غالب خامہ بدست سیریز(۱) قاری اساس منظوم تنقید۔ ۔۔ستیہ پال آنند

وفا داری، بشکل ِ استواری، اصل ِ ایماں ہے

مرے بُتخانہ میں تو کعبہ میں گاڑو براہمن کووفاداری؟ وفا کیشی، کھرا پن، کلمہ ؑ حق ہے

مگر اک شرط ہے یہ حق شعاری مستقل ہو ۔۔۔ پائداری،استقامت، جاری و ساری رہے مرنے کے لمحے تک!

مگر کعبہ میں کیوں گاڑو براہمن کو؟
بھلا کیوں؟
بُت پرستی شیوہ ٗ زنّار بنداں تو ہے، لیکن
اس پہ بھی کچھ روشنی ڈالیں
کسی ہندو پجاری کو بھلا الحاد کا اعزاز دینا؟

اے چچا غالب، بتائیں ، کیوں؟

ذرا پہچان مجھ کو عیب جُو آنند، میں نے ہی
کہا تھا اس اباحت کی حمایت میں ۔۔۔۔۔
نہیں کچھ سجہ و زنّار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے!!

کہا تو آپ نے ہی تھا، مگر کچھ غور فرمائیں، چچا غالبؔ “مرے بُتخانہ میں تو کعبہ میں گاڑو براہمن کو” مری تردید یا ترمیم تو بس “گاڑنے” تک ہے ۔۔۔۔ کہ جو ممنوع ہے اِن متشکک ، ایمان سے عاری گنواروں میں ۔۔۔ کہ ہم “گاڑو” کہیں یا “دفن کرنے کی “ارادت”۔۔۔۔۔۔ بات آخر ایک جیسی ہے ! مرے بتخانہ میں تو کعبہ میں “گاڑو” برہمن کو ۔۔۔؟ تو گویا آپ نے ہندو پجاری کے لیے ۔۔۔ “تعظیم” میں “تضحیک” کا پہلوبھی رکھا ہے۔ بہت چالاک ہیں لفظوں کے داؤ گھات میں میرے چچا غالب!

مرے بُتخانہ میں تو کعبہ میں “گاڑو ” براہمن کو چلیں پوچھیں ذرا اک بار پھر، شاید ہمیں۔۔۔ کوئی معقول پاسُخ مل بھی جائے ۔۔۔ہاں ۔۔۔ چچا غالب سے کچھ بھی تو بعید از دسترس ہونا بعید از عقل ہونے کے برابر ہے میاں آنند۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply