کتنے آدمی تھے؟۔۔۔۔روف کلاسرا

نواز شریف کے دوبارہ جیل جانے کے بعد بحث چھڑ گئی ہے کہ انہیں جیل تک چھوڑنے کتنے لوگ گئے۔ حکومت فرما رہی ہے‘ دو تین ہزار سے زیادہ لوگ نہیں ہوں گے جبکہ نواز شریف کی پارٹی پچاس ہزار سے کم لوگ ماننے کو تیار نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ویسے نواز شریف صاحب کی جیل جانے تک کی ریلی میں پچاس لاکھ لوگ بھی آ جاتے تو مجھے حیرت نہ ہوتی۔ پاکستان میں سیاست اخلاقیات یا کرپشن کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔ عوام سے لے کر سیاستدانوں اور حکمرانوں تک اخلاقیات نام کی کسی چیز سے ہم ناواقف ہیں۔ ہمیں ان لائنز پر کبھی تیار ہی نہیں کیا گیا۔ لیڈروں کا کام عوام کو اعلیٰ اخلاقی معیار کی تربیت دینا ہوتا تھا‘ لیکن جب لیڈر ہی نیچے جا گرے اور اپنی حرکتوں کا جواز تلاش کرنا شروع کر دے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کو اخلاقی طور پر ترقی کرنے کے لیے کچھ مثالوں اور رول ماڈلز کی ضرورت ہوتی ہے۔
اب یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ایسے رول ماڈلز نیچے سے آتے ہیں یا اوپر سے؟ نیچے سے جتنے بھی رول ماڈلز آئیں وہ معاشرے پر اس طرح اثر انداز نہیں ہو سکتے جتنا اثر ایک اخلاقیات سے بھرپور لیڈر عوام پر ڈال سکتا ہے۔ یہاں لیڈرز بھی عوام جیسے ہو گئے۔ دونوں کی اخلاقیات ایک جیسی ہو گئیں۔ عوام اوپر سے تو رولا ڈالتے رہے لیکن ان کی زندگیوں میں وہی نعرہ مقبول ہونے لگا ‘کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے‘۔ جب عوام خود روزانہ اپنی زندگی میں چھوٹی موٹی چوریاں کر رہے ہوں اور دائیں بائیں سے غلط طریقوں سے کما رہے ہوں تو پھر ان کے اندر وہ اخلاقی قوت نہیں رہ جاتی کہ وہ اپنے حکمرانوں سے سوال کر سکیں۔ وہ بظاہر تو منہ بنا کر کہیں گے‘ فلاں بڑا غلط بندہ ہے لیکن اسے اپنے اندر کا پتہ ہے کہ وہ خود بھی اتنا ہی غلط ہے‘ جتنا اس کا لیڈر یا قائد۔
اب عوام کو کس راستے پر لگایا جائے؟ یہ فیصلہ اس قائد نے کرنا تھا کہ وہ عوام کیلئے رول ماڈل بننے کی کوشش کرے یا پھر وہی کچھ کرے جو کچھ عوام خود کر رہے ہیں۔ اسے پہلا راستہ مشکل لگا کیونکہ اس میں محنت بہت زیادہ تھی۔ اب کون یہ کشٹ کاٹے لہٰذا وہی راستہ اپنایا گیا جو روم میں اپنانا چاہیے۔ یوں ہر پارٹی نے مضبوط اخلاقیات کی بنیاد پر سیاست اور حکومت کرنے کی بجائے کرپشن کو اور مال بنانے کو اہمیت دی۔ سیاست دھیرے دھیرے ہائی جیک ہوتی چلی گئی۔ کاروباریوں نے سیاست پر قبضہ کر لیا۔ انہیں پتہ تھا بیوروکریسی کے ذریعے ہی سب کام ہونا ہیں لہٰذا دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملایا اور پھر چل سو چل۔ اچھا کاروباری خود بھی کھاتا ہے اور دوسروں کو بھی کھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
کرپشن ہمیشہ سے انسانی معاشرے میں موجود رہی ہے لیکن اس کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں۔ یہ نہیں کہ انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی الیکشن سے پہلے کرپشن نہیں ہوتی تھی۔ یقینا ہوتی تھی اور ہو سکتا ہے کہ اس کا حجم کم ہو‘ لیکن جنرل ضیا نے پہلی دفعہ ایک جاگیردار‘ بھٹو کی پارٹی کے مقابلے پر کاروباری شریف خاندان کو لانچ کیا اور اس کی پارٹی کو صنعت کاروں سے بھر دیا جس سے کرپشن اوپر گئی۔ شہروں سے تاجر کلاس اوپر لائی گئی جس کا کام جاگیرداروں کا مقابلہ کرنا تھا‘ ساتھ ہی جاگیرداروں کے زور کو توڑنا تھا‘ لہٰذا ایم این ایز کو کرپٹ کرنے کا منصوبہ سامنے لایا گیا اور بڑے بڑے زمینداروں کو گلیوں‘ نالیوں‘ سڑکوں کی تعمیر پر لگا کر ان کی جیب میں چند لاکھ روپے ڈال کر انہیں سمجھایا گیا کہ وہ کیا بیوقوفی کر رہے تھے کہ زمینیں بیچ کر سیاست کر رہے تھے۔ سیاست اپنے پیسے سے تھوڑی کی جاتی ہے۔ اس کے لیے پارٹیاں تلاش کی جاتی ہیں۔ ٹھیکیدار اور پراپرٹی ڈیلرز ڈھونڈے جاتے ہیں جو آپ کی پارٹی پر سرمایہ کاری کریں اور جب آپ اقتدار میں آئیں تو ان کو اربوں کے ٹھیکے دیں۔ وہ خود بھی کھائیں اور آپ کو بھی کھلائیں۔ ساتھ ہی بینکوں پر ڈاکے ڈالنے کا منصوبہ بنا۔ کواپریٹو سوسائٹیز کو لوٹا گیا۔ صنعت کار سیاستدانوں نے سیاست کو کاروبار کی طرز پر نفع‘ نقصان پر شروع کیا‘ کھل کر بینک لوٹے اور دیگر اداروں سے مال بنانا شروع کیا۔
عوام کو بھی کچھ نہ کچھ دینے کے لیے بینکوں سے ایک ایک لاکھ روپے کے قرضے شروع کیے کہ جناب ہم کھا رہے ہیں تو آپ بھی کھائیں۔ پھر ٹیکسی سکیم شروع ہوئی اور چلتے چلتے بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام تک پہنچی۔ عوام کو ہزار دو ہزار روپے پر لگا کر اربوں ان کی جیبوں سے نکال لیے گئے۔ اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ اگر ایوان میں پچاس ایم این ایز بیٹھے ہوئے ہیں تو حاضری ڈھائی سو ایم این ایز کی لگی ہوئی ہے۔ جعلی حاضریاں اس لیے لگائی جا رہی ہیں کہ ایم این اے کا پانچ ہزار روپے کا روزانہ سیشن الائونس ضائع نہ جائے۔ یہ ایم این اے ایک دوسرے کی جعلی حاضریاں لگاتے ہیں اور اس کام میں سپیکر قومی اسمبلی پوری طرح ملوث ہوتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے پورے سیکرٹریٹ کے لیے بائیومیٹرک سسٹم ہے کہ ہر ملازم اپنے انگوٹھے سے حاضری لگاتا ہے لیکن ایم این ایز کے لیے رجسٹر رکھا ہوا ہے تاکہ وہ مرضی سے جعلی حاضریاں لگا سکیں۔ اب جس قوم کے ایم این اے صرف پانچ ہزار روپے کے لیے جعلی حاضریاں لگاتے ہوں وہاں عوام پانچ سو روپے کے لیے کیا کچھ کرنے کو تیار نہیں ہوں گے؟
لہٰذا اس معاملے پر زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں کہ لوگوں کو وہی اچھے لگتے ہیں جو خود بھی کھاتے ہیں اور دوسروںکو بھی مواقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہر کسی کی چونچ گیلی کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
خود کو تسلی دینے کے لیے یہ سمجھ لیں یہ لوگ آپ کی خدمت کے لیے سیاست میں آتے ہیں اور جو اوپر سے پیسے کماتے ہیں وہ سروس چارجز ہیں۔ یہ ان کا کمیشن ہے جو وہ وصول کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ کی بہتری کے نام پر بہت سارا وقت آپ اور آپ کے بچوں کی بھلائی اور معاشرے کو بہتر کرنے کے لیے سوچنے پر صرف کیا۔ امریکن کہتے ہیں: دنیا میں کوئی چیز فری نہیں ہوتی لہٰذا معاوضہ چاہیے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے انہیں اس کام کی تنخواہ اور دیگر مراعات ملتی ہیں۔ لیکن وہ مراعات اتنی کم ہیں کہ ان کا گزارہ نہیں ہوتا۔
ابھی دیکھ لیں‘ ہر طرف شور مچا ہوا ہے کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں اور ابھی مزید بڑھنا ہیں‘ لیکن انہی دنوں میں پنجاب اسمبلی میں ارکان نے مرضی کی تنخواہیں اور مراعات مقرر کر لیں۔ اس معاملے میں تینوں جماعتوں کے ارکان متحد تھے۔ اندازہ کریں یہ قرارداد نواز لیگ کے ارکان نے پیش کی اور تحریک انصاف نے اس کے حق میں ووٹ ڈالے۔ ویسے یہ ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑتے نظر آتے ہیں لیکن یہاں مالی مفادات پر وہ ایک ہو گئے تھے۔ ایسے رویوں نے لوگوں کو یہ یقین دلایا ہے کہ باپ نہ بھیا، سب سے بڑا روپیہ۔
اس لیے نواز شریف کو جیل تک چھوڑنے جانے والوں کی تعداد کو دیکھ کر تحریک انصاف ڈسٹرب ہو نہ ہی نواز شریف کے حامی زیادہ خوش ہیں۔ عوام ایسے ہی لیڈر چاہتے ہیں کیونکہ عوام خود ایسے ہی بن چکے ہیں یا بنا دیے گئے ہیں۔ عمران خان اس کرپٹ کلچر اور لیڈروں کے خلاف اٹھے تھے۔ کچھ امید پیدا ہو چلی تھی کہ شاید اب اخلاقیات کا رواج ہو‘ عوام کو بھی اس راستے پر لگایا جائے اور لوگ اچھے برے کی تمیز کرنا شروع کر دیں‘ لیکن پھر دھیرے دھیرے عمران خان نے بھی وہی راستہ اپنایا اور وہی لوگ پارٹی میں لائے گئے جن پر کرپشن اور غیراخلاقی حرکتوں کے الزامات تھے۔ باقی چھوڑیں یہی دیکھ لیں کہ سنگین الزامات کا سامنا کرتے اعظم سواتی کو استعفیٰ دینا پڑا تاکہ وہ مستقل نااہلی سے بچ سکیں۔ عمران خان نے چیف جسٹس ثاقب نثار کے جانے کا انتظار کیا‘ اور انہیں دوبارہ وزیر بنا دیا۔
عوام کی مایوسی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں نو ماہ میں وہ تبدیلی نظر نہیں آئی‘ جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ وہی چہرے اور وہی کرپٹ لوگ دوبارہ ان پر مسلط کر دیے گئے ہیں۔ جیسے عمران خان کو وزیر اعظم بنانے میں عمران خان سے زیادہ زرداری، بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی نااہلی اور کرپشن کا ہاتھ تھا‘ ویسے ہی اب نواز شریف کی مقبولیت میں وہی رول عمران خان اور ان کی ٹیم کا ہے۔
ویسے بھی جب عوام کی یہ حالت ہوجائے کہ وہ خود ان لوگوں کو کندھوں پر بٹھا کر جیل چھوڑنے جائیں جنہیں انہی عوام کو لوٹنے کے الزام پر سزا ہوئی ہو اور چالیس ٹی وی شوز میں ملک کے پڑھے لکھے طبقات ایک ہی بات پر بحث کر رہے ہوں ”کتنے آدمی تھے‘‘ تو پھر آپ کو اس معاشرے کے دلوالیہ پن پر حیران نہیں ہونا چاہیے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply