افطاری سے ذرا پہلے۔۔۔۔سلیم مرزا

مہنگائی اور بیوی کا آپ کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اور یہ جب جہاں چاہیں آپ کا دماغ اور معیشت خراب کرسکتی ہیں ۔بیوی ایسی جادوگر پیرنی ہے جو کہیں بھی شوہر کو صارف اور صارف سے پھر شوہر بنا سکتی ہے۔ ۔

الو یا گدھا تو وہ پہلے سے ہوتا ہی ہے، لہذا عموماًًً  یہ فطرت سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرتیں۔
بیگم عموماًًً  آپ کیلئے یا آپ کو کچھ بنانے میں لگی رہتی ہے، یہ الگ بات کہ آنچ یا مصالحہ تیز  ہوجائے تو بندہ” پی ایم ” بھی بن سکتا ہے ۔
مگر اس کیلئے آپ کا رن مرید ہونے سے پہلے کا مرید ہونا ضروری ہے۔
بیس سالہ ازدواجی زندگی میں وہ لمحات بہت کم ہیں جب مجھے شک ہوا  ہو کہ میں کسی زاوئیے سے خاوند ہوں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

رعایا نہ مجھے حکومت سمجھتی ہے نہ بیوی، کیونکہ اس سے عوام کو حقوق دینا پڑتے ہیں ،لہذا گھر اور باہر میں ایک جیسا مفتوح ہوں ۔
اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ مزاح نگار کی بیگم اسے کچھ رعائت دیتی ہوگی ان کی سوچ غلط ہے ،بیگمات کے نزدیک حس مزاح چھچھور پنا ہے اور وہ خود ایک باوقار خاتون ہے ۔ لہذا فری نہیں ہونے دیتی
اسی طرح حکومت کا وقار بھی اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھا کر قائم رہتا ہے ۔ اس سے عوام میں احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے ۔اور آبادی بھی کنٹرول میں رہتی ہے ۔
عموما ًًً بیگم کا ایک میاں ہوتا ے، لیکن گوجرانوالہ کے ہر میاں کے پاس رقبے کے لحاظ سے ایک میانوالی ہوتی ہے جس کے سامنے شوہر میانچنوں لگنے لگتا ہے ۔
رمضان میں بیگم سے جب بھی مسکرا کر بات کرنے کی کوشش کی تو اس کا ردعمل یوں ہوتا ہے جیسے مندے کا شکار، اکتائے ہوئے ٹھیلے والے سے سیبوں کا ریٹ پوچھا ہو ۔
یہی حال مہنگائی کا بھی ہے،
کچھ پوچھنے ہی نہیں دیتی ۔۔۔
میری زندگی اقتصادی لحاظ سے ویسے بھی ایسی ہے جیسے نصیب لکھتے وقت آئی ایم ایف سے مشورہ لیا گیا ہو،۔
لہذا بلا ضرورت کبھی” کسی” بازار جانا نہ ہوا ، اور اگر کبھی گئے، تو تاڑا تاڑی ہمیشہ خریداری سے زیادہ کی،بیوی اور مہنگائی کے بارے تمام مسالک اور مومنین ایک نقطے پہ متفق ہیں کہ دونوں پہ کنٹرول رہنا چاہیے، اور اس معاملے میں کبھی جذباتیت سے کام نہیں لینا چاہیے ۔جنہوں نے الیکشن میں جذبات کو اھمیت دی آج سب بنگلہ دیش اور انڈیا کی ترقی کا، ڈھنڈورا  پیٹ رہے ہیں سب کا اس مولوی جیسا تھا جو حوروں کے حسن کی تعریف کرتے کرتے اتنا جذباتی ہوگیا کہ کہنے لگا “اے ایمان والو، اور کیا بتاؤں بس موذن کی بیوی کو دیکھ لو۔۔۔
چنانچہ بھوک سے مرتی عوام اب اسٹیبلشمنٹ کے ہینڈسم وزیراعظم کو دیکھ دیکھ خوش ہورہی ہے ۔
مجھ میں اور عمران خان میں بہت کچھ مشترک ہے ہم دونوں کا بیگم اور مہنگائی   پہ کنٹرول نہیں، ہم دونوں ایک ہی طرح کا سیاپہ کر رہے ہیں عمران نو ماہ سے نوازشریف کو کوس رہا ہے اور میں موجودہ حکومت بنانے والوں کو، مگر جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے جب عمران خاں اپنے لانے والوں کی جان کو رو رہا ہوگا، اور میں کسی نئے آنے والے کا سیاپہ کر رہا ہوں گا۔
کیونکہ بیگم اور حکومت بدلنے کا اختیار میرے اور عمران کے پاس نہ پہلے تھا ۔نہ آئندہ ہوگا۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”افطاری سے ذرا پہلے۔۔۔۔سلیم مرزا

  1. “مگر اسکے لیئے آپکا رن مرید ہونے سے پہلے کا مرید ہونا ضروری ہے”
    کمال تحریر. ایک ایک جملہ قابل ستائش.

Leave a Reply to بابر رشید Cancel reply