• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • احمقوں کی معیشت۔۔۔۔۔تحریر: عاصم سجاد اختر/انگریزی سے ترجمہ: فرید مینگل

احمقوں کی معیشت۔۔۔۔۔تحریر: عاصم سجاد اختر/انگریزی سے ترجمہ: فرید مینگل

“درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی”، یہ مقولہ ریاست پاکستان کی پالیسیوں کے لیے مکمل مناسب ہے۔ اور شاید سماجی و معاشی اصلاحات کے لیے تو بالخصوص موزوں ہے۔ لیکن ریاست کی موجودہ معاشی غیریقینی پر چیخ و پکار اور معیشت کو پھر سے پٹڑی پر لانے کی اصلاحات قابلِ غور ہیں، جو کہ پہلے بھی کئی بار کہی اور نافذ کی جا چکی ہیں۔

کل ہی ہمارے ایک انتھک ہم عصر خرم حسین نے پچھلے دس سالوں میں معیشت کے سدھارنے کے تین مختلف ادوار پر تفصیل سے لکھا۔ حقیقت میں معیشت کی ”ساختی آراستگی و ترمیم“ structural Adjustment پچھلے تیس سال سے کی جا رہی ہے۔ 1988 میں پہلی دفعہ ”ساختی ترمیم و آراستگی“ کے تحت پیپلز پارٹی کی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدات ہوئے۔ یقینی طور پر ایڈجسٹمنٹ اب مکمل ہونی چاہیے تھی۔

ہر سیاسی حکومت نے پچھلی تین دہائیوں سے یہی شور و غوغا برپا کر رکھا ہے کہ یہ خرابیاں انہیں اس کے پیش روؤں سے وراثت میں ملی ہیں۔ لہٰذا انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی فوری ”اصلاحات“ اور ”ایڈجسٹمنٹ“ کی کڑوے گولی کو نگلنا پڑے گا۔

تب حکومت حالات کچھ بہتر کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ حماتیوں اور ساتھ دینے والوں کا بڑے پیمانے پر شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔ حالات کی بہتری کا یہ دورانیہ بڑا ہی مختصر اور قلیل عرصے پر مشتمل ہوتا ہے۔ حکومت کے جانے اور ختم ہونے کے ساتھ ہی ساری چیزیں اپنے اپنے زوال کی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں۔

بلاشبہ آئی ایم ایف، ملکی واہب اور دیگر کثیرالکردار معطیوں کے اثرورسوخ کو اس پورے گھن چکر میں ہلکا نہیں لیا جا سکتا۔

تمام امدادی پیکجز بہت ساری شرائط کے ساتھ ہی دیے جاتے ہیں اور رقم اس وقت دی جاتی ہے جب ”ساختی ایڈجسٹمنٹ“ کی مکمل یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔

یہ شرائط ہمیشہ ایک جیسی اور یکساں ہی ہوتی ہیں۔ جیسا کہ خسارے میں جانے والے قومی اداروں کو نجی ملکیت میں دینا، حکومتی خرچے بالخصوص سبسڈیز (عوامی امداد) کو ختم کرنا، تجارتی و مالیاتی منڈیوں کو لبرلائیز کرنا اور غیر ملکی سرمایہ داروں کو چھوٹ دینا تاکہ انہیں سرمایہ کاری کے لیے راضی کیا جا سکے۔

حالیہ برسوں کے دوران مغربی پالیسی ساز اداروں میں حکومتی اداروں کی بہتری کے لیے، اداروں کے ساتھ ساتھ نہ ختم ہونے والے ماہرین اور مشیروں کی ترسیل کی روایت بھی مقبول ہوتی جا رہی ہے۔

اگر ہم پچھلے تیس سال سے ایک ہی عمل دہرا رہے ہیں تو پھر اب بھی ”ایڈجسٹمنٹ“ کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے۔؟

قصہ مختصر، پوری دنیا فی الوقت محض چند مالی اجنبیوں کے رحم و کرم پر ہے۔ جو کی ترقی پذیر خطوں کے وسائل کو مسلسل لوٹتے رہنا چاہتے ہیں۔ اور ان کی صارف منڈیوں (consumer markets) پر اجارہ داری حاصل کرنے کی بھوک کبھی نہیں مٹتی۔

”ایڈجسٹمنٹ“ فقط ایک ظاہری حکمت عملی ہے جو کہ محنت کش طبقے کے حقوق کے ضامن تمام ضابطوں کو ختم کرنا اور ہٹانا چاہتی ہے۔ 1980 کی دہائی تک محنت کش طبقہ تمام ممالک میں پالیسی سازی میں شراکت دار تھا۔

یہ 1970 کی دہائی کے اواخر کی بات کہ جب دوسری جنگ عظیم کے بعد کے ادوار پر کینیسیئن (keynesian) خیالات غالب رہے۔ جو کہ معیشت میں بہت زیادہ حکومتی مداخلت کی سفارش کرتے اور مزدوروں کے لیے مخصوص وسائل مختص کرنے پر زور دیتے۔ انہیں معاشی نیو لبرلزم Neo-liberalism یا پھر واشنگٹنی بیانیے کے ذریعے ہٹایا گیا۔

جس وقت مغرب میں یہ ”بیانیہ“ عیار قدامت پرستوں جیسے کہ رونالڈ ریگن اور مارگریٹ تھیچر کی جانب سے تخریب کیا جا رہا تھا تو وہیں دوسری جانب مشرق میں تنخواہ دار ضیا اور پنوشے (Pinochet) ڈیوٹی پر معمور یہی کام سر انجام دے رہے تھے۔

منظم محنت کش طبقہ اور بائیں بازو کی سیاست کو منڈی اور شخصی آزادی کا دشمن گردانا گیا۔ تقریباً چالیس برس بعد بھی سیاسی و دانش ورانہ بیانیہ ہمارے دیش جیسے ممالک میں طبقاتی جنگ کو بیان کرنے سے ناکام و محروم رہا۔ جس کی وجہ سے نیولبرلزم کی طرف جھکاؤ مزید مضبوط ہوا۔

مگر یہی بات مغرب میں حقیقت نہیں ہے۔

2007-09 کے درمیان مالیاتی اداروں کی ناکامی دراصل نیولبرلزم کی نظریاتی اجارہ داری کے لیے ایک للکار، ایک چیلنج تھی۔ آج تعلیم یافتہ نوجوان بے لگام صارفیت (Consumerism) کے دور میں اچھی اور مناسب زندگی پانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ سرمایہ داری کی ”آزاد منڈی“ کے پُرفریب بھیانک خطروں سے واقف ہو چکے ہیں۔ جو انہیں اور ان کی آنے والی نسلوں کو درپیش ہیں۔

یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس ملک کی نوجوان آبادی کو ”ایڈجسٹمنٹ“ کی تیس سالہ تاریخ سے آگاہی دی جائے تاکہ ان تین دہائیوں پر مشتمل بار بار دہرائے جانے والے مشاہدات کے تسلسل کو توڑا جا سکے۔

اپنے اکثر پیش روؤں کی طرح ”تبدیلی لشکر“ کے پیروں کی لڑکھڑاہٹ بھی ناگزیر تھی۔ سیاسی نمائندگی کے بحران کا براہِ راست تعلق نیو لبرل ترقیاتی منصوبوں کےغلبے سے ہے۔ جنہیں کوئی بھی حکومت چیلنج کرنے کی جرأت نہیں کر سکتی۔

یہ اٹل نہیں کہ ہم ہمیشہ احمقوں کی معیشت ہی رہیں۔ سرمایہ داری کے متبادل کی ضرورت دنیا بھر میں ناپختہ مگر مشہور بیداریوں کی صورت میں ہمارے لیے امید کا باعث ہے۔

نام نہاد ماہرین ہمیں مطمئن کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہی ”پرانی اصلاحات“ کے ساتھ آئی ایم ایف، متحدہ عرب امارات، چین یا پھر جو بھی راضی ہو، ان سے قرضہ لینا ضروری ہے۔

ہمیں جن اصلاحات کی ضرورت ہے، وہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ عوامی صحت، تعلیم، مکان، روزگار اور نیچر کو منافع خوروں سے واپس چھین لیں۔ دفاعی بجٹ کی جانچ پڑتال کر کے اس میں کمی کریں۔ غریبوں کے پیٹ پر لات مارنا بند کریں اور امیروں پر کچھ بوجھ ڈالیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لکھاری قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply