شب سمور گذشت و لب تنور گذشت۔۔ مصطفین کاظمی

حاجی لاریب خان کا تعلق خیبر ایجینسی سے تھا۔ ملاقات ایک دوست کے توسط سے ہوئی اور پہلی ہی ملاقات میں حاجی صاحب کی صاف گوئی اور زندہ دلی نے ہمارے دل جیت لئے۔ جذباتی شخصیت ، متنازعہ خیالات، سفید داڑھی سر پر ٹوپی صوم و صلات کی پابندی اور ان بقول خود حاجی صاحب کے ” مولوی کا مکمل بائیکاٹ”۔ ان کے ایک دوست کہا کرتے تھے جس طرح دو تلواریں ایک میان میں نہیں رہ سکتیں اسی طرح حاجی اور ملا ایک چارپائی پر نہیں بیٹھ سکتے ۔

بچہ لوگ اپنا کلمہ و قرآن مضبوط کرلو اور ملا سے بچ کے رہو، یہ ملا اپنا پیٹ بھرنے کیلیے بندوں پر کیا رب تعالی پر بھی جھوٹ بندھ دیتا ہے۔ حاجی صاحب توبہ کریں توبہ ! یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ۔ کسی نے نصیحت کی یا شاید لقمہ دیا۔ “ٹھیک کہہ رہا ہوں، ہم قبائلی لوگ جنگجو ہونے کیساتھ ساتھ رسم و رواج کے پابند تھے انہی سماجی بندھنوں کی وجہ سے کبھی کوئی طاقتور کسی لاچار پر ظلم کرتے ہوئے ہزار بار سوچتا تھا۔ مولوی کا کام مسجد میں نماز تراویح پڑھنا تھا اور بس! ۔ پھر یہ افغان جہاد کا چورن لے کر آگئے، پوچھا کیا ہوا؟ تو جواب ملا پڑوس میں سرخ جھنڈوں والے ہمارے بھائیوں کو مار رہے ہیں ، بیٹیوں کی آبرو محفوظ نہیں اور تم مسلمان سکون کی نیند سوتے ہو، اٹھو امداد کو نکلو ۔کسے خبر تھی کہ مولانا کی بغل میں جو اخبار تھا اس کے اندر چھپے امریکی ڈالر ان فتوؤں میں نکھار پیدا کر رہے تھے ۔ ہم لوگ بندوقیں اٹھائے ہرے بھرے باغ اور آباد حجروں کو چھوڑ کر سرحد پار چلے گئے ۔ جہاد کب شروع ہو کر کہاں ختم ہوا، کچھ خبر نہ ہوئی۔ روسی اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور ہم مجاہدین اسلام سے کرایہ کے قاتل بن گئے مگر کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔ اگر کسی کا ایمان ذرا برابر بھی ڈگمگانے لگا تو ارشاد ہوا کہ اے اللہ کی راہ کہ مجاہد، تمہاری قوت ایمانی نے روس کے ٹکڑے کر دیے ہیں اور آج دنیا بھر میں زلیل و خوار ہو رہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اب روس کی باقیات بھی ختم کرنی ہیں۔ برسوں بعد جب امریکہ بہادر نے خراج دینا بند کردیا تو دھند چھٹی اور ہمیں بھی گھر یاد آیا۔ سالہا سال کی مسافتیں طے کرنے اور سروں میں جلی ہوئی تہذیبوں کی خاک لئے جب قبائلی گھروں کو لوٹے تو باغ ویران ہو چکے تھےاور برباد حجروں کے شہتیر ٹوٹ چکے تھے”۔ حاجی صاحب آپ جذباتی ہو رہے ہیں دربدر کی ٹھوکریں تو نصیب کی بات ہے سو جہاد کو آپ اس کیساتھ نتھی نہ کریں ۔ پھر ایک طرف سے نصیحت یا شاید پھر لقمہ ملا اور ساتھ ہی خان صاحب کا پسندیدہ پشاوری قہوہ آگیا ۔

حاجی صاحب نے قہوے کا لمبا گھونٹ لیا اور بولے کہ جناب ہمارے نصیب میں وطن کے سرسبز باغات اور گرمیوں میں ٹھنڈے حجروں میں بیٹھنا لکھا تھا جسے ہم نے ٹھوکر ماری اور غیروں کیلئے لگائی گئی پرائی آگ میں کود گئے۔ جن بہنوں بیٹیوں کی عزت بچانے ہمیں لجایا گیا تھا ایک وقت آیا کہ وہ ہی مستوریں اپنوں کی وجہ فریاد کناں تھیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ یہ جو آگ آج پاکستان کو کھائے جاتی ہے یہ انہیں مجبور اور لاچار ماؤں کی دہائی ہے۔ یہ ہمارا نصیب ہی تو تھا کہ آقا دوجہاں ص کی امت میں پیدا ہوئے اور مسلمان ٹھہرے وگرنہ کسی رام ناتھ یا پیٹر مسیح کے گھر بھی پیدا ہو سکتے تھے اور یقین مانیے کہ ہم میں اتنی وسعت قلبی آج بھی نہیں کہ مختلف ادیان عالم کا مطالعہ کرکے یہ کھوج لگا پائیں کہ حق کس جانب ہے ۔ یہ تو اس پالنے والے کا لطف و کرم ہے کہ بغیرمحنت و ریاضت کے اس کے آخری نبی و رسول ص کے کے کلمہ گو بن گئے ۔

البتہ کیا بخشش کیلئے صرف اتنا ہی کافی ہے ؟ کیا حق ابدیت لا الہ الا اللہ کا رٹا لگانا ہے ۔ وہ دیکھیے انگلی سی اشارہ کرتے ہوئے حاجی صاحب قہوے کا ایک اور گھونٹ بھرا ، ایک انگریز سیاح بازار سے گزر رہا تھا۔

کل قیامت کے دن یہ آدمی اور اس کی قوم اور مذہب کے لوگ خدا سے اگر یہ کہیں کہ اللہ میاں ہمیں کیا معلوم تھا کہ آپ نے دین اسلام پسند کر لیا تھا ، ہمارے تلک تو آپ کے نبی جی سرکار ص کا اصلی پیغام پہنچا ہی نہیں تو سے سوال کیسا ؟ حضور ہم نے مسلمان کو لاکھوں دیکھے لیکن اسلام کبھی نہیں دیکھا ۔

اللہ جی ہمیں زمین پر آباد کیا تو دیکھیے آپ کی دی ہوئی عقل سے ہم نے زمین پر کیا کیا ایجادیں کیں صحت ، تعلیم ، تحفظ ، آسائش ، سفر میں آسانیاں ہم نے فراہم کیں ہماری ایجادات سے غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ آپ کے پیارے نبی کی امت نے بھی بھر پور فائدہ اٹھایا ۔ یااللہ جب ہم یہ سب کر رہے تھے تو مسلمان مرنے مارنے میں مگن تھے کیا آخری نبی ص انہیں یہ تعلیم دے گئے تھے کہ پہلے دوسروں کو مارنا اور جب دوسرے نہ ملیں تو اپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دینا ۔ حاجی صاحب نے ناک پر دھری عینک کے شیشوں کے اوپر سے دیکھتے ہوئے سولیہ انداز میں کہا ۔اب بتاؤ عدل کی کرسی پر بیٹھا رب ہم نالائقوں سے نہیں پوچھے گا کہ ہم نے آقا کریم ص کا پیغام محبت اور اللہ کی کتاب کا اصل درس کیوں عام نہیں کیا؟ بخشش اور جنت کی امید لگائے امتی کس منہ سے اللہ اور بنی ص کو کا سامنا کریں گے جب اعلان کیا جائے گا کہ اوروں کی ساتھ ساتھ یہ امت بھی انسانیت کے قتل اور بربادی میں برابر کی شریک تھی بلکہ آخری زمانے میں تو اس خونی کھیل میں مسلمان سب سے آگے تھے۔

میدان حشر کی گرمی اپنی جگہ لیکن آقا ہمارے اعمالوں اور غیروں کی شکایت کی وجہ سے آقا ص کی رنجیدگی قیامت سے بڑھ کر قیامت ہوگی، آنکھوں کی نمی کرتے ہوئے بوڑھے حاجی صاحب نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا ۔ شام کی اذان شروع ہو گئی تو حاجی صاحب اٹھتے ہوے بولے، نماز پڑھا کرو میاں اوپر والے سے علیک سلیک باقی رکھو۔ سب نے مڑ کر وہاں ہی جانا ہے سو یہ جان پہچان کام آئے گی ۔ یہ کہ کر حاجی صاحب وضو کرنے چلے گئے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

( یہ خیالات حاجی لاریب خان کے تھے ۔ مصنف یا منتظمین “مکالمہ” کا خان صاحب سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔ ایڈیٹر)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply