تم اپنی کرنی کر گزرو —راؤ شاھد

ہر ماہ دو ماہ بعد کی طرح اس مہینے بھی جنوبی پنجاب میں وہی کچھ دیکھا جو آباؤاجداد70 سال سے دیکھتے آ رہے ہیں ۔ دفاعی، پیداواری اور علمی اعتبار سے ملک کا سب سے اہم علاقہ اور اس میں تقریبا 400 کلومیڑ طویل ریاست بہاولپور، (بہاولنگر-بہاولپور-رحیم یار خان تین ڈسٹرکٹ پر محیط) نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی کی حکمرانی میں پاکستان میں شامل ہونے والی نہ صرف پہلی ریاست تھی بلکہ امیر ترین ریاست تھی۔ جس نے پاکستان کے پہلے بجٹ کا 70 فیصد بہاولپور سے ادا کیا تھا ۔ ون یونٹ ٹوٹنے اور غیر منصف حکمرانوں کے ہاتھوں ریاست اپنی شناخت کھو چکی ہے اور افسوس آج وہی ریاست دور دراز اور پسماندہ علاقہ کہلاتی ہے ۔ اسی طرح پاکستان کا جنکشن ڈیرہ غازی خان جو چاروں صوبوں کو آپس میں ملاتا ہے اور جغرافیائی اعتبار سے اہم ترین علاقہ ہے۔جس کے ایک کونے میں معروف بزرگ حضرت سخی سرور کا مزار اور کوہ سلیمان کا سلسلہ جس میں جنوبی پنجاب کا واحد صحت افزاء مقام فورٹ منرو ہے جو اونچائی میں مری کے پہاڑوں کے برابر ہے ۔ لیکن افسوس صد افسوس گڈ گورننس اور ترقیاتی منصوبوں کی چمپئن مسلسل 9ویں سال پنجاب پر حکمرانی کرنے والی جماعت جس کے دور حکومت میں اس مثل کے ڈر سے کہ بغیر دروازے کے گھر کتوں کا بسیرا ہے تمام شہروں کے دروازے توبنوا دیے گئے لیکن ان دروازوں کے اندر رہنے والے کس کرب اور مصیبت میں اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں اُس سے لا تعلق ہے۔

سمجھ نہیں آتا شروع کہاں سے کروں اور ختم کہاں کروں ساہیوال سے راجن پور رحیم یار خان بہاولپور وہاڑی ملتان خانیوال مظفر گڑھ اور لیہ محرومیوں اور پسماندگی میں ایک دوسرے سے آگے۔ کراچی کو لاہور اور پشاور سے ملانے والی کے ایل پی روڈ ہو یا کراچی – پشاور شارٹ کٹ روٹ انڈس ہائی واے انہی علاقوں سے ہو کر گزرتی ہیں۔ لیکن نادان یا اپنے مفاد کیلئے بہت زیادہ سمجھدار حکمران غافل کیوں رہے اور کیوں ہیں ۔ کوٹ مٹھن کو رحیم یارخان سے ملانے والا دریائے سندھ کا پُل 70 سال سے بن ہی نہیں پا رہا اگر کہیں یہ بن جائے تو 6 گھنٹےکی مسافت صرف 10 منٹ میں طے ہو جائے ۔ ڈیرہ غازی خان سے ملتان تک کا 96 کلومیٹر کا سفر جو موٹروے یا لاہور کے آس پاس کی سڑکوں پر صرف 45 منٹ میں طے کیا جاتا ہے اس علاقے میں اڑھائی سے 3 گھنٹے میں طے کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ان سڑکوں پر نہ تو کوئی ملٹی نیشنل کمپنی کا مالک گزرتا ہے نہ کوئی حاکماور نہ کوئی ہاؤسنگ بلڈر بلکہ یہاں سے تو پورے پاکستان کو گندم کپاس اور گنا اُگانے اور سپلائی کرنے والا کسان اور دور دراز محنت مزدوری کیلئے گئے افراد کا گزر ہوتاہے۔ پاکستان کے دو بڑے دریا چناب اور سندھ بھی انہی علاقوں کو عبور کرتے ہیں اور جب کبھی موسم اور حکمرانوں کی طرح لوگوں پر غصہ آجائے تو اُن کے گھروں تک جا پہنچتے ہیں ۔

آئیے ڈیرہ غازی خان سے( 180 کلو میٹر )4 گھنٹے سفر طے کر کے ملتان سے ہوتے ہوئے بہاولپور چلتے ہیں۔ 2008 سے تکمیل کے مراحل طے کرتی بہاولپور تا حاصلپور 90 کلومیٹر روڈ لاہور میں 60 دن 90دن اور چند ماہ میں مکمل ہونے والے اربوں کھربوں کے منصوبوں کا منہ چڑا رہی ہے- اور اپنی قسمت پر نازاں ہے کیونکہ یہ قیمتی اور نصیبوں والا پروجکٹ ہے جس نے 2008 اور 2013 کا الیکشن جتوایا اور 2018 کیلئے بھی ایک گوہر ناباب کی طرح اپنے وارثوں کے ماتھے کا جھومر بننے کو بے تاب ہے۔ ہر الیکشن میں ووٹوں کی صندوقچی اس لیے تو بھر جاتی ہے کہ روڈ علاقے کی ضرورت ہے اور ووٹ افتتاحی تختی والوں کی۔

گزشتہ دنوں ایک دوست کے دادا کو ہارٹ اٹیک آیا۔ ایمرجنسی میں پہنچے تو ٹیبلٹ نہیں تھی، سامنے والے سٹور سے بھاگ کر گولی لائے تو ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر غائب تھا۔ ایک اور جاننے والے کا اڑھائی سال کا بچہ جو دودھ گر جانے کی وجہ سے صرف 30 فیصد جھلس گیا تھا بروقت طبی امداد نہ ملنے پرفوت ہو گیا۔ ایک 14 سالہ بچی اپنی ماں کا آپریشن کروانے آئی ماں کا آپریشن تو نہ ہوا لڑکی ہسپتال کے کمپوڈروں کی ہوس کا نشانہ بن گئی۔ خیر یہاں لاہور جنوبی پنجاب سے بازی نہیں لے سکا۔ وہاں بھی ہسپتالوں کے حالات کچھ ایسے ہی ہیں ۔ دل کے مریضوں کو ایجیوگرافی اور معمولی ٹسٹ کرنے کیلئے 3 یا 4 سال بعد کی تاریخ دی جاتی ہے۔ کل ہی ایک دوست معین سخت پریشانی اور ایمرجنسی کے عالم میں ڈاکٹر کا تجویز کردہ رگوں کا ٹسٹ کروانے گئے تو 3 ماہ بعد کا ٹائم ملا ۔ ہزاروں روپے ٹیکس ادا کرنے والے اس بے چارے نے آخر کار ہزاروں روپے بھر کر پرائیوٹ ہسپتال سے ٹسٹ کرایا۔ ایک 23 سالہ لڑکا جیل روڈ پر سروسز ہا سپٹل کے سامنے اپنی ماں اور دو بچوں کے سامنے اس لیے زندگی کی بازی ہار گیا کیونکہ کروڑوں روپے کا سگنل فری زون اور انڈرپاسز بننے کی وجہ سے 80ہزار روپے کا ونٹیلیٹر ہسپتال میں دستیاب نہیں تھا۔

سنو ظالمو تم شیر شاہ سوری بننا چاہتے ہو، امیرُالمومنین یا مغل حکمران۔۔۔ تمھیں بھی ایک دن 6 فٹ کی کچی قبر میں جانا ہے ۔ اور جو لباس پہن کر تم لحد میں اُتروگے وہ نہ تو کسی خاص برینڈ کا ہو گا اور نہ اُس میں جیب ہوگی۔ اپنے گھر کی جس دیوار پر تم نے مغل حکمرانوں کی تصویریں ٹانگ کر اپنی تصویر کی جگہ خالی چھوڑ رکھی ہے وہاں حضرت علی رض کا یہ قول لکھ کر لگا لو کہ کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں ۔ یاد رکھنا خدا اُس وقت تک معاف نہیں کرتا جب تک اُس کی مخلوق معاف نہیں کرتی۔ اور بظاہر تو مخلوق کا معاف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لگتا۔ سو تم اپنی کرنی کر گزرو جو ہو گا دیکھا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

(راؤ شاہد، سینئر پروڈیوسر سماء ٹی وی لاہور اور سیکرٹری جنرل الیکٹرانک میڈیا پروڈیوسرز ایسوسی ایشن ہیں۔) 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply