انعام رانا صاحب نے مکالمہ کا آغاز کیا ہے تو میں نے سوچا کہ میں بھی چند منفرد مکالموں کا ذکر کردوں۔ حیدر آباد دکن تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے جتنا معروف ہے، اُتنا ہی یہ اپنے منفرد اُردو لہجے کی وجہ سے مشہور ہے۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ بڑے سے بڑے جملوں کو مختصر جملوں میں سمو دینا حیدر آبادی اُردو کی خاصیت ہے یعنی “ہلّو سے بڑی بڑی باتاں کر دیتے یہ حیدر آبادی لوگاں”۔۔۔ بہت عرصہ پہلے کی بات ہے۔ میری دوستی حیدر آباد دکن کے بہت سے حضرات سے ہوگئی۔ یوں سمجھ لیں کہ آفس، کرکٹ گراونڈ حتی کے رہایش کے آس پاس بھی حیدر آبادی حضرات میں گھرا رہا۔ کچھ عرصہ ان کی اردو سمجھنے میں لگا اور جب اردو سمجھنے لگا تو انہیں سمجھنے کی کوشش شروع کی، دونوں میں کافی وقت لگا۔ ایک بار ایک دوست کھانا کھا رہا تھا، مجھے دیکھ کر کہنے لگا “آو یارو کھا لے کے جاو” میں نے کہا یار مجھے جلدی ہے بس لے کے جاوں گا، کھاوں گا نہیں۔
کہنے لگا ” ہاو، “لے لے” کے جاو۔”
میں نے کہا یہ دو دفعہ لے کے جانا ضروری ہے؟
اس نے ہنستے ہوئے بات ٹال دی اور پوچھا “چائے ہونا ؟”
میں نے پوچھا کیا ہونا؟
اس نے کہا چائے۔
میں نے کہا ہاں بھائی ہونا تو چاہیے۔
بعد میں معلوم ہوا کہ انکے ہاں چاہیئے کو “ہونا” کہتے ہیں۔ ۔ سلام کے بعد گردن ہلا کر “خیریت” بولنے کی عادت مجھے ایسی پڑی کہ بہت عرصہ تک اپنے لاہوری دوستوں سے بھی حیدر آبادی سٹائل میں “خیریت” پوچھا کرتا تھا۔
ایک بار ایسا ڈرامہ ہوا کہ جب میرا ایک حیدر آبادی دوست مجھے ایک بینگلوری مسلمان دوست سے ملانے لے گیا۔ بینگلوری دوست اردو کے بہت سے لفظ بول رہا تھا، میں نے چپکے سے اپنے دوست سے پوچھا کہ بھائی یہ کون سی زبان ہے؟ کہنے لگا “کیا یارو، اردو اچ ہے، تھوڑا چینج کردیتے یہ لوگاں” میں دل میں سوچا واقعی اب آپ کی طرح خالص اردو ہر کوئی تھوڑا ہی بول سکتا ہے ۔
ایک دوست کا نام قاسم تھا ،یہ مجھے بہت عرصہ بعد معلوم ہوا ورنہ میں بھی اسے ‘خاسم’ ہی کہتا تھا اور سوچتا تھا بڑا یونیک نام ہے۔ (حیدر آبادی ق کو خ کی طرح بولتے ہیں) ۔ ہر چھٹی والے دن دو کرکٹ میچ ہوا کرتے تھے، ایک صبح اور ایک سہہ پہر۔ میں فاسٹ باولنگ کروایا کرتا تھا اور بیٹنگ میں بھی ہاتھ پاوں مار لیا کرتا تھا۔ جب پہلی بار کھیلنے گیا تو پہلا اوور مجھ سے کروایا گیا۔ بیٹسمین پہلی تین بال کھیلنے کے بعد مجھے مخاطب کر کے بولا “کیا میاں، آگ لگا دے رے اِک دم”
اگلی بال میں نے وائیڈ کروا دی تو وہ بولا: “بس، اِتّا اِچ؟ تھک گئے ایسے دکھتے”
اگلی بال پر بولڈ ہوگیا تو کپتان کو یہ کہتا ہوا چلا گیا: “کیا بھیانکر بالر ہے یارو”
کوئی ڈیڑھ دو مہینے بعد اُسی ٹیم سے دوبارہ میچ ہوا تو وہی بیٹسمنین مجھے دیکھ کر بولا: “پرسوں کیا بالنگ ڈالے سو آپ”
بعد میں معلوم ہوا کہ حیدر آبادی ہر پرانا واقعہ پرسوں کا واقعہ کہہ کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں، تاریخ اور دن یاد رکھنے کا جھنجھٹ ہی نہیں۔ ایک بار میرے دو حیدر آبادی دوست آپس میں بات کرتے ہوئے بار بار ایک جملہ بول رہے تھے “بیگن کا باتاں نکّو کرو میاں” میں یہی سمجھتا رہا کہ کھانے والے بیگن کا ذکر ہورہا ہے، بعد میں معلوم ہوا کہ بیگن ایک ملٹی پرپز لفظ ہے جسکے لاتعداد مفایہم ہیں جن میں سے کچھ شاید قابلِ اعتراض بھی ہیں۔ ۔ ایک دوست کہیں بھی جاتے وقت یہ بول کر کر جاتا تھا “میں جا کے آتا” میں نے کہا یار آپ یہ کہہ دیا کرو کہ میں واپس آتا ہوں۔ “کہنے لگا میاں، واپس آنے سے پہلے جانا پڑتا، اِس لئے میں جا کے آتا” ۔ جس بندے سے اُن کی ان بن ہوجاتی تھی اُس کے لئے اکثر کہا کرتے تھے “چِندی چوراں جیسا دکھتا اِک دم” یہ لفظ بعد میں کچھ انڈین فلموں میں ارشد وارثی کو بولتے دیکھا۔
ویسے ایک فلم ہے حیرر آبادی نواب، تھوڑے قابل اعتراض لفظ بھی ہیں اِس میں لیکن حیدر آبادی کامیڈی دیکھنی ہو تو ضرور دیکھیں۔ مجھے میرے حیدر آبادی دوستوں نے ہی دکھائی تھی۔ . ایک بات جو میں نوٹ کی کہ مجھے یو پی تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ ملے جو اُردو بولتے تو بہت اچھی تھے لیکن اُنہیں اُردو پڑھنی نہیں آتی تھی، لیکن حیدر آبادیوں کی اکثریت کو اُردو لکھنا اور پڑھنا آتی تھی۔ ۔ حدیر آبادیوں کے ہاں کونڈوں کی نیاز ۱۵ شعبان کو ہوتی ہے اور عزاداری اور میلاد وغیرہ بھی بہت اہتمام سے منعقد کرتے ہیں۔ ایک باریک سا نکتہ یہ ہے کہ کونڈوں کی نیاز کا ۲۲ رجب کی بجائے ۱۵ شعبان کو اہتمام کرنا بھی آپ کے ذہن میں موجود اُن اشکال کو دور کر سکتا ہے جن کی وجہ سے آپ انتہائی لذیذ کھانوں سے خود کو دور رکھتے ہیں۔ نیاز میں اور کچھ ہو نا ہو، مرچوں کا سالن ضرور ہوتا تھا۔ میں جب پہلی بار ایک مجلس میں گیا اور سوز و مرثیہ خوانی کا آغاز ہوا تو میں ہونق ہوکر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا، برابر میں بیٹھے ایک پنجابی دوست نے ہلکے سے کان میں کہا: “توں اِتھے پیارے خان نوں سنن آیا سی؟” خیر بعد میں عادت بھی ہوگئی اور حیدر آبادیوں کی مرثیہ خوانی بھی ویسے ہی سمجھ آنے لگی جیسے اُنکی اُردو۔ ۔ میرا ایک حیرر آبادی دوست دم کی بریانی کا بہت ذکر کرتا تھا، میں نے اُسے بتایا کہ بریانی تو ہماری پاکستانی بھی بہت کمال ہوتی ہے۔ لہذا ایک دن بریانی بنانے کا ارادہ کیا۔ باقی سب تو ٹھیک تھا، لیکن جب میں نے بریانی میں ٹماٹر ڈالنے کا ارادہ کیا تو وہ قہقہہ لگا کر بولا: “کیا جی ، ٹماٹر کون ڈالتا بریانی میں؟” اگلے دن اُس نے مجھے حیدر آبادی دم کی بریانی بنا کر کھلائی، میں کھاتے ہوئے یہی سوچتا رہا کہ واقعی ہم ٹماٹراں کیوں ڈالتے بریانی میں؟ ۔ جب واپس لاہور آیا تو ایک دن ایک لاہوری دوست نے پوچھ ہی لیا “یار اے تیری اردو نوں کی بماری پئی اے؟ ” میں نے پنجابی میں جواب دیا ۔
“،یار بس تھوڑا حیدر آبادی دم لگ گیا اے”
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں