جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے ۔۔۔ سعدیہ سلیم بٹ

آج سے اٹھارہ برس قبل 1998 میں مجھے سرینگر وادی کو دیکھنے کا موقع ملا. 12 سال کی ایک بچی کے لیئے سب سے زیادہ دل پگھلانے والا نظارہ اس کی ماں کے زاروقطار بہتے آنسو ہی ہو سکتے ہیں. 13 سال بعد میری ماں نے کشمیر ائیرپورٹ پر ایک بندے کو دیکھا اور مجھے کہا بیٹا تمہارے ماموں ویسے دکھتے ہیں. لیکن چند لمحوں میں جب وہ شخص قریب آیا تو ایک سیلِ رواں تھا جو ماں کی آنکھوں سے بہہ نکلا. ماں 13 سال بعد اپنے بھائی کو پہچان نہ سکی تھی. وہ سب بچے جو اپنی سب چھٹیاں نانی کے گھر گزارتے ہیں یا وہ سب عورتیں جو ہر ہفتے ماں کے گھر کا چکر لگا لیتی ہیں، شاید وہ اس دکھ کو سمجھ سکیں کہ 13 سال تک اپنے کسی عزیز کو نہ دیکھ سکنا کیسا کرب ہوتا ہے. وہ میرا کشمیر کا دوسرا اور تاوقت آخری قیام تھا. میں نے وہ دکھ محسوس نہیں کیے کیونکہ بہرحال وہ مجھ پر نہیں بیتے لیکن میں نے وہ چہرے دیکھے ہیں جن پر غم بیتے ہیں. غم کی شدت انسان کو بعض اوقات تاثرات سے، الفاظ سے اور اظہار سے یکسر عاری کر دیتی ہے. کسی کے درد کو سمجھنے کے لیئے اہنی ذات کی مسند سے نیچے اتر کر صاحب حال ہونا پڑتا ہے.

سرینگر کی وادی جھیل ڈل کے کناروں سے دور تک پھیلی ہے. جن مناظر کے لیئے آپ کو سوات کاغان ناران یا شمالی اطراف جانا پڑتا ہے وہ کشمیر کی وادی میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں. حسن ہمیشہ اسیر کر لیا جاتا ہے، یا عشق سے یا قوت سے. کشمیر کی بارے میں مجھ سے کسی نے پوچھا کشمیر کا حسن کیسا ہے. میں نے کہا وہ ایک ایسی ماہ رُو دلہن جیسا ہے جسے حجلۂ عروسی میں جاتے جاتے اغوا کر لیا گیا ہے. جو اس حسینہ کے ساتھ ہوا، وہی کشمیر کے ساتھ ہوا ہے. کشمیر ہمارے لیئے جذباتی وابستگی ہے یا ہماری شہہ رگ ہے، یہ موضوع سیاست کا ہے. میرے لیئے کشمیر ایک درد کی داستان ہے. میرے لیئے کشمیر میری وہ ماں ہے جو تین ماہ کومے میں رہی اور جاگنے پر بیٹی کا نام لیتی. اور اسے نہ پا کر پھر بیہوش ہو جاتی. اور اسی حالت میں جان جانِ آفریں کو سونپ دی. میرے لیئے کشمیر وہ نوجوان ہے جو کہتا ہے ہمیں تو جنگ کھا گئی. یہاں جنگ نہ ہوتی تو ہم دیکھتے تم لوگ یہاں سے کیسے جانے کا سوچتے. میرے لیئے کشمیر وہ باپ ہے جو بیچارہ پریشان ہے کہ 50 سال سے کوئی اقتصادیات نہیں اس ملک کی. کشمیر وہ بچی ہے جس کا باپ اس کے پیدا ہونے سے پہلے آنے والی نسل کی آزادی کا خواب لے کر دنیا سے چلا گیا. میں وہاں کچھ لوگوں سے ملی جو پاکستان کا سن کر اکھڑے اکھڑے تھے. میرے بچپنے نے ان سے سوال کیا آپ کو نفرت ہے پاکستان سے؟ مجھے جو جواب ملا وہ شاید ساری پاکستانی قیادت کے منہ پر طمانچہ تھا “ہمیں نفرت نہیں ہے. ہمیں افسوس ہے. ہم 50 سال سے لڑ رہے ہیں. تم لوگ خود کو کھڑا کیوں نہیں کر سکے اتنے برسوں میں؟ جب تک تم لوگ کھڑے نہیں ہو گے ہم ایسے ہی پسیں گے. ہم مر رہے ہیں. ہمارے بچے تم لوگوں پر قربان ہو گئے ہیں. اس امید پر کہ ایک دن تم لوگ مضبوط ہو کر ابھرو گے. بیٹا ہمیں نفرت نہیں. ہم نے تو تم لوگوں کے لیئے اپنے ننھے بچے وارے ہیں۔”

دورانِ قیام ہمیں اپنی شناخت چھپانے کی ہدایت تھی کیونکہ یہ وہ سال تھا جب کہ پاک بھارت کشیدگی عروج پر تھی. لیکن اگر بازار میں کسی دکاندار کو پتہ چلتا ہم پاکستان سے ہیں تو وہ پیسے لینے سے انکاری ہو جاتا البتہ ایک دکاندار کے ساتھ عجب واقعہ پیش آیا. اسے معلوم ہوا ہم پاکستان سے ہیں تو وہ بولا مجھے پاکستانی کرنسی میں قیمت دو. ہم پریشان کہ یہ کیسی ڈیمانڈ ہے. ظاہر ہے کہ ہم وہ کرنسی جیب میں رکھ کے نہیں گھوم رہے تھے. بہرحال کچھ سفری بیگ ٹٹولے تو ایک دس روپے کا نوٹ ملا. اس کو کہا بھائی اس وقت تو بس یہی ہے. اس نے والد کو گلے لگایا، رونے لگا، نوٹ کو چوما اور بولا “ہمیں قیمت نہیں چاہیے بس یہ دس روپیہ دے دو. ہم اس کو سنبھال کے رکھے گا. ہماری آنکھیں ترس گئیں پاکستان کو دیکھنے کو. اگر ہماری زندگی میں پاکستان سے نہ ملے ہم تو میں مرتے ہوئے اس کو دیکھ کے آنکھیں ٹھنڈی کر لوں گا. قائدِ اعظم کچھ دن جی لیتا تو شاید ہمارا بھی مسئلہ حل ہو جاتا۔” میں نے اپنی ایک رشتے دار کو چڑانے کو بولا سب کچھ تو دیتا ہے انڈیا. بجلی ہے. تعلیم ہے. کھانے کو ہے. کیا کمی ہے. وہ بولی “تجھے پنجرے میں بند کر کے دیں یہ سارا کچھ پھر جواب دینا۔”

ایک اور یاد اس وقت ذہن کا دریچہ کھٹکھٹا رہی ہے. ایک رشتے دار نے پوچھا سعدیہ بیٹا تمہارے ہاں نیلام گھر ابھی لگتا؟ میں حیرت سے ایسا اچھلی کہ اگلے بھی گھبرا گئے. میں نے کہا آپ نے کب دیکھا نیلام گھر. میرے عزیز بولے “ارے ہم یہاں جب گھروں میں بند کر دئیے جاتے تو پھر ہم یہی کرتے. کسی کسی دن ہمارا انٹینا سگنل کیچ کرتا تو ہم پاکستانی ڈرامے دیکھتے.” یاد رہے کہ یہ یو ٹیوب کے عام ہونے سے 30 یا 35 سال پہلے کی بات ہے. میں ذاتی طور پر ایسے کئی خاندانوں کو جانتی ہوں جو اس لکیر کے دو طرف ہیں. ان میں سے بعض پاکستان سے کشمیر گئے اور لوٹ نہیں سکے. کچھ کو جنگ کا عفریت نگل گیا. باقی زندہ مچھلی کے پیٹ میں مقید ہو گئے. کچھ ایسے ہیں جو پاکستان آئے اور اب ان کو پاکستانی نیشنلٹی ہولڈر ہونے کی وجہ سے کشمیر جانے کا پروانہ نہیں ملتا. ہر سال کرکٹ کی وجہ سے کئی کشمیری طلبہ کا تعلیمی سفر اور کچھ کی زندگی ختم ہوتی ہے. لیکن یہ متوالے ہار نہیں مانتے. ہر ورلڈ کپ میں پاکستان کا ساتھ دینے والے تب بھی پاکستانی ٹیم کو گالیاں نہیں دیتے جب کہ وہ بہت سے دل توڑ کر ہار جاتی ہے.

واقعات تو جانے اس وقت ذہن میں کتنے ہیں جو سب کے سب ضبطِ تحریر میں آ بھی نہیں سکتے لیکن ایک ماں کا ذکر کیے بغیر میں جانا نہیں چاہتی. بوڑھی آنکھیں، جھکا ہوا جسم، کرب زدہ چہرہ، شکایت کرتے آنسو جو پلکوں کی نوکوں پر بیٹھے رہتے. کان شاید دروازے کی آہٹ پر لگے رہتے تھے نیند میں بھی. ان کا بیٹا حریت کے متوالوں میں سے تھا. بھائی کی شادی پر گھر آیا. تقریب کے اختتام پر تصاویر لی جا رہی تھی کہ باہر ریڈ ہو گئی. اس جوانِ رعنا کی تصویر لی ہی تھی کہ اس کو شور سنائی دیا. کچھ سمجھ کر وہ باہر بھاگا اور دروازے پر اس کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا. ماں آج تک اس کی تصویر کو سب کو دکھاتی ہے کہ میرا لعل ایسا لگ رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے پاس داستانوں کا ایک خزانہ موجود ہے جو اگر میں لکھتی جاؤں تو ختم نہ ہوں لیکن سیاست جذبات سے عاری ہے. کشمیری جولائی کی 8 تاریخ سے ایک بار پھر محصور ہیں. اسکول، دفتری مراکز، ہسپتال، کاروبار سب بند ہیں. نوجوان ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں. روز لاشیں اٹھا رہے ہیں. اس بار لیکن سب کچھ مقامی ہے. برہان وانی کے قتل کے بعد سے کشمیری سنبھلنا نہیں چاہ رہے. میں ان سے پوچھتی ہوں تم لوگوں کے پاس کچھ نہیں ہے. تم لوگ لڑ نہیں سکتے تو مذاکرات کیوں نہیں کرتے تمہارے لیڈر. وہ کہتے ہیں مذاکرات اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر نہیں ہونے. اور اگر ان پر نہیں ہونے تو مذاکرات کرنے کا فائدہ. میں پوچھتی ہوں تم لوگ تھکے نہیں ہو گھروں میں محصور ہو کے. کہتے تھک تو گئے ہیں مگر ہم اب فیصلہ کروا کے ہٹیں گے. آج عالمی سطح پر یہ مسئلہ جس طرح ابھرا ہے، دل کو ایک آس سی ہو چلی ہے کہ شاید اس بار یہ مسئلہ حل کی طرف چلا جائے. شاید اگلی بار کوئی ماں مرتے ہوئے اپنی بیٹی کو دیکھنے کے لیئے نہ تڑپے. شاید کوئی بہن 13 سال تک لکیروں کی تقسیم کا شکار نہ ہو. لیکن دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں۔

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply