پَب جی گیم، ایک خطرناک معاشرتی بگاڑ۔۔۔اکرم بلوچ

پب جی (Player Unknown’s Battle Grounds ، in short PUBG) ایک ویڈیو گیم ہے۔ کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی نے ویڈیو گیمز تک پہنچ کو سستا اور آسان بنایا ہے۔ اس گیم سے معاشرہ کا ہر فرد واقف ہوگا۔ اس گیم کو زیادہ تر بچے اور نوجوان کھیلتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے باقاعدہ ٹورنامنٹ ہوتے ہیں۔ اس گیم کو 2017 میں کوریا کی ایک کمپنی Bluehole نے بنایا تھا۔

ویسے بھی جتنی ویڈیو گیمز ہیں، ان کے منفی اثرات استعمال کرنے والوں پر ہوتے ہیں۔ لیکن پَب جی ایک ویڈیو گیم ہیں۔ اس میں جتنے بھی حصہ دار کھلاڑی ہوتے ہیں، ان سب کے ساتھ وہی سامان ہوتے ہیں جس طرح کے سامان حقیقی جنگ میں کسی ملک کی فوج کے ساتھ ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص اس گیم کو جیت جاتا ہے تو اسے ایک فرضی چکن برڈ ملتا ہے؛ محض ایک چکن برڈ۔ جس کے لیے نوجوان اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں۔

اس ڈجیٹل کھیل کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کے استعمال کرنے والے سماج اور سماجی معاملات سے آہستہ آہستہ کنارہ کش ہو جاتے ہیں اور اکیلا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس گیم کے طبعی لحاظ سے بھی بہت سے نقصانات ہیں۔ وقتی طور پر کوئی شخص کھیلتا ہے، اسے پتہ نہیں چلتا۔ لیکن اس گیم کے وجہ سے موبائل فون سے جو شعاعیں نکلتی ہیں، وہ انسانی دماغ اور آنکھوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ایک ہی جگہ پر زیادہ دیر بیٹھے رہنے سے ہمارے پٹھے جسم میں موجود چربی کو کم تعداد میں گرم کر دیتی ہیں اور ہمارے جسم میں موجود خون سست رفتار میں بہتا ہے۔ یہ عمل ہمارے جسم میں موجود چربی کو دل کی رفتار کم کرنے یا روکنے میں معاونت دے سکتا ہے جو ہماری صحت کے لیے خطرناک ہے۔

محققین ہائی بلڈ پریشر اور ہائی کولیسٹرول کو ایک ہی جگہ ذیادہ دیر بیٹھے رہنے سے بھی منسلک کرتے ہیں۔ جسم میں خون کی سست رفتار ٹخنون میں سوجن اور پھولی ہوئی رگوں کا باعث بھی بنتی ہے۔

اس ڈیجیٹل گیم کی وجہ سے ڈیجیٹل پلیئرز نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتے ہیں۔ ان کے ذہن میں ہمیشہ لڑائی، مار پیٹ، تشدد کے بارے میں خیالات آتے رہتے ہیں۔ عام زندگی میں بھی یہی خیالات ان کے ذہن میں اکثر آتے رہتے ہیں۔

کئی نوجوان اس کے باعث منشیات کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ گیم کھیلنے کے دوران گالم گلوچ کا ماحول ہوتا ہے۔ اکثر ماہرین کا کہنا ہے پب جی گیم نوجوانوں میں جرائم اور تشدد کو پروان چڑھا رہی ہے۔ جن کے گھر میں بچے کھیلتے ہیں یا جن کے دوست کھیلتے ہیں انہوں نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ یہ گیم کھیلنے والا شخص اپنی ماحول سے کتنا بیگانہ ہے۔ وہ اپنی فیملی اور دوستوں سے کتنا دور رہتا ہے۔

معاشرے کے اس بڑھتے ہوئے نقصان کو دیکھ کر اس بار ہم نے اپنے قلم کو اس جانب موڑ دیا۔

والدین سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو اس گیم سے دور رکھیں۔
حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ اس گیم پر پاکستان میں پابندی لگائے اور آنے والی نسلوں ایک خاموش تباہی سے بچائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کھیل سے ہمارے نوجوان متشدد اور اعصابی بیماریوں کا شکار ہو کر ضائع ہو رہے ہیں۔
خدارا، اس کھیل کے خلاف میدان میں اُتر کر سب سے پہلے قریبی عزیزوں اور دوستوں کو اس کھیل سے دور رکھنے کی حد درجہ کوشش کریں۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply