کٹی شاخ: فوزیہ قریشی

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ذکر زیادہ پرانا نہیں ۔کہا جاتا ہے ایک شاخ پر الو بیٹھتا تھا سارا دن سوتا ساری رات جاگتا تھا۔ اس کی ان دو ٹمٹماتی آنکھوں کی روشنی سے جنگل کے سارے درخت پریشان تھے کیونکہ وہ سارا دن جاگتے۔ دن کی روشنی میں اپنے ان مقاصد کو انجام دیتے جن کے لئے ان کو پیدا کیا گیا تھا۔ بے شک اللہ نے کوئی بھی چیز بلا وجہ پیدا نہیں کی ہر کسی کا ایک مقصد حیات ہے۔ بلکل اسی طرح الو کا بھی تھا۔ لیکن اس کے رات کے جاگنے والے اس مقصد حیات سے آس پاس کی تمام مخلوق پریشان تھی اور سمجھ نہیں پا رہی تھی ۔

ایک دن ایک انسان کا اس جنگل سے گزر ہوا اس نے وہ شاخ کاٹ ڈالی جس پرالو بیٹھتا تھا۔شاخ کے کٹتے ہی جنگل میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ۔درخت بھی بہت خوش تھا کہ چلو اب اسے طعنے نہیں ملیں گے وہ شاخ ہی کٹ گئی ہے۔ جس پر الو بیٹھتا تھا۔

شام کو جب الو واپس اپنے ٹھکانے پرآیا تو شاخ کٹی دیکھی۔ وہ پہلے تھوڑا پریشان ہوا پھر وہ اڑ کر دوسری شاخ پر بیٹھ گیا۔ اس طرح جنگل والوں کی پریشانی وہیں کی وہیں رہی۔ اب جنگل کے درخت الو سے چھٹکارے کی دعائیں مانگنے لگے اپنے رب کی بارگاہ میں ۔ آخر ان کی دعائیں رنگ لائیں اور ایک دن پھر وہی نیک بخت انسان نے جنگل کا رخ کیا۔اس بار اس کا ٹارگٹ کافی ساری شاخیں تھیں۔ اس لئے اس نے لگ بھگ وہ سارے درخت کاٹ دیئے جس پر الو بیٹھ سکتا تھا۔ ہر درخت اس بات پر بے حد خوش تھا کہ اب ان کوکوئی طعنہ نہیں دے سکے گا۔

لکڑہارے نے وہ لکڑیاں کسی بڑھئی کو بیچ دیں۔۔ بڑھئی کے بنائے فرنیچر کی مانگ بڑے پیمانے پر تھی۔۔ایک دن بڑھئی کے پاس آرڈر آیا کہ ہمیں ایک ہی ڈیزائن کی ڈھیر ساری کرسیاں چاہئے۔ جو ایک مخصوص عمارت میں رکھی جائیں گی ۔ جن پر بڑے بڑے لوگ بیٹھیں گے جو دل وجان سے ان کرسیوں کی حفاظت کریں گے۔۔ مر جائیں گے، کٹ جائیں گے لیکن اس کرسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ ۔بڑھئی یہ سن کر بہت خوش ہوا کہ اس کی بنائی ہوئی کرسیوں کی اتنی حفاظت کی جائے گی۔ ا یک کاریگر کے لئے اس سے بڑی خوشی کی اور کیا بات ہوگی کہ اس کی تخلیق کو سرایا جائے گا اس کی تخلیق کی قدر کی جائے گی۔

اس نے ان لکڑیوں سے ڈھیر ساری ایک ہی ڈیزائن کی کرسیاں بنائیں۔لکڑیاں اپنا بدلتا روپ دیکھ کر کچھ حیران اور پریشان تھیں لیکن خوش تھیں کہ سارا دن یہاں صحن میں کبھی بارش اور کبھی سخت دھوپ میں بے جان اوربے سدہ پڑی رہتی ہیں۔ اس طرح کم ازکم وہ کسی کے کام تو آئیں گی۔ بڑھئی نے مقررہ وقت پر آرڈر تیار کر دیا۔ اب وہ خوبصورت ڈیزائن کی کرسیاں ایک بڑے سے شہر کی سب سے اہم عمارت میں موجود تھیں ۔کرسیوں کے لئے اس سے اعزاز کی بات بھلا اور کیا ہو سکتی تھی؟ “کیونکہ اب وہ عام کرسیاں نہیں تھیں.”

آج اس عمارت میں پہلا اسمبلی کا اجلاس تھا۔ شہر کے بڑے بڑے معززین کلف لگے کپڑوں اور کلف زدہ کالرز کے ساتھ ان کرسیوں پر براجمان ہوئے۔

“جن کی روح روح میں کرسی سے محبت گھر کر چکی تھی ۔۔۔۔۔۔وہ سوائے اس کرسی کے کسی کے وفادار نہیں تھے۔”

اجلاس شروع ہوا گرما گرم بحث چلی۔ ا یک دوسرے پر کیچڑ اچھالے گئے لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ کسی کے چہرے پر کوئی ملال نہیں تھا۔ اجلاس میں لڑنے جھگڑنے والے اجلاس ختم ہوتے ہی ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ہی ہی ، کھی کھی کرتے باہر نکل گئے۔

لکڑیاں یہ سب منظر دیکھتی رہیں اور دل ہی میں اپنے اس نئے روپ پر ماتم کرنے لگیں۔۔

اب وہ اس پرانے وقت کو یاد کرنے لگیں۔۔ جب وہ ایک الو کے بیٹھنے پر پریشان تھیں ۔جبکہ وہ بے ضرر تھا۔ جس کا ضمیر راتوں میں بھی جاگتا تھا اور اب ان پر ڈھیروں الو روز بیٹھیں گے جن کے ضمیر جانے کتنے برسوں سے سو رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(فوزیہ قریشی لندن میں مقیم مصنفہ ہیں جو تصنیف کو تخلیق کی حرمت دیتی ہیں)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply