خواب یاعذاب؟۔۔۔۔ایم۔اے۔صبور ملک

کچھ دن سے طبعیت بہت بوجھل ہے،کچھ بھی لکھنے کو من نہیں کررہا،کیا لکھیں اور کیا نہ لکھیں؟ہر دن اک نیا عذاب اک نئی الجھن اک نیا مسئلہ۔کبھی کبھی تو سب کچھ مصنوعی سا لگتا ہے،عید قریب آتی جارہی ہے لیکن اک ذر ا سا بھی دل نہیں عید منانے کو،لکھنے بیٹھا تو ذہن نے ساتھ دینے سے انکار کردیا،اور حرف سوال آن کھڑاہوا کہ پہلے میاں کون سا تمہارے لکھے سے کوئی تبدیلی آگئی جو اب کشمیر فتح ہو جائے گا،پھر ایک سچی کہانی سننے کو ملی اور یوں کالم لکھنے کی تحریک مل گئی،چلیں آپ بھی پہلے یہ مختصر مگر اپنے اندر بہت سا درد بہت سی بے بسی بہت سا کرب اور بہت سے سوال لئے ہو  ئے  کہا نی سنیں،دونوں بہن بھائی ہیں،دونوں کا تعلق مڈل کلا س ہے ،باپ لاکھوں بلکہ کروڑوں دیگر پاکستانیوں کی طرح کسی نہ کسی طرح محنت مزدوری کرکے اپنے کنبے کا پیٹ پال رہا ہے،دونوں ایک درمیانے درجے کے نجی سکول میں زیر تعلیم ہیں،روزانہ گھر سے سکول جاتے ہوئے دونوں کو دس روپے خرچ ملتا ہے،اور اس روز وہ دس روپے بھی دونوں نے کھانے کی بجائے نماز کی کتاب خریدنے پر خرچ کردئیے اورکھانے کی کوئی چیز نہ ملنے پر جب بھوک نے ستایا تو دونوں نے رونا شروع کردیا،شاید ان کے باپ کی پا س دس روپے سے زائد جیب خرچ دینے کی استطاعت نہ تھی،جب ہی دونو ں بہن بھائی کونماز کی کتاب خریدنے کے لئے الگ سے دس روپے گھر سے نہ مل سکے یہ کہانی بالکل سچی ہے، جوصرف ان دونوں بہن بھائی کی کہانی نہیں،بلکہ مہنگائی اور غربت کے ہاتھو ں مجبور ہوئے ہر پاکستانی گھرانے کی کہانی ہے،بچے تو معصوم ذہن ہوتے ہیں،وہ کیا جانیں والدین کی مجبوری کو ان کے صاف سلیٹ جیسے ذہن کو کیا معلوم کہ آج کے دور میں حق حلال کی کمائی سے گھر کا خرچ چلانا کس قدر مشکل بلکہ ناممکن ہو چکا ہے،ان کو تو بس کتابیں،بستے،سٹیشنری اور جیب خرچ چاہیے،بھلے اس کے لئے والدین کچھ بھی کریں کہیں سے بھی لائیں،ان کی بلا سے،کیوں کہ وہ جب سکول اور معاشرے میں روزانہ اپنے جیسے دوسرے بچوں کو خود سے بہتر حالت زندگی میں دیکھتے ہیں وہ جب سکول میں کھاتے پیتے گھرانوں کی چشم وچراغوں کو عیش کرتے دیکھتے ہیں تو کبھی خود کے پاس پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کسی کونے میں کھڑے ہو کر رو لیتے ہیں یا پھر اگر ان کا ذہن مثبت کی بجائے منفی سوچوں میں گھر جائے تو پھر چوری جس کا آغاز ساتھی طالب علمو ں کے بستے سے ہوتا ہے اور جس کا انجام یا تو جیل کی کوٹھری ہوتی ہے یا پھر خدا نخواستہ پولیس کی اندھی گولی۔۔۔۔

ہم جھٹ سے کسی بھی پولیس مقابلے کے بعد مجرم کو گالی دے کر یا غصہ نکال کر خاموش ہو جاتے ہیں،لیکن کبھی ایک لمحے کے لئے رک کر یہ نہیں سوچتے کہ کوئی بھی ماں کے پیٹ سے مجرم بن کر پیدا نہیں ہوتا،یہ معاشرہ اور ماحول اور انسانی رویے اور سب سے بڑھ کر احساس محرومی ہوتا ہے جو کسی بھی انسان کو جرائم کی راہ پر لے جاتا ہے،پاکستان میں ہر نئی آنے والی حکومت نے اور کچھ کیا ہو یا نہ ہو ایک کام ہر ایک نے ضرور کیا ہے اور وہ ہے جانے والے کی برائی،خود کو پارسا ثابت کرنا،ملک کو پہلے سے زیادہ قرضوں میں جکڑنا اورہر دوسال بعد دودھ اور شہد کی نہریں بہہ نکلنے کے جھوٹے خواب قوم کو دکھا کر اپنا اُلو سیدھا کرکے گھر چلے جانا اور کچھ عرصے بعد پھر سے مظلومیت کا ڈراما کر کے کہ جی ہمیں تو کھل کر کام ہی نہیں کرنے دیا گیا،ہمیں تو خزانہ خالی ملا،لیکن ان سب کے باوجود بھی کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں،ہر بار قربانی کا بکرا اس قوم کو ہی بننا پڑتا ہے،اب تبدیلی سرکار کو ہی لے لیجئے،کیا کچھ خوا ب عمران خان نے اس قوم کو نہیں دکھائے،وہ 90دن میں سب کچھ بدل دینے کے خواب،وہ بیرون ملک سے لوگوں کے جم غفیر کا نوکری کے لئے پاکستان آنے کی باتیں،گورنر ہاوسز کو لائبریری اور وزیر اعظم ہاوس کو یونیورسٹی بنانے کی باتیں،لیکن اس خواب سے جاگنے پر معلوم پڑا کہ یہ تووہ سحر نہیں جس کا چرچا بہت سنا تھا،ہم تو شروع دن سے ہی کہہ رہے تھے کہ ان تلوں میں تیل نہیں،بھلا جو بھان متی کا کنبہ جوڑ کر عمران خان سنگھاسن پر براجمان ہو ئے ہیں،وہ اگر اتنے ہی قابل اور لائق ہوتے تو اپنے سابق آقاؤں کو چوکھٹ چھوڑ کر در عمران پر کیوں سجدہ ریز ہوتے اور جب یہی چلے ہوئے کارتوس جو آج عمران خان کی کابینہ اور اردگرد نظر آتے ہیں،اتنے اہل تھے تو اپنے سابق باس خواہ وہ زرداری ہو یا مشرف کے دور اقتدار میں کوئی معجزہ دکھا دیتے،یا ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے جو اب کھل گئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حقیقت تو یہ ہے صاحبو کہ پاکستانیوں کے ساتھ ایک بار پھر ہاتھ ہوگیا ہے،اور تبدیلی کے نام پر انتہائی نااہل اور ابن الوقت قسم کے لوگ ہم پر مسلط ہو چکے ہیں،جن کے پاس اس قوم کو مہنگائی،غربت،افلاس،چبے روزگاری اور جھوٹی طفل تسلیوں کے سوا اور کچھ نہیں،آج پاکستان مہنگائی کی جس چکی میں پس رہا ہے اس کی ساری ذمہ داری عمران حکومت اور اسکے نااہل ترین لوگوں پر عائد ہوتی ہے،اپنی غلطی کو سابقہ حکمرانوں کے سر پر ڈال دینے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی۔آئی ایم ایف سے ہونے والی تازہ ڈیل کے ثمرات آنے والے چند دنوں میں کھل کر سامنے آجائیں گے،اور پھر اس قوم کا جو حشر ہونا ہے اس پر کسی پی ایچ ڈی کی ضرورت نہیں،کسی بھی ریاست میں معیشت بنیادی حیثیت کی حامل ہوتی ہے،کیونکہ زندگی کا ہر شعبہ اس سے بلاواسطہ یا بلواسطہ جڑاہوتا ہے،مثال کے طویر پر صرف ایک پٹرولیم مصنوعات،بجلی اور گیس کی قیمتیں ہی بڑھ جانے سے ہر شے کی قیمت خود بخود بڑھ جاتی ہے، اور اب تازہ ترین ٹیکس ایمنسٹی سکیم،جس کی ماضی قریب میں سلطنت نیازیہ کے بادشاہ ہر فورم پر شدومد سے مخالفت کیا کرتے تھے،کل تک جو چیز حرام تھی اب وہ اپنی باری پر حلال کیسے ہو گئی؟کہیں ایسا تونہیں کہ حکومت کی اپنی صفوں میں ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو اپنے ایک پاؤ دودھ کے لئے دوسرے کی بھینس ذبح کرنے کے چکر میں ہیں،کیونکہ ٹیکس ایمنسٹی کا ایک بڑا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ ریاست اور ریاست کے ٹیکس جمع کرنے والے ادارے اپنی فرائض کی بجاآوری میں  ناکام ہو چکے ہیں، لہذا ایسی صورت میں ریاست کو ایمنسٹی سکیم لانا پڑجاتا،اوراگر اسے بارے میں کسی حکومتی نمائندے یا نیازی سرکار سے پوچھا جائے تواس کا جواب بھی یقینا ً نیازی صاحب یا ان کے حواریوں کے پاس سوائے آئیں بائیں شائیں اور بغلیں جھانکنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا،دم توڑتی پاکستانی معیشت کو اس وقت جو خطرات لاحق ہو چکے ہیں ۔اسان کا تقاضا تو یہ ہے کہ حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کی بجائے اپوزیشن سے ملکر کوئی ٹھوس لائحہ عمل اپنائے وگرنہ یہی حال رہا تو آنے والے وقت جو کہ بہت قریب آچکا ہے،کہیں ہمیں شکر لینے کے لئے پیشے بوریوں میں نہ لے جانے پڑجائیں اورخدانخواستہ یہ صورتحال مسلم دنیا کی واحد ایٹمی مملکت کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے،ابھی بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لے کر صورتحال کو سنبھالا دیا جائے،

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply