ہے، لیکن ہمارے آئینی نظام میں حق خودارادی سے پہلے آرٹیکل 370دی ۔ وزیراعظم صاحب، کیا یہ نہیں کہا جا سکتا ہم کبھی 370کے ساتھ چھیڑ چھاڑنہیں کریں گے اور 370 کیا ہے؟ 370یہ ہے کہ ہم کشمیر پر امورخارجہ، فوج اور کرنسی، اس کے علاوہ ہم کشمیر کی حکومت میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کریں گے۔ لیکن گزشتہ65سال اس کی مثال ہیں کہ ہم نے یعنی دہلی حکومت نے وہاں مسلسل ناجائز مداخلت کی۔ فوج سے کہیے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کرے۔ جو سرحد پار کرنے کی کوشش کرے اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے جیسا ایک دہشت گرد یا دشمن کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن لوگوں کے ساتھ لوگوں کو دشمن مت خیال کیجئے۔ ملک کے کشمیر کے لوگو ں کو اس بات کا رنج ہے، اس بات کا دکھ ہے کہ اتنا بڑا جاٹ احتجاج ہوا، گولی نہیں چلی، کوئی نہیں مرا۔ گوجر آندولن ہوا، کوئی آدمی نہیں مرا، کہیں پولیس نے گولی نہیں چلائی۔ ابھی کاویری کو لے کرکرناٹک میں، بنگلورو میں اتنا بڑا اندولن ہوا ، لیکن ایک گولی نہیں چلی۔ کیونکہ کشمیر میں گولیاں چلتی ہیں اور کیوں کمر سے اوپر چلتی ہیں اور چھ سال کے بچوں کے اوپر چلتی ہیں؟چھ سال کا بچہ وزیراعظم صاحب، وہ کیوں ہمارے خلاف ہوگیا؟ وہاں کی پولیس ہمارے خلاف ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لوگوں کا دل جیتنے کی ضرورت ہے اور آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ آپ نے لوگوں کا دل جیتا، اس لیے آپ وزیراعظم بنے ہیں اور ناقابل تصور اکثریت سے بنے ہیں۔ کیا آپ خدا کے ذریعہ دی گئی، تاریخ کے ذریعہ دی گئی، وقت کے ذریعہ دی گئی اپنی اس ذمہ داری کو نبھائیں گے کہ کشمیر کے لوگوں کا دل بھی جیتیں اور انہیں ان کے ساتھ ہوئے امتیازی اور غیر انسانی سلوک سے نجات دلائیں۔ ان کے دل میں یہ احساس بھریں کہ وہ بھی دنیاکے، ہندوستان کے کسی بھی ریاست کے ویسے ہیں باعزت شہری ہیں جیسے آپ اور ہم ہیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ آپ بغیر وقت ضائع کیے کشمیر کے لوگوں کا دل جیتنے کے لیے فوراً اقدام کریں گے اور بغیر وقت ضائع کیے ہوئے اپنی پارٹی کے لوگوں کو، اپنی حکومت کے لوگوں کو کشمیر کے بارے میں کیسا برتاؤ کرنا ہے اس کی ہدایت دیں گے۔ میں ایک بار پھرآپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ ہمیں جواب دیں یا نہ دیں لیکن کشمیر کے لوگوں کوان کے دکھ درد، آنسو کیسے پونچھ سکتے ہیں، اس کے لیے قدم ضرور اٹھائیں۔

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply