افطاری کے بعد کے مناظر۔۔۔۔عامر عثمان عادل

گزشتہ چند  برسوں سے اجتماعی افطاریوں کا رحجان زور پکڑ گیا ہے شہروں میں افرادی اور اجتماعی طور پر کچھ مخیر حضرات اور رفاعی ادارے افطار دستر خوان سجاتے ہیں جو ایک خوش آئند قدم ہے جس سے راہگیروں مسافروں مزدوروں اور مفلس افراد کو پیٹ بھر کے کھانا نصیب ہوتا ہے اور رمضان المبارک کی رونقیں بھی دوبالا۔
یہ رحجان مساجد میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ روزانہ کی بنیادوں پر مسجد میں کسی ایک سخی کی جانب سے افطاری کا اہتمام ہوتا ہے نمازی کھانا تناول فرماتے ہی نماز کی ادائیگی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔۔
ہوتا کیا ہے عین افطار کے وقت دسترخوان سج جاتے ہیں شربت کھجور سموسے پکوڑے تو لوازمات ہیں ساتھ میں قورمہ بریانی اور متنجن بھی چن دیئے جاتے ہیں سائرن بجتے ہی 16 گھنٹے کے فاقہ کش رزق پر یلغار کر دیتے ہیں من تو سیر ہو جاتا ہے آنکھوں کی بھوک نہیں مٹتی اور پھر رزق کی  جو بربادی ہوتی  ہے وہ ان تصاویر سے عیاں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج میں نماز کیلئے مسجد پہنچا تو جماعت کھڑی ہو چکی تھی لیکن صحن مسجد میں بچھے وسیع دسترخوان نے میرے قدم روک لئے میرے خدایا رزق کی ایسی بے حرمتی۔۔۔۔
قورمے بریانی کی ادھ کھائی  ہوئی  پلیٹیں منہ چڑا رہی تھیں۔
اب اس جھوٹے کھانے کا مصرف کیا ہو گا ؟ کچرے کا ڈھیر
کاش ہمیں خیال ہو ان فاقہ زدہ لوگوں کا جنہیں ایک وقت کا نوالہ تک میسر نہیں۔ جن کے بچے کوڑے کے ڈھیر سے ہمارے پھینکے ہوئے رزق کے ٹکڑے چن چن کر بھوک مٹاتے ہیں۔
افطاری کا اہتمام کرنے والے کی نیت اخلاص اور جذبہ قابل قدر ہے لیکن سنجیدہ سوال یہ ہے کہ ایسی افطاریوں کی افادیت کیا ہے؟ مہمان و میزبان ایک ہی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور سب ہی اپنے گھروں میں اچھی خاصی افطاری کی طاقت رکھتے ہیں تو پھر روزانہ کی بنیادوں پر رزق کی ایسی ناقدری کیوں؟
کیا بہتر نہ  ہو کہ روزانہ قورمے بریانی اور زردے کی دیگیں اتریں اور اس مسجد سے ملحقہ بستی کے جتنے سفید پوش گھرانے اور مستحق افراد ہیں ان میں بانٹ دی جائیں۔۔
ایسی ایک افطاری پر اٹھنے والا خرچہ 18 سے 20 ہزار روپے ہے جس سے ایک نادار گھرانے کا پورے مہینے کا راشن آ جاتا ہے
تیس افطاریاں مطلب مہینے بھر کے بنے چھ لاکھ روپے تو اس محلے میں اگر 10 گھرانے بھی مستحق ہوں تو ہر ایک کے حصے میں آئے 60 ہزار روپے جس سے اوسطا ہر گھرانے کا رمضان بھی اچھا گزر جائے گا اور عید کیلئے بچوں کے نئے کپڑے بھی
اور ہم رزق کی بے حرمتی جیسے گناہ کبیرہ کے مرتکب بھی نہیں ہوں گے۔

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply