” یہ دنیا ایک عارضی قیام گاہ ہے” یقین مانیں یہ بات وہ لوگ بہتر سمجھ سکتے ہیں جو کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں اور بدلتے حالات یا مالک مکان کے کہنے پر اپنا ٹھکانا بدلتے رہتے ہیں۔بچپن فلیٹ میں ، جوانی نیچے والے پورشن، شادی اوپر والے پورشن، اولاد کونے والے گھر، بچوں کی شادی فلاں محلے میں وغیرہ وغیرہ ۔۔بس ایسی ہی بکھری یادیں ہوتی ساتھ میں۔ ہر گھر کو ارمان کے ساتھ سجانا اور انسیت پیدا ہونے کے بعد چھوڑ کر دوسرے گھر چلے جانا اور پھر نئے سرے سے سجانا، انسیت، جذبات وغیرہ۔۔واقعی مشکل ہوتا ہے یار۔۔
آج کل تواپنا مکان بنانے کا خواب ایسا مقصد حیات بنتا جا رہا ہے جس میں لوگ اپنی جوانی سے شروع ہوتے ہیں اور بڑھاپے تک مکان بنا کر پھر اپنے بچوں کو دے دلا کر اپنے ابدی گھر چلے جاتے ہیں ۔ خود اپنے مکان میں رہنے کا شوق جب ہوتا ہے تب مکان نہیں ہوتا اور جب مکان مل جاتا ہے تو پھر یا تو شوق ہی ختم ہو چکا ہوتا ہے یا زندگی کا وقت۔ اوپر سے قیمت اتنی زیادہ کہ جب بندہ ہزاروں کماتا ہے تو مکان لاکھوں میں ملتا ہے اور جب بندہ لاکھوں میں کمانا شروع کرتا ہے تو مکان کروڑوں تک بھاگ جاتا ہے ۔
دوستو، اچھی بات یہ ہے کہ اگر تو آپ کرایہ دے کر بھی رہ رہے ہیں تو بھی شکر کریں، شکوہ نہیں، کہ کتنے لوگ ہیں جو کرایہ بھی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ویسے بھی مقصد زندگی گزارنا ہے، اپنے مکان میں گزرے یا کرایہ کے مکان میں اور جو چیز آپ کے ساتھ ہمیشہ نہیں رہ سکتی تو اس کو مقصد حیات بنا کر اپنی پوری زندگی اس کے پیچھے لگا دینا اچھی بات نہیں۔
سمجھ آ جائے تو اپنے کرایہ کے گھر میں بھی حلال کمائی کے ساتھ ہنسی خوشی رہیں اور ان کو دیکھ کر دل چھوٹا نہ کریں جو سود و حرام کی کمائی سے عارضی دنیا میں گھر بنا کر خود کو “جنّت کے ہمیشہ رہنے والے اور باغوں والے گھر” سے محروم کر رہے ہیں ، جس کے ہر دروازے پر فرشتے استقبال کو آئیں گے اور کہیں گے ” تم پر سلامتی ہو، تم نے جس طرح دنیا میں صبر سے کام لیا اس کی بدولت تم آج اس کے مستحق ہوئے ہو، پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر” (سوره الرعد-القرآن)۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں