قوم اور قوم پرستی کا فلسفہ۔۔۔۔۔عمران شاہد بھنڈر

قوم اور قوم پرستی جیسے تصورات کی حیثیت بالائے تاریخ یا ماورائے سماج نہیں ہے کہ جو ازل سے موجود تھے اور ابد تک موجود رہیں گے۔ ’قوم‘ کا لفظ تاریخ میں پہلی بار تیرھویں صدی میں استعمال ہوا تھا،جبکہ قوم پرستی کی اصطلاح پہلی بار اٹھارویں صدی میں فرانسیسی انقلاب کے دوران فرانسیسی پادری آگسٹن بارئیل نے استعمال کی تھی۔ قوم پرستی کی اصطلاح کو انقلابِ فرانس نے استحکام بخشا۔ جس کا حقیقی محرک فرانسیسی فلسفی ژاں ژاک روسو کے 1764 میں لکھی گئی کتاب ’معاہدہ عمرانی‘ میں پیش کیے گئے انقلابی خیالات تھے، جو اقوام کے بارے میں ماضی کے تمام رائج تصورات سے بنیادی طور پر مختلف تھے۔ روسو کے تصورِ قوم میں بادشاہوں اور فرما رواؤں کے اس بنیادی تصور کو دلائل سے مسترد کردیا گیا تھا جس کے تحت وہ خود کو طاقت یا پیدائشی حق کی بنا پر حکومت کرنے کا اہل سمجھتے تھے۔’معاہدہ عمرانی‘ کے تحت ریاست کی طاقت کو چیلنج کیا گیا اور آزادی، انصاف اور اخلاقیات جیسی اقدار کی بنیاد قوم کے اجتماعی مفاد میں رکھی گئی اور قوم کے’’ اجتماعی ارادے‘‘ کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ یہی وہ جدید جمہوریت کا تصور ہے جو فرانسیسی انقلاب اور روسو کے خیالات سے طلوع ہوا۔ اس سے پہلے کوئی بھی قوم بادشاہوں، فرما رواؤں اور شہنشاہوں کے نام سے جانی جاتی تھی۔رعایاکا فرض محض یہ تھا کہ وہ شہنشاہ یا فرماں روا کی اندھی اطاعت کریں۔ اس طرح عوام کا اپنا کوئی وجود یا شناخت نہیں تھی۔ صنعت کے ارتقا سے جونہی متوسط طبقات اشرافیہ کے مدِ مقابل آئے تو سماج کے مفلس اور نادار طبقات کے ساتھ اتحاد سے قوم کا تصور نہ صرف تشکیل پایا بلکہ اسے تقویت بھی ملی۔لہذا قوم پرستی کی اصطلاح جسے بعد ازاں مقتدر طبقات نے یرغمال بنالیا، اس کا آغاز قوم یعنی عوام کی مرکزیت کے تصور کے تحت ہوتا ہے ۔ اس تناظر میں دیکھنے سے یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ ’قوم‘ کوئی ایسا تجریدی تصور نہیں ہے کہ جس کی کوئی تاریخی یا سماجی بنیاد نہ ہو یا جو حیاتیاتی یا نفسیاتی طور پر انسان کے اندر موجود ہے۔

قوم پرستی کے تصورات کے تحت انیسویں صدی امریکہ اورمغربی دنیا کی ازسرِ نو تشکیل کی صدی کہلاتی ہے۔ انیسویں صدی کے آغاز میں امریکہ میں سائمن بولیور نے قوم پرستی کے خیالات کے تحت ہسپانوی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ روس، ترکی اور آسٹریا جیسی عظیم سلطنتوں کا خاتمہ ہوا ، جس کے نتیجے میں پولینڈ، یوگوسلاویا، فن لینڈ، ہنگری اور چیکوسلواکیہ جیسی ریاستیں وجود میں آئیں۔ جرمنی اور اٹلی جو مغربی ممالک کی آپسی جنگوں کے دوران ٹوٹ چکے تھے، قوم پرستی کے تصورات کے تحت وہ متحد ہوئے۔انیسویں صدی میں قوم پرستی کی بنیاد پر آزادی کی بہت سی تحاریک چلیں۔ وجہ اس کی یہ کہ قوم پرستی کے تصور میں بادشاہوں کے برعکس عوام کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ فرانسیسی انقلاب سے عوام کی مرکزیت کا تصور ابھر چکا تھا۔ سرمایہ داری نظام کے ارتقا سے نئے سماجی رشتوں کی بنیاد پڑی جس سے سماج کے ہر شعبے میں ترقی پسندانہ رجحانات کا تعین ہورہا تھا۔ ا س لیے انسانی حقوق کی غاصب ، جابر اور تشدد پسند پرانی سلطنتوں کا انہدام ہونا لازم تھا۔ یہی وہ عہد ہے جسے روشن خیالی کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ روشن خیالی سے ہم آہنگی کا نتیجہ ہی تھا کہ جس نے قوم پرستی جیسے رجحانات کو تقویت بخشی۔ روشن خیالی نے لبرل جمہوریت کو پروان چڑھایا اور انسان کے لیے آزادی، انصاف، مساوات، انفرادیت اور عقل کی بالادستی کو انسان کے بنیادی حق کے طور پر تسلیم کرلیا۔ پسی ہوئی اقوام کے رہنماؤں نے روشن خیالی کے مبلغ فلسفیوں کے انہی خیالات کو اس سوال کے ساتھ مستعار لے لیا کہ اگر یہ اقدار’فرد‘ کے لیے درست ہیں تو اقوام کے لیے کیوں نہیں؟ اس طرح جو آدرش’ فرد‘ کے لیے لازمی قرار پائے وہی اقوام کے لیے مثالی اصول بن کر ان کے حقِ خود اختیاریت کا تعین کرنے لگے۔ اوراس طرح مغربی ممالک میں اقوام کی تشکیل کا عہد اپنی تکمیل کی جانب بڑھنے لگا۔

سیاسی نظریہ ساز جب قوم پرستانہ رجحان کو بطورِ آئیڈیالوجی یا ایک سیاسی اصول کے طور پر اختیار کرلیتے ہیں تو انہیں کسی نہ کسی سطح پر جاکر ان اجزائے ترکیبی کی تشریح و تعریف کرنی پڑتی ہے جن سے کسی قوم کی جداگانہ شناخت قائم ہوتی ہے۔ سیاسی نظریہ سازوں، سماجی دانشوروں، اورفلسفیوں کی ’قوم‘ کے بارے میں کی گئی تعریف میں فرق ہوتا ہے۔ ایسا فلسفی جو خود کو سیاسی مفادات کے حصار میں مقید نہیں کرتا وہ کسی بھی آئیڈیالوجی کی بہتر تعریف کرنے کی حیثیت رکھتا ہے، جبکہ سیاسی آئیڈیالوجی سے تحریک پانے والی تعریف و تشریح میں صرف حکمرانوں کے مفادات ہی کو پیش نظر رکھا جاتا ہے، لہذا اس میں پراپیگنڈا کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ عمومی طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ہر قوم کاا پنا ایک حیاتیاتی اور نفسیاتی پس منظر ہوتا ہے، وجہ یہ کہ ہر قوم ایک طرح کی نامیاتی وحدت ہوتی ہے، جو اخلاقیات، روایات، ثقافتی، لسانی اور مذہبی و روحانی عقائد کی بنیاد پر متشکل ہوتی ہے۔ اور جو دوسری اقوام سے خود کو انہی اقدار کی بنیاد پر ممیز کرتی ہے۔تاہم عالمی تاریخ کا مطالعہ بہت مختلف حقائق پیش کرتا ہے، جن سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی بھی قوم کی حتمی تعریف کرنا ممکن نہیں ہے۔خیالات و افکار اور ثقافتی، مذہبی و روحانی اقدار کی قبولیت و استرداد کا عمل کسی بھی قوم کے فکری و نظری ارتقا میں جاری رہتا ہے، ان عوامل کا تجزیہ کسی بھی قوم کی نامیاتی وحدت کے تصور کو شکست و ریخت سے دوچار کردیتا ہے۔ قوم پرستی کی کوئی بھی شکل ہو، اس کی بنیاد میں ’شناخت‘ کا تصور پیوست ہوتا ہے۔ تصورِ شناخت ہی کو بنیاد بنا کر علیحدگی یا اتحاد کی تحریکیں چلائی جاتی ہیں۔ تاریخ عالم بتاتی ہے کہ اقوام کی ’شناخت‘ میں کوئی ایسا باطنی یا جبلی جوہر نہیں ہے کہ جو اقوام کی تشکیل کے تصور میں یکساں کردار ادا کر رہا ہو۔ اقوام مختلف عوامل کی بنیاد پر اپنا تصورِ شناخت قائم کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

زبان کسی بھی قوم کی وحدت کا ایک بنیادی عنصر تصور کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جرمنی میں قوم پرستانہ رجحان کی بنیاد میں زبان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جرمنی مختلف ٹکڑوں میں منقسم تھا، ا س کی قومی وحدت میں زبان کو ایک بنیادی عامل کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، یعنی جرمن قوم پرستی کی تشکیل میں زبان کا کردار فیصلہ کن رہا ہے۔اس کے علاوہ جرمن خود کو آریائی نسل کا تسلسل سمجھتے ہیں، یہودیوں کی نسل کشی جرمن قوم پرستی کی برتری کے تصور کے تحت عمل میں آئی تھی۔جرمنی کے برعکس سوٹزرلینڈ میں جرمن، فرانسیسی اور اطالوی زبانیں بولی جاتی ہیں، لیکن یہاں زبان کی بنیاد پر قوم پرستی کا تعین نہیں کیا جاتا، اس لیے یہاں کسی بھی آزادی کی تحریک چلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ فلسطین اور سعودی عرب میں عربی زبان بولی جاتی ہے مگر سعودی عرب فلسطینی باشندوں پر صیہونی وحشت و بربریت کی مذمت کم ہی کرتا ہے۔ برطانیہ اور آسٹریلیا میں انگریزی زبانیں بولی جاتی ہیں مگر یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو روایتی حریف سمجھتے ہیں ۔ زبان کی بنیاد پر وحدت کا تصور محض ایک واہمہ ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply