ترے ہوتے ہوئے یہ زندگی جیسی بھی تھی۔۔۔۔۔سعید ابراہیم

وہ کون تھی جس سے برسوں پہلے ملاقات ہوئی جب مجھے این سی اے میں داخل ہوئے ایک برس ہی ہوا تھا۔ خلیق احمد (بولان فلم ایوارڈ فیم) کا آئیڈیا تھا کہ این سی اے سے ملحق میوزیم کے ایجوکیشنل ہال میں سات روزہ ادبی/ثقافتی پروگرام کیا جائے۔ ہم بھی شوق شوق میں ساتھ جڑ گئے۔ تب ہم جیسے گوجرانوالہ سے آئے ہوئے پینڈو نے پہلی بار گورے چٹے، لحیم شحیم، پُروقار محمد علی کو فلم سکرین کی بجائے سفید براق پینٹ کوٹ میں رُو بہ رُو دیکھا اور ہاتھ بھی ملایا اور سماعت نے مائیک کے بغیر ان کی اوجنل گھمبیر آواز کا ذائقہ چکھا۔ صبیحہ سنتوش، بہار بیگم، اسلم پرویز، ادیب، ملکہ پکھراج اور طاہرہ سید جیسی ہستیوں کو قریب سے دیکھا بھی اور ان سے باتیں بھی کیں۔ پہلی بار سٹیج پر بیٹھ کر بالکل کسی ٹی وی میزبان کی طرح ان کے انٹرویو کئے اور اپنے اندر ایک چھوٹا موٹا انور مقصود دریافت کیا۔

انہی پروگراموں میں ایک پروگرام مشاعرے کا بھی تھا، جس میں لاہور کالج فار وِمین کی طرف سے وہ بھی شریک تھی اور اس کے ساتھ اس کی کلاس فیلو ناصرہ بھی جو ابھی تک ناصرہ زبیری نہیں بنی تھیں۔ لگے ہاتھوں ناصرہ کا ایک شعر سن لیجئے جس نے ہمیں ابتداء میں ہی چونکا دیا تھا۔

دل و دماغ میں یارب مصالحت ہوجائے

کہ بات اچھا ہے گھر میں اگر رہے گھر کی

اس نے بھی اس مشاعرے میں کوئی غزل پڑھی اور کوئی انعام بھی پایا اور علی بھائی کے ہاتھوں ایوارڈ وصول کیا۔ ہم اور بہت سے کاموں کے ساتھ ساتھ فوٹوگرافی کی ذمہ داری بھی نبھارہے تھے سو ان کا چہرہ ہمارے کیمرے میں محفوظ ہوگیا۔ باقی راہ رسم کی وجہ وہ تصویریں بنیں جو وہ بعد میں ہم سے میوزیم کی کینٹین ‘کمز’ میں لینے آئیں۔

ان کے ہاں ان دنوں پی ٹی سی ایل کا فون تھا اور ہم ہاسٹل کے تالا بند فون کے محتاج تھے۔ سو فون انہیں ہی کرنا پڑتا اور ہمارا کام صرف منتظر رہنا تھا۔ بعد میں ہم نے یہ چالاکی بھی سیکھ لی کہ تالا بند سیٹ سے کریڈل پر ایک خاص مہارت کیساتھ ٹِک ٹک کرکے کس طرح کال ملائی جاسکتی ہے۔ اس کام کیلئے ہمیں چوکیدار کے سونے کا انتظار کرنا پڑتا تھا اور یوں اکثر آدھی رات کے بعد ہی اس واردات کا موقع ملتا۔ مجھے نہیں یاد کہ اس زمانے میں ایک بھی رات سوتے ہوئے گزری ہو۔ فون کی مصروفیت نہ ہوتی تو پھر ہم ہوتے اور مولا کی کینٹین جہاں بیٹھے بیٹھے اکثر صبح ہوجاتی۔ آشفتہ سر اقبال ساجد سے پہلی ملاقات مولا کی کینٹین پر ہی نصیب ہوئی تھی کہ جس کا ایک شعر عرصہ دراز سے ہمارے اعصاب پہ سوار تھا۔

ہاتھوں پہ بہہ رہی ہے لکیروں کی آبجو

قسمت کا کھیت پھر بھی ہے بنجر پڑا ہوا

ان دنوں واڈکا کی چھوٹی بوتل شائد چالیس روپے میں ملتی تھی اور منٹو کی طرح اقبال ساجد کو بھی کبھی کبھار پیسے مانگ کر پینی پڑتی تھی۔ ایک بار ہمیں بھی بیس روپے ادا کرنے کا اعزاز نصیب ہوا اور ان کے فلیٹ پر انہیں جام بناکر دینے کا بھی۔ یہ اس رات کا قصہ ہے جب وہ اپنا بینیفٹ مشاعرہ پڑھ کر آئے تھے جو کشور ناہید نے کروایا تھا۔ ہمیں نہ جام بنانے کا سلیقہ تھا نہ پیش کرنے کا مگر ساقی بننے کا فریضہ نبھانا پڑا۔ ایک سال خوردہ سلور کے کمنڈل میں پانی پڑا تھا اور ایک دیسی شیشے کا میلا سا گلاس، بالکل وہی جس میں لاہور کے کئی ڈھابوں میں چائے پیش کی جاتی تھی۔ اقبال ساجد نے ایک ہی سانس میں گلاس چڑھایا اور مشاعرے میں پڑھی جانے والی غزل کا مقطع جھوم جھوم کے سنایا۔

کل شب دلِ آوارہ کو سینے سے نکالا

یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا

انہی دنوں پی ٹی وی کے اسٹنٹ ڈائریکٹر راؤ ذوالفقار فرخ سے بھی ملاقات ہوئی جو ان دنوں خوبصورت شاعرہ اور پری چہرہ پروین سحر کی محبت میں آہیں بھرا کرتے تھے۔ کالج چھوڑنے کے بعد کچھ خبر نہیں کہ وہ آجکل کہاں ہوتے ہیں۔ ہاں البتہ دو برس پہلے ہمیں پروین سحر بھابھی کی کتاب ‘آخری دن’ کا سرورق بنانے کا ضرور موقع ملا جو ہم نے بہت دل سے بنایا۔ ہمیں یاد ہے کہ راؤ ہمیں صادقین کے ایک پروگرام کی ریکارڈنگ میں بلانا چاہتے تھے مگر بدنصیبی کہ ہم غمِ روزگار کی وجہ سے دستیاب نہیں ہوپائے وگرنہ ‘چہرے’ پروگرام میں ہم بھی صادقین کا چہرہ اپنی آنکھوں میں بھرنے کی سعادت حاصل کرلیتے۔

یہ سب یادیں آج اسی کی وساطت سے یاد آرہی ہیں جو سن اکیاسی سے 2005 تک تیئس برس تک میری زندگی میں شریک رہی۔ جس کی زندگی میں 4 جنوری کا دن بہت اہم تھا جب اس نے اپنی محبت کا اعتراف کیا اور ہم نے پانچ سطروں کی ایک نظم سے اس اعتراف پر دسخط ثبت کئے۔

آؤ چوم لیں ملکر
جنوری کے ماتھے کو
اک طویل عرصے بعد
برف برف موسم میں
پھول کھلتے دیکھے ہیں

دونوں کے گھروں کے سماجی سٹیٹس اور مذہب میں بڑا فرق تھا جس کا عذاب اس نے تشدد کی صورت اپنی جان پر بھگتا۔ اس کی اماں اور بڑی بہن جان تک لینے پر اتر آئیں۔ ابا اور بھائی سمجھ دار تھے، انہوں نے رخصتی میں ہی عافیت جانی۔ نکاح سمن آباد میں ایک دوست کے گھر ہوا اور رخصتی گلبرگ کے ایک ہوٹل سے جو اب نہیں رہا۔ ہمارا ایک جگر ہوا کرتا تھا حیدر شاہ۔ سرتاپا جذب و مستی۔ اس نے سٹیج سے فرزانہ کو ایک طرف بلایا اور اس کے قدموں میں سجدہ ریز ہوگیا کہ جگر تیری محبت نوں سلام۔ ہائے آج مجھے کیا کیا یاد آتا جارہا ہے۔ حیدر شاہ بھی اب نہیں رہا۔ صرف اس کے بلند آہنگ قہقہے یاد رہ گئے۔

بس اس کے بعد بیس برس گزرگئے۔ اس نے مجھے دو بہت خوبصورت اور باکمال بیٹیاں دیں۔ رشم اور شیتل جو اب خود ایک ایک بچے کی ماں بن چکیں۔ شائد ماں بننے کے بعد ماں کی کمی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔

دونوں ہی بہت ٹیلنٹڈ ہیں کہ ان کی ماں بہت باکمال انسان تھی۔ شائد اس کا یہ شعر اس کا تھوڑا سا تعارف کرواسکے۔

زمیں پہ آنے کی مجرم بنی فقط حوّا

گناہ کرکے بھی آدم تو پارسا ٹھہرا

اور پھر 11 مئی کی شب اس کا دل ساتھ چھوڑ گیا۔ پہلی بار سمجھ آیا کہ قیامت کی رات کیا ہوتی ہے۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہمارے پاس کچھ نہیں تھا سوائے تیزابی آنسوؤں کے۔ اسے دل کا دورہ پڑا تو میں بنا چپل اور شرٹ کے اسے ہاسپٹل لے کر بھاگا جہاں سے ایک پرچی تھمادی گئی جس پر اطلاع درج تھی کہ سانسوں کی واپسی ممکن نہیں رہی۔ دل سے ہوک نکلی۔ ہائے او موت تجھے موت ہی آئی ہوتی۔

ان دنوں نظمیں آنسوؤں کی طرح اترتیں اور دل کو تیز نمکین تیزاب کی طرح جلاتیں۔

ہائے آنکھوں میں چھبی جاتی ہیں

تیری یادوں کی نوکیلی کرچیں

مرہمِ وقت بھی تاثیر سے محروم ہوا

بلکہ الٹا یہ لگے ہے جیسے

وقت کے ہاتھ پہ کانٹے سے اگےجاتے ہیں

اور رگ رگ میں ہر اک لمحہ مری

نت نئے گھاؤ لگے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔

میں موت نوں بد دعا دینا ہاں

جیڑھی میرے گھر دے اندر

بنا دسکتوں وڑ آئی تے

مینوں میتھوں کھوہ کے لَے گئی

مینوں اپنی ادھی لاش

اپنے موڈھے چکنی پَے گئی

اور آخر میں اس کی یاد دہراتی ایک اور نظم

ترے ہوتے ہوئے یہ زندگی جیسی بھی تھی
مفہوم سے لب ریز لگتی تھی
اگرچہ خار بھی شامل تھے اس میں کچھ رویوں کے
مگر پھر بھی مری جاناں
بڑی گل ریز لگتی تھی

کچھ دکھ بہت لمحاتی اور بے وفا ہوتے ہیں مگر کسی پیارے کے بچھڑنے کا دکھ اتنا باوفا کہ زندگی کے آخری لمحے تک ساتھ چلتا ہے۔ کل گیارہ مئی تھی اور میں اس وقت بھی بہت اداس ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ فرزانہ رحمان اور بعد میں فرزانہ سعید۔ پہلے دوست، پھر محبوبہ اور اس کے بعد بیوی اور میری بیٹیوں کی ماں جو گوجرانوالہ میں آسودہ خاک ہے مگر اس کی قبر ہمارے دلوں میں بنی ہے جس پہ جب چاہا چپ چاپ آنسو بہالئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بڑی بیٹی نے آج صبح ہی اپنی ماں کا سکیچ بنا کے بھیجا ہے اور میں جواب میں کچھ کہنے جوگا نہیں۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply